پاکستان کو نیوکلیئر پاور بنانے والوں کو نشان عبرت کس نے بنایا؟

عجیب اتفاق ہے کہ پاکستان کو ایٹمی قوت بنانے والے ذوالفقار علی بھٹو شہید کو ایک جھوٹے مقدمہ قتل میں پھانسی دی گئی، پاکستان کو میزائیل ٹیکنالوجی دینے والی بے نظیر بھٹو کو ایک سڑک پر دن دیہاڑے قتل کیا گیا، ایٹم بم بنانے والے ڈاکٹرعبدالقدیر خان کو چور قرار دے کر تاحیات قید میں ڈال دیا گیا اور ایٹمی دھماکے کرنے والے نواز شریف کو دو مرتبہ اقتدار سے بیدخل کر کے گرفتار کیا گیا اور سزا دی گئی۔ آخر کیا وجہ ہے کہ پاکستانی نیوکلئیر پروگرام شروع کرنے سے لیکر اسے پایہ تکمیل تک پہنچانے والی تمام سویلین شخصیات وردی والوں کے زیر عتاب آئیں حالانکہ ان لوگوں نے پاکستان کو دنیا کی ایک بڑی نیوکلیئر طاقت بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ یاد رہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کو جنرل ضیاء نے پھانسی کے تختے پر چڑھایا اور بے نظیر بھٹو کے قتل کا الزام جنرل مشرف پر عائد ہوا۔ اسی طرح نواز شریف کو بھی پہلی مرتبہ اقتدار سے بے دخل کر کے عمر قید دلوانے والا جنرل پرویز مشرف ہی تھا جس نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان پر چوری اور غداری کا الزام عائد کر کے انہیں زبردستی ریٹائر کردیا اور تاحیات گھر میں قید کر دیا۔ سوال یہ ہے کہ پاکستان کے ان محسنوں کے ساتھ ایسا برا سلوک کیوں کیا گیا؟

پاکستان میں عام تاثر یہی ہے کہ ملک کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کو جمہوریت کی داغ بیل ڈالنے، اقتدار میں عوام کو شریک کرنے اور ایٹمی پاکستان کی بنیاد رکھنے کے جرم میں پھانسی پر چڑھایا گیا اور اس عمل میں جنرل ضیاءالحق امریکہ کا آلہ کار بنا۔ سی آئی اے کی حال ہی میں ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی سے متعلق جاری کی گئی اکتوبر 1978 ء کی ایک دستاویز کے مطابق جنرل ضیاء الحق کے اقتدار میں رہنے کا واحد جواز ذوالفقار علی بھٹو کو کیفرِ کردار تک پہنچانا تھا اس لئے کئی برس پرانے ایک جھوٹے مقدمہ قتل کا سہارا لیا گیا۔ امریکی حکومت کو یہ پیغام دیا گیا تھا کہ جنرل ضیا کا اقتدار میں رہنا افواجِ پاکستان میں ان کی مقبولیت پر منحصر ہے اگر ذوالفقار علی بھٹو کو زندہ چھوڑ دیا گیا اور انجام سے ہمکنار نہ کیا گیا تو افوجِ پاکستان میں جنرل ضیاء غیر مقبول ہو جائیں گے۔ چنانچہ تیسری دنیا کے دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی سازش کا تانا بانا ایسے بُنا گیا کہ جب ذوالفقار علی بھٹو نے ایٹمی پروگرام کی بنیاد رکھی تو اس وقت ان کے قریبی رفقاء غلام مصطفےٰ کھر،خورشید حسن میر، حنیف رامے اور جے اے رحیم وغیرہ کو ان سے دور کر دیا گیا۔ دوسری جانب مذہبی قوتوں کو نادیدہ اور خفیہ قوتوں کے اشارے سے نظامِ مصطفےٰ کی تحریک کے نام پر سڑکوں پر لایا گیا۔ان تمام اسباب کے باوجود بھٹو اپنے دیگر سیاسی قائدین اور جماعتوں کے مقابلے میں مقبول ترین رہنما تھے۔ لہٰذا 5 جولائی 1977ء کی شب فوج کے سربراہ جنرل ضیاء الحق نے اقتدار پر شب خون مار کر عوام کو اِن کے حقِ حکمرانی سے محروم کر دیا۔ آگے چل کر اس سازش میں عدلیہ نے بھی اپنا بھر پور حصہ ڈالا اور پھر بھٹو کی سزائے موت کے فیصلے پر مہرِ تصدیق کرنے کیلئے فوجی حکمران کی جانب سے پنڈی جیل کا انتظام افواجِ پاکستان کے سپرد کر دیا گیا۔

ذوالفقار علی بھٹو قانون کے مطابق اس وقت کے ناجائز صدر ضیا سے رحم کی اپیل کرسکتے تھے لیکن انہوں نے ایک غاصب جرنیل کو رحم کی اپیل دائر نہیں کی جس کے بعد چار اپریل 1979 کو بھٹو کو۔راولپنڈی میں پھانسی دے دی گئی۔ بھٹو نے اپنی موت سے بہت پہلے ہی اپنے خلاف کی جانے والی امریکی سازش کا انکشاف کر دیا تھا ۔انہوں نے راجہ بازار راولپنڈی میں امریکی وزیر خارجہ ہنری کسنجر کا ایک دھمکی آمیز خط لہراتے ہوئے بتایا تھا کہ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کے وجہ سے امریکہ ان کی جان کے درپے ہے ۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ ایک بپھرے ہوئے ہاتھی کی طرح ہے۔ ہاتھی کی یادداشت بہت تیز ہوتی ہے اور وہ کبھی اپنے دشمن کو معاف نہیں کرتا۔ لیکن میں ہر دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے تیار ہوں چاہے اس جنگ میں میری جان ہی کیوں نہ چلی جائے۔ ہاتھی نے پاکستان کے مفادات کی جنگ لڑنے والے بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا کر اپنا انتقام لے لیا۔ تاہم وقت نےثابت کیا ہے کہ بھٹو کو سی آئی اے اور جنرل ضیاء الحق مل کر بھی مار نہ سکے اور بھٹو تاریخ میں زندہ رہنے کو ترجیح دیتے ہوئے امر ہو گیا۔

جنرل ضیاء کی طیارہ حادثے میں بھسم ہو جانے کے بعد1988 کے جماعتی انتخابات کے نتیجہ میں بینظیر عالم اسلام اور پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم بن گئیں۔ جمہوریت دشمن قوتوں کو بینظیر بالکل پسند نہ تھیں، لہذا چند ماہ بعد ہی ان کی حکومت کو ختم کر دیا گیا۔ تاہم بے نظیر کو اقتدار سے بے دخل کر کے آئی جے آئی کے پلیٹ فارم سے نواز شریف کو اقتدار میں لانے والوں کی میاں صاحب سے بھی نہ بنی اور انہوں نے نواز شریف کی پہلی حکومت کا بھی جلد خاتمہ کر دیا۔ نئے انتخابات کے نتیجے میں بینظیر کو دوبارہ اقتدار ملا۔ لیکن دوسرے ہی برس کراچی میں ان کے بھائی میر مرتضی بھٹو کو قتل کرکے ان کی حکومت کا دوبارہ خاتمہ کردیا گیا۔ نواز شریف کو واپس اقتدار میں لایا گیا۔ لیکن دو برس بعد ہی ملک میں ایک دفعہ پھر فوج کی سربراہ جنرل مشرف نے نواز شریف کی جمہوری حکومت کو ختم کر کے مارشل لا لگا دیا۔ 2007 میں بینظیر ان تمام خطرات کے باوجود ملک واپس آئیں۔ انکو ڈرانے کے لئے کراچی میں ان کے جلوس پر خودکش حملہ کروایا گیا جس میں سینکڑوں لوگ مارے گئے۔ بینظیر کو مشرف کی طرف سے پیغام دیا گیا کہ اگر وہ واپس نہ گیئں تو ان کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے۔ بینظیر چند دنوں کے لئے ملک سے باہر گئیں مگر موت کی پرواہ نہ کرتے ہوئے ملک میں واپس آگئیں۔ انہیں علم تھا کہ ان کو قتل کر دیا جائے گا اور ایسا ہی ہوا۔ 27 دسمبر 2008 کو جب وہ راولپنڈی کے لیاقت باغ میں جلسہ سے خطاب کر کے واپس آرہی تھیں تو انہیں شہید کر دیا گیا۔ بی بی نے دراصل اپنی زندگی میں ہی یہ بتا دیا تھا کہ اگر ان کو قتل کر دیا گیا تو مشرف ذمہ دار ہوگا۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ عالم اسلام کی پہلی خاتون وزیراعظم محترمہ بینظیر بھٹو کو اسٹیبلشمنٹ نے جمہوریت کے دفاع اور فوجی آمریت سے لڑنے کی سزا دی۔ یوں انتقام پسند ہاتھی کے لیے کام کرنے والے کنٹریکٹرز نے بھٹو کی بیٹی بے نظیر کو بھی صفحہ ہستی سے مٹا دیا جس نے پاکستان کو میزائل ٹیکنالوجی دی تھی۔پاکستان کی سیاسی تاریخ میں تین مرتبہ وزیراعظم بننے والے واحد سیاسی رہنما نواز شریف کو بھی اس ملک کے عسکری ٹھیکیداروں نے قبول نہ کیا کیونکہ اب وہ عوامی ایجنڈا لے کر آگے بڑھنا چاہتے تھے اور ڈکٹیشن لینے سے انکاری تھے۔ چنانچہ نواز شریف کو ایک بے بنیاد کیس میں عمر بھر کے لئے نااہل قرار دے دیا گیا۔

اس سے پہلے پی پی پی اور پی ایم ایل کے مابین ہونے والے میثاق جمہوریت میں یہ طے پایا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کو ہمیشہ کے لئے بیرکس میں بھیجا جائے گا اور کوئی بھی سیاسی جماعت اب فوج کے ہاتھوں ایک دوسرے کے خلاف استعمال نہیں ہو گی۔ نواز شریف کی چھٹی کروائے جانے کی ایک اہم وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ سابق فوجی آمر پرویز مشرف پر غداری کے مقدمے میں ٹرائل شروع کرانا اسٹیبلشمنٹ کے لئے قابل قبول نہ تھا اور نواز نے یہ بولڈ سٹیپ لے کر اسٹیبلشمنٹ سے پنگا لے لیا تھا۔ یوں امریکی دباؤ کو مسترد کرتے ہوئے ایٹمی دھماکے کرنے والے نوازشریف کو بھی نشان عبرت بنادیا گیا۔

 جنگوں سے ہمیشہ جرنیلوں کو فائدہ اور عوام کو نقصان کیوں ہوتا ہے؟

اسی طرح بابائے ایٹم بم کہلانے والے محسن پاکستان ایٹمی سائنسدان کو ملک کا دفاع ناقابل تسخیر بنانے کا صلہ یہ دیا گیا کہ پرویز مشرف نے امریکہ کی خوشنودی اور اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئے انہیں دو عشرے پہلے چور اور غدار قرار دے کر تا عمر نظر بند کردیا۔ قوم کے دفاع کو مضبوط بنانے والے اس عظیم محسن کو اس وقت مشکلات کا سامنا کرنا پڑا جب مغرب کی غلامی کرنے والے حکمرانوں نے اپنے آقاؤں کے حکم پر انہیں ایٹمی ٹیکنالوجی کی اسمگلنگ میں ملوث قرار دے دیا۔ 4 فروری 2004 کو قوم نے دیکھا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان سرکاری ٹیلی ویژن پر وہ کچھ کہہ رہے ہیں جس کا یقین شاید کسی پاکستانی نے، کبھی بھی نہیں کیا۔ تاہم جس شخص کو مجرم قراردیا گیا تھا وہ آج بھی قوم کا ہیرو ہے اور اس محسن پاکستان سے معافی منگوانے والے فوجی آمر کو ایک خصوصی عدالت غدار قرا دے کر تین مرتبہ سزائے موت کا حکم سنا چکی ہے لیکن مکا لہرانے والا سابق کمانڈو جرنیل سزا کے ڈر سے ملک سے فرار ہوگیا۔

Back to top button