کیا جنگ کے بعد پاکستان اور انڈیا غلط پالیسیوں کو ریورس کریں گے ؟

معروف صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے ایک استعاراتی تحریر میں پاکستان کو انکسار بھائی اور بھارت کو لالہ رعونت قرار دیتے ہوئے ان دو پڑوسیوں کی کہانی بیان کی ہے اور اس امید کا اظہار کیا ہے کہ حالیہ جنگ کے بعد دونوں ہمسائے اپنی غلط پالیسیوں کو ریورس کرتے ہوئے عوامی فلاح کی خاطر جنگ کا راستہ ہمیشہ کے لیے ترک کر کے دوستی کے راستے پر چل نکلیں گے۔

روزنامہ جنگ کے لیے اپنے تازہ تحریر میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ یہ دونوں صدیوں سے ایک ہی محلے کے باسی ہیں، دونوں ایک دوسرے کی اونچ نیچ اور خوبیوں اور خامیوں سے اچھی طرح واقف ہیں، دونوں کے مسائل ایک جیسے ہیں غربت، وسائل کی کمی اور پسماندگی سارے محلے کا مشترکہ مسئلہ ہے، لیکن انکی ذاتی لڑائیاں ایک دوسرے کی ترقی کے راستے میں حائل ہیں۔ دونوں اکٹھے ہی محلے میں آباد ہوئے، لیکن لالہ رعونت نے انکسار بھائی کو شروع سے ہی تنگ کرنا شروع کر دیا۔ یوں وہ 1947 سے ہی عدم تحفظ کا شکار ہو گئے۔

سینیئر صحافی کہتے ہیں کہ لالہ رعونت شروع ہی سے سارے محلے کی ملکیت کے دعویدار بن گئے۔ لالہ غریب محلے داروں سے محبت کرنے کی بجائے انہیں دبا کر رکھنا چاہتا تھا۔ بھائی انکسار نے شروع ہی سے یہ موقف اختیار کیا کہ ہمیں امریکہ اور کینیڈا کی طرح کے محبت کرنے والے پڑوسی بننا چاہئے۔ مگر انکسار بھائی کی خواہش کے برعکس لالہ رعونت کو اپنی بڑائی پر ناز تھا۔ لالہ رعونت بے شک عمر اور طاقت میں بڑا ہے مگر جھوٹی ہوا کے گھوڑے پر سواری کرنے سے اس میں غرور اور تکبر آ گیا ہے۔ اسے اپنے اردگرد کے پڑوسی بونے لگتے ہیں اور وہ خود کو دیو سمجھنے لگا ہے۔ انکسار بھائی سے بھی غلطیاں ہوئیں لیکن وہ بھی اپنے گھر اور حقوق کے دفاع کے لئے بہادری سے ہر وقت لڑنے کے لئے تیار رہا۔

1947 میں محلے کی ابتدا ہی سے انکسار بھائی کی خارجہ امور پر اچھی گرفت تھی۔ سر ظفر اللہ خان، پطرس بخاری، ایم ایچ اصفہانی، میر لائق علی، ایس شاہنواز، آغا شاہی، عزیز احمد اور صاحبزادہ یعقوب علی خان نے دنیا بھر کے ایوانوں میں رعونت بھائی کے کشمیر اور افغانستان پر موقف کو تاریخی شکست دی۔ چنانچہ رعونت بھائی نے سرخ محلے کے روسی ریچھ سے دوستی لگالی، مگر بھائی انکسار نے مستقبل کی دنیا کا اندازہ گا کر امریکی عقاب کا ہمراہی بننا قبول کیا۔ وہ سفارتی سطح پر پہلے دو رائونڈ جیت گئے۔ کشمیر اور افغانستان پر دنیا نے انکسار بھائی کا ساتھ دیا اور لالہ رعونت کونے میں پڑا رہا۔ تاہم انکسار بھائی سے افغان جہاد میں گھسنے کی غلطی ہو گئی۔ اس سے امریکی عقاب کے دل میں گرہ پڑ گئی کہ انکسار ڈبل گیم کھیلتا ہے۔

سہیل وڑائچ کے دنیا کو یہ لگا کہ انکسار بھائی اسامہ بن لادن اور طالبان کی درپردہ اور کھلے عام مدد کرتے ہیں۔ لالہ رعونت نے بھی عالمی محلے میں ڈھول بجا بجا کر ہمارے خلاف پروپیگنڈا کیا، اس نے دنیا کو انکسار بھائی کا چہرہ بھیانک کر کے دکھایا اور اپنے عیار چہرے پر نقاب ڈال لیا۔ ان دونوں پڑوسیوں کی کہانی طویل ہے مگر پھر قدرت کا کرنا کیا ہوا کہ لالہ رعونت نے بھائی انکسار کی خراب عالمی پوزیشن دیکھتے ہوئے اسے باقاعدہ نیچے لگانے کا منصوبہ بنا لیا۔ حالیہ جنگ سے پہلے بھی دنیا دنیا لالہ رعونت کے رویے سے شاکی تھی، لیکن اس کی جھوٹی پھوں پھاں، عظمت کے دعوئوں اور معاشی مجبوریوں کی وجہ سے بہت سارے ممالک چپ تھے۔ تاہم  انکسار بھائی کے ہاتھوں لالہ کی عزت کیا تار تار ہوئی، اب عالمی محلے کے لوگ بھی اسکی زیادتیوں کے بارے میں انکشاف کر رہے ہیں۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ لالہ رعونت انا کی پہاڑی پر چڑھا رہا اور محلے داری کے اصول پامال کرتا رہا۔ دوسری جانب انکسار بھائی امریکی سفارتکار، برطانوی ڈپلومیٹس اور حتی کہ ہر غیر ملکی مہمان کے سامنے جھک جاتے ہیں۔ امریکی سفارتکار تو انکسار بھائی کی آنکھوں کا تارا ہے جبکہ لالہ ان سفارت کاروں کو سرے سے اہمیت ہی نہیں دیتا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ انکسار بھائی کا امریکی سفارتخانے اور سفارتکاروں سے جنگ کے درمیان لمحہ بہ لمحہ رابطہ تھا۔ ان سفارتکاروں نے انکسار بھائی کا مقدمہ واشنگٹن کے سفارتی محلے میں اس موثر طریقے سے پہنچایا کہ ٹرمپ اور انکی خارجہ ٹیم کا جنوب ایشیائی خطے کا اسٹرٹیجک منصوبہ ہی بدل دیا۔ دوسری طرف لالہ رعونت کے ہاں امریکی سفارتخانہ کا کردار سرے سے ہی نہیں تھا کیونکہ لالہ رعونت انہیں لفٹ ہی نہیں کرواتے۔لالہ رعونت کو خبط عظمت اتنا ہے کہ وہ اپنی بڑائی کو اکڑ سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ لالہ رعونت نے انکسار بھائی کے خلیجی عزیزوں کو بھی چکنی چپڑی باتوں میں لگا لیا تھا۔ یہ ممالک کلمہ تو انکسار بھائی والا پڑھتے ہیں مگر وہ لالہ رعونت سے مرعوب ہو کر اس سے کاروباری پینگیں بڑھا رہے تھے۔ ان خلیجی دوستوں نے انکسار بھائی سے مالی امداد کے وعدے تو بہت کئے لیکن عملی طور پر کچھ نہ کیا۔ دوسری طرف لالہ رعونت کو انہوں نے سر چڑھایا ہوا تھا اور اس سے دھڑا دھڑ معاہدے کر رہے تھے۔

سینیر صحافی کا کہنا ہے کہ حالیہ جنگ میں پاکستان کے ہاتھوں انڈیا کی واضح شکست کے بعد کچھ خلیجی ممالک کی آنکھیں کھل گئی ہیں اور انہیں انکسار بھائی کی انکساری کے پیچھے چھپی طاقت کا احساس ہو گیا ہے۔ یورپ کے کئی سفیروں نے سرکاری اور کئی ایک نے غیر سرکاری طور پر انکسار بھائی کو لالہ رعونت کا غرور اور جھوٹا تکبر توڑنے پر مبارکباد بھی دی ہے۔ غرور کا سر وقتی طور پر تو نیچا ہو چکا اب انکسار بھائی کو اپنے تاثر کو دیرپا اور دور رس بنانے کے لئے فوراً اقدامات کرنا ہوں گے۔ انکسار بھائی کی انکساری تو سب کو پسند ہے لیکن ہمیں دہشت گردوں کی سرپرستی کے حوالے سے خود پر لگائے جانے والے غیروں کے اعتراضات بھی دور کرنے چاہئیں۔ پاکستان کی جانب سے طالبان کی بے جا حمایت اور کشمیر  میں اپنے جہادی بھیجنے پر سفارتی دنیا کو جھوٹے یا سچے تحفظات ہیں۔ اب لگتا ہے کہ انکسار بھائی ماضی کی دانستہ یا نادانستہ لغزشوں کو فکس کرنے پر آمادہ ہو چکے ہیں۔ کشمیریوں کی اخلاقی اور سفارتی مدد سے ایک نہ ایک دن یہ مقدمہ جیتا جانا پتھر پر لکیر ہے، لیکن نائن الیون کے بعد کی دنیا میں دہشت گردی ایک بہت بڑا جرم بن چکی ہے، ایسے میں انکسار بھائی کو اس الزام سے جان چھڑانی چاہئے۔

انڈیا کی شکست نے پاکستان پر لگا پہلگام حملے کا الزام کیسے دھویا؟

پاکستان کےسیاسی عدم استحکام میں اس وقت سب سے بڑا مسئلہ عمران خان اور فوج کے متضاد بیانیے اور رویئے ہیں۔ اس معاملے میں انائیں زیادہ اور اصول کم ہیں لہذا سمجھنے کی بات یہ ہے کہ دونوں طرف کی لچک ہی دیرپا سیاسی استحکام کی بنیاد بن سکتی ہے۔

Back to top button