پاک فوج اور دہشتگرد ایک دوسرے کے خلاف ڈرون استعمال کرنے لگے

خیبر پختونخوا کے جنوبی اضلاع میں سکیورٹی فورسز اور مسلح شدت پسندوں کے درمیان جھڑپوں اور حملوں میں ایک مرتبہ پھر خطرناک حد تک اضافہ ہو گیا ہے اور دونوں سائیڈز آخری حد تک جاتے ہوئے ایک دوسرے کے خلاف ڈرونز اور کواڈ کاپٹر استعمال کر رہی ہیں۔ بگڑتی ہوئی لا اینڈ آرڈر صورتحال کے پیش نظر انتظامیہ نے شام کے بعد لوگوں کے گھروں سے باہر نکلنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔
خیبر پختون خواہ میں دہشت گردی سے متاثر ہونے والے قبائلی اضلاع میں شمالی وزیرستان، اپر جنوبی وزیرستان اور لوئر جنوبی وزیرستان شامل ہیں۔ انکے علاوہ لکی مروت، ٹانک اور کلاچی جیسے شہری علاقوں میں بھی پر تشدد کاروائیوں کے واقعات بڑھ گئے ہیں۔
انتظامیہ کے مطابق ان علاقوں میں مغرب کی اذان سے صبح سورج نکلنے تک نقل و حرکت پر پابندی لگانے کی وجہ لا اینڈ آرڈر کی ابتر صورت حال ہے۔
یاد رہے کہ 2014 میں پاکستان آرمی کے آپریشن ضرب عضب کے بعد پہلی مرتبہ وزیرستان میں شام کے بعد نقل و حرکت پر پابندی عائد کی گئی ہے جس سے عام لوگ خوف زدہ ہیں۔ خیال رہے کہ وزیرستان کے علاقے میں عسکریت پسند کمانڈر حافظ گل بہادر کا گروپ سرگرم ہے جو مختلف علاقوں میں دہشت گردی کی کارروائیاں کرتا آیا ہے۔ شام کے بعد نقل و حرکت پر پابندی لگنے کے بعد بازار ویران ہیں کیونکہ عوام میں خوف پایا جاتا ہے۔
شمالی وزیرستان میں گذشتہ کچھ عرصے سے عسکریت پسندوں اور سکیورٹی فورسز کے مابین ہونے والی جھڑپوں میں عام شہری بھی نشانہ بن رہے ہیں۔ رہائشیوں کے مطابق کواڈ کاپٹر اور ڈرونز کے ذریعے ہونے والے حملوں میں عام شہری بھی نشانہ بن رہے ہیں۔ تاہم ابھی تک یہ واضح نہیں ہو پایا کہ ڈرونز کا استعمال سکیورٹی فورسز کر رہی ہیں یا حافظ گل بہادر چونکہ ڈرونز دونوں کے پاس موجود ہیں۔ ایسے ہی ایک واقعے میں 19 مئی کو میر علی کے گاؤں ہرمز میں ایک مکان پر کواڈ کاپٹر حملے کے نتیجے میں چار بچے جان کی بازی ہار گئے تھے۔ اس واقعے کے بعد مقامی افراد نے دھرنا بھی دیا گیا تھا جو چھ دن بعد ختم کر دیا گیا تھا۔
خیبر پختون خواہ حکومت کے ترجمان بیرسٹر سیف نے ڈرون اور کواڈ کاپٹر کی استعمال کی حوالے سے بتایا کہ یہ واضح نہیں ہے کہ انہیں عسکریت پسند استعمال کر رہے یا کوئی اور۔ انہوں نے بتایا کہ عسکریت پسندوں کی کچھ ویڈیوز میں ڈرون کا استعمال دکھایا گیا ہے لیکن چونکہ وہاں جنگی ماحول ہے اور سکیورٹی فورسز علاقے کو کنٹرول کر رہی ہیں لہٰذا اس حوالے سے تفصیلات سیکیورٹی فورسز ہی دے سکتی ہیں۔
کیا خود پسند مریم نواز پنجاب کا نام بھی تبدیل کرنے جا رہی ہیں؟
جنوبی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے سینیئر صحافی احسان اللہ ٹیپو محسود نے اپنے ایکس اکاؤنٹ پر لکھتے ہوئے بتایا ہے کہ ’جنوبی وزیرستان اور شمالی وزیرستان ایک بار پھر آپریشن ضرب عضب اور راہ نجات کے ہنگامہ خیز دور کی طرف تیزی سے واپس جاتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ سکیورٹی فورسز اور طالبان کے درمیان شدید جھڑپوں کا سب سے زیادہ نقصان عام شہری اٹھا رہے ہیں۔ احسان اللہ ٹیپو محسود کا کہنا تھا کہ موجودہ حالات میں جس طرح علاقے میں طالبان نظر آ رہے ہیں اور وزیرستان میں جیسے واقعات پیش آ رہے ہیں ان سے ایسا لگتا ہے کہ سکیورٹی فورسز کو ایک اور ملٹری آپریشن کرنا پڑے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ اسوقت پورے جنوبی پختونخوا میں کشیدگی پائی جاتی ہے کیونکہ بازاروں اور مارکیٹوں میں مسلح طالبان جنگجو سر عام پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔
اگرچہ سرکاری سطح پر طالبان کی موجودگی کی تصدیق نہیں کی جاتی لیکن سوشل میڈیا پر جس طرح کی ویڈیوز سامنے آتی ہیں، ان میں دیکھا جا سکتا ہے کہ سڑکوں پر مسلح افراد لوگوں کی تلاشی بھی لیتے ہیں اور وہاں اپنی موجودگی بھی ظاہر کرتے ہیں۔ سینیئر صحافی کا کہنا تھا کہ ان دنوں جیسے سکیورٹی فورسز پر حملے ہو رہے ہیں اور کواڈ کاپٹرز اور ڈرونز استعمال کیے جا رہے ہیں اس سے صورتحال انتہائی تشویش ناک ہو چکی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ طالبان شدت پسند مسلسل فوجی قافلوں پر بارود سے بھری گاڑیوں کیساتھ حملہ آور ہو رہے ہیں۔ اس کے علاوہ جنگجو سرکاری مقامات پر ڈرون اور کواڈ کاپٹرز کے ذریعے بھی حملے کر رہے ہیں۔ چنانچہ اس وقت ان علاقوں میں بے یقینی کی صورتحال ہے اور لوگوں میں خوف و ہراس ہھیلا ہوا ہے۔ لہٰذا ایسا لگتا ہے کہ حکومت کے پاس صورتحال سے نمٹنے کا آخری راستہ ایک نیا فوجی آپریشن ہی ہے۔