ماضی کے برعکس پاکستان اور روس ایک دوسرے کے قریب کیوں آنے لگے؟

شہباز شریف حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد سے پاکستان اور روس کے مابین سفارتی، تجارتی اور دفاعی تعلقات میں تیزی سے بہتری ہوتی نظر آ رہی ہے جو پاکستان سے مخاصمت رکھنے والے ہمسایہ ممالک کے لیے تشویش کا باعث ہے۔
بین الاقوامی امور پر نظر رکھنے والے سیاسی ماہرین کا کہنا ہے پاکستان اور روس کی قربت کی وجہ یہ بھی ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے میں نئی دہلی نے واشنگٹن سے قریبی تعلقات مزید استوار کیے اور دونوں ممالک کے درمیان سیاسی، معاشی، دفاعی تعاون کے ساتھ سٹریٹجک پارٹنرشپ بھی قائم کی گئی ہے۔ اس صورتِ حال میں پاکستان کے امریکہ سے تعلقات کمزور ہوئے اور پاکستان سمجھتا ہے کہ اس سے خطے میں طاقت کا توازن بگڑا ہے۔ اسی کے باعث اسلام آباد نے چین کے علاوہ اس کے اتحادی اور دوست روس سے بھی قریبی تعلقات استوار کیے ہیں۔
سفارتی حلقوں کا کہنا ہے کہ پچھلے ایک برس کے دوران دونوں ملکوں کے درمیان مختلف اُمور بالخصوص دفاع اور تجارت کے شعبوں میں تعاون بڑھا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان آزمائشی بنیادوں پر ریل لنک کا افتتاح بھی آئندہ ماہ ہونے جا رہا ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ روس اور پاکستان کے تعلقات میں بہتری کے پیچھے بنیادی وجہ تبدیل شدہ عالمی حالات اور دفاعی و معاشی ضروریات ہیں۔ ان کے خیال میں پاکستان نے یہ تاخیر سے ہی سہی مگر اب یہ احساس کیا ہے کہ اسے روس ہو یا امریکہ، تمام ہی عالمی طاقتوں کے ساتھ متوازن تعلقات اپنانے کی ضرورت ہے۔ دونوں ممالک کے حکام نے گزشتہ برس آزمائشی بنیادوں پر سامان لے کر جانے والی ٹرین چلانے پر اتفاق کیا تھا۔ امید کی جارہی ہے کہ یہ ٹرین مارچ کے وسط میں روانہ کی جا سکتی ہے جو پاکستان سے ایران اور آذربائیجان کے راستے روس تک پہنچے گی۔
اس وقت اسلام آباد اور ماسکو اقتصادی، صنعتی، دفاعی اور سیکیورٹی تعاون سمیت مختلف شعبوں میں ایک دوسرے سے تعاون کررہے ہیں۔ وائس آف امریکہ کی ایک رپورٹ کے مطابق دونوں ملکوں کے درمیان دفاع اور سلامتی کے شعبوں میں تعاون میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے اور اس ضمن میں دونوں ممالک کے درمیان دس سال قبل ہونے والا تاریخی دفاعی تعاون معاہدہ اہم سنگِ میل تھا۔ اس معاہدے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان تعلقات میں بہت زیادہ پیش رفت دیکھنے میں آئی ہے۔ اسی معاہدے کے تحت دونوں ممالک کی افواج کے درمیان اب تک سات مشترکہ جنگی مشقیں بھی ہو چکی ہیں۔ جب کہ کچھ سال پہلے پاکستان نے روسی ساختہ ایم آئی 35 ہیلی کاپٹرز بھی خریدے تھے جو پاکستان کی آرمی ایوی ایشن کور کے زیرِ استعمال ہیں۔
پاکستان اور روس کے درمیان 2014 میں ہونے والا معاہدہ سیاسی اور عسکری اُمور پر معلومات کے تبادلے کے لیے اہمیت کا حامل سمجھا جاتا ہے۔ دونوں ممالک کے مطابق بین الاقوامی سلامتی کو فروغ دینے کے لیے تعاون، انسداد دہشت گردی اور اسلحہ کنٹرول کی سرگرمیوں میں تیزی لانے اور دونوں افواج کے درمیان ایک دوسرے کے تجربات کا تبادلہ اس معاہدے کی وجوہات تھیں۔ پاکستان اور روس کے درمیان بڑھتے ہوئے تعلقات جہاں بدلتے عالمی حالات کا پیش خیمہ ہیں، وہیں یہ اس بات کی بھی نشان دہی کرتا ہے کہ پاکستان دنیا کی تمام بڑی طاقتوں کے ساتھ اپنے تعلقات میں توازن رکھنا چاہتا ہے۔
سفارتی ماہرین بتاتے ہیں کہ پاکستان روایتی طور پر امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں کے علاوہ چین، روس اور دنیا کی دیگر اُبھرتی ہوئی معاشی طاقتوں سے بھی بہتر تعلقات اُستوار کرنا چاہتا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ پاکستان کے روس سے سیکیورٹی کے شعبے میں بڑھتے ہوئے تعاون کی وجہ خطے کی جیوپولیٹیکل صورتِ حال میں تبدیلی ہے اور اس کے ساتھ دونوں ممالک کے درمیان سیکیورٹی اُمور پر مشترکہ خدشات بھی ہیں۔
دوسری جانب تجزیہ کاروں کے مطابق روس بھی اپنی خارجہ پالیسی میں تبدیلی لایا ہے اور اب وہ پاکستان کو زیادہ اہمیت دینے لگا ہے۔ انکامکہنا یے کہ یوکرین جنگ کے بعد امریکی پابندیوں کی وجہ سے روس کو بھی نئی مارکیٹس کی تلاش تھی تاکہ وہ تیل اور گیس دیگر ممالک کو فروخت کر سکے، ایسے میں پاکستان جیسے بڑی آبادی والے ممالک بھی اُس کی نظر میں ہیں۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ ان تعلقات کو تعمیری اور بامقصد بنانے میں ابھی بہت کچھ مزید کرنا باقی ہے۔
پاکستان کے سابق سفیر ڈاکٹر جمیل احمد کا کہنا ہے کہ اقوامِ متحدہ کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق اس وقت 20 مختلف دہشت گرد گروپ افغانستان کی سرزمین سے آپریٹ کررہے ہیں جن میں کالعدم تحریکِ طالبان اور داعش جیسے دہشت گرد گروپ بھی شامل ہیں۔ اُن کے بقول داعش جیسی تنظیموں کی افغانستان میں موجودگی، پاکستان کے ساتھ ساتھ روس کے لیے تشویش کا باعث ہے اور یہی وجہ ہے کہ دونوں ممالک انٹیلی جینس شیئرنگ اور انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں میں بھی تعاون کر رہے ہیں۔
دونوں ممالک کے درمیان ایسے وقت میں معاشی اور تجارتی میدان میں بھی تعاون دیکھا جا رہا ہے جب پاکستان کو معاشی طور پر شدید چیلنجز کا سامنا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایک جانب پاکستان آئی ایم ایف، دیگر مغربی ممالک اور ان کے مالیاتی اداروں سے ملنے والی معاشی امداد پر اپنا بوجھ کم کرنا چاہتا ہے اور دوسری جانب وہ شنگھائی تعاون تنظیم سمیت دیگر علاقائی تعاون کی تنظیمیوں کے ذریعے فائدہ اُٹھانے کا متمنی ہے۔ اس مقصد کے لیے پاکستان 2017 میں ‘ایس سی او’ کا رُکن بنا تھا جس کے بعد اس کے پڑوسی ملک بھارت کو چھوڑ کر روس اور دیگر رکن ممالک کے ساتھ معاشی تعلقات میں مزید بہتری دیکھنے میں آئی ہے اور پاکستان کی تجارت ان ممالک سے بڑھی ہے۔
روس میں پاکستان کے سفیر خالد جمالی نے گزشتہ برس ایک بیان میں کہا تھا کہ روس کی باضابطہ دعوت کے بعد پاکستان جلد ہی انٹرنیشنل نارتھ ساؤتھ ٹرانسپورٹ کوریڈور کا حصہ بنے گا۔ یہ راہداری بحری جہازوں، ریل اور روڈ کے ذریعے منسلک ہو گی۔ ابتدائی طور پر اس راہداری کو بھارت سے سامان ایران تک سمندر کے راستے اور پھر وہاں سے سڑک اور ریل دونوں کے ذریعے آذربائیجان، روس، وسط ایشیائی ریاستوں اور یورپ تک منتقل کرنے کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔ اس روٹ سے نہ صرف سامان کی ترسیل کی قیمت کم ہونے کے اندازے لگائے گئے ہیں بلکہ اسے سوئز کینال کی راہداری کے متبادل کے طور پر بھی پیش کیا جارہا ہے۔
دبئی میں ہونے والی پاک بھارت کرکٹ کی جنگ کا فاتح کون ہو گا؟
گزشتہ سال روسی نائب وزیراعظم نے پاکستان کا دورہ کیا تھا اور اس دوران دونوں ملکوں کے درمیان بارٹر ٹریڈ کو حتمی شکل بھی دی گئی تھی۔ اس عمل سے روسی اور پاکستانی کمپنیوں کے درمیان چنے، چاول، پھلوں سمیت مختلف اشیا کے لین دین کا معاہدہ عمل میں آیا تھا۔ تاہم ابھی اس کا حجم کافی کم ہے۔ لیکن تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ مال کے بدلے مال کی تجارت سے دونوں ملکوں کے لیے فائدہ مند ثابت ہو گی اور اس طرح دونوں ممالک کے درمیان باہمی تجارتی حجم میں اضافے کے ساتھ بالخصوص پاکستان کو امریکی ڈالر پر انحصار کم کرنے میں مدد ملے گی۔