انڈیا سے جنگ کے بعد پاکستان دوبارہ امریکی ترجیح کیوں بن گیا؟

معروف اینکر پرسن سلیم صافی نے کہا ہے کہ حالیہ پاک بھارت جنگ انڈیا نے چھیڑی لیکن شکست بھی اسے ہوئی جس کے نتیجے میں پاکستان دوبارہ امریکی ترجیحات میں شامل ہو گیا۔ پاکستان نے بھارتی فضائیہ کے زیراستعمال دنیا کے بہترین رافیل جہاز سمیت 6 لڑاکا طیاروں کو مار گرایا۔ اسکے برعکس پاکستان ائیر فورس کے تمام جنگی طیارے محفوظ رہے۔ اسی طرح پاکستان نے بھارت کا ڈیڑھ ارب ڈالرز مالیت کا روسی ساختہ ایس 400 ائیر ڈیفنس میزائل سسٹم بھی تباہ کر دیا۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ پاکستان نے انڈیا کے مواصلاتی نظام کو جام کر دیا، لہذا اب دنیا یہ جان گئی ہے کہ پاکستان نہ صرف بطور ایٹمی طاقت تگڑا ہو چکا ہے بلکہ روایتی جنگ میں بھی خطے میں اس کا کوئی ثانی نہیں۔ یوں عالمی سطح پر امریکہ سمیت دنیا کی نظروں میں پاکستان کی اہمیت میں اضافہ ہو گیا ہے۔
روزنامہ جنگ کے لیے اپنے تازہ تجزیے میں سلیم صافی کہتے ہیں کہ داخلی محاذ پر یہ فائدہ ہوا کہ وقتی طور پر سہی لیکن اس جنگ نے پاکستانی قوم کو یک جان کر دیا۔ اگرچہ ماضی میں بھی کارگل جنگ کے دوران امریکہ نے پاکستان اور بھارت کو جنگ بندی پر مجبور کیا، لیکن ایک عرصے سے بھارت کے رویے میں عجیب قسم کا غرور آیا گیا تھا۔ وہ خود کو بڑی اقتصادی اور فوجی طاقت سمجھنے کے علاوہ خود کو خطے کا چوہدری بنانے کی کوشش میں لگا ہوا تھا۔ ماضی میں جس نے بھی کشمیر کے معاملے میں ثالثی کی پیشکش کی تو انڈیا نے اسے تکبر سے ٹھکرا دیا۔ بھارت کا موقف یہ رہا کہ کشمیر پاکستان اور بھارت کا دو طرفہ معاملہ ہے اور کسی تیسرے فریق کواس میں مداخلت کا اختیار نہیں۔
دنیا سمجھتی تھی اور بالکل ٹھیک سمجھتی تھی کہ افغانستان کے حالات بھی پاکستان اور بھارت کی پراکسی وار کی وجہ سے خراب رہتے ہیں چنانچہ باراک اوباما نے جب صدر بننے کے بعد سہ فریقی یعنی پاکستان، افغانستان اور انڈیا
فورم بنانے کا اعلان کیا تو بھارت نے اس کا بہت برا منایا۔ بھارتی قیادت نے کہا کہ کہاں پاکستان اور کہاں انڈیا۔ ہمیں پاکستان کے ساتھ نہ ملایا جائے، چنانچہ انڈیا کے احتجاج کے بعد امریکہ نے بھارت کو اس فورم سے نکال دیا اور صرف پاکستان اور افغانستان کا فورم یعنی ایف پاک رہ گیا۔ اسی طرح جب عمران خان نے بطور وزیراعظم امریکہ کا دورہ کیا تو وہاں ان کی اپیل پر ڈونلڈ ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر پر ثالثی کی پیشکش کی لیکن بھارت نے یہ کہہ کر آفر مسترد کردی کہ کسی تیسرے فریق کا پاک بھارت معاملات سے کوئی سروکار نہیں ہونا چاہئے۔
سلیم صافی کہتے ہیں کہ جب سے مودی انڈیا کا وزیراعظم بنا ہے اکثر بھارتیوں کے رویے میں بھی ایک تکبر آ گیا ہے۔ میں پہلی مرتبہ ۲۰۰۷ میں انڈیا گیا اور ان کے مجموعی رویے کو بڑا خوشگوار پایا، لیکن دوسری مرتبہ ٹریک مذاکرات کیلئے بھارت جانے کا اتفاق ہوا تو ان کے صحافیوں اور دانشوروں کا رویہ بڑا متکبرانہ ہو چکا تھا۔ وہ مسلسل پاکستان پر دہشت گردوں کی مدد کا الزام لگاتے ہوئے مودی کی زبان بول رہے تھے۔ انکا کہنا تھا کہ آپ مقبوضہ کشمیر کو بھول جائیں اور اگر بات کرنی ہے تو پاکستانی سائیڈ کے کشمیر پر کریں۔ وہ یہ تاثر دیتے تھے کہ انڈیا کے مقابلے میں پاکستان کی کوئی حیثیت نہیں۔ یہ متکبرانہ رویہ مجھے اس قدر برا لگا کہ میں دیگر ساتھیوں کو ادھر چھوڑ کر واپس پاکستان آ گیا۔ کشمیر کے مسئلےپر ثالثی تو چھوڑیں، انڈیا پہلگام کے حملے کی تحقیقات کیلئے بھی نہ تو پاکستان کی پیشکش کو قبول کر رہا تھا اور نہ کسی عالمی ادارے کو بیچ میں لانے کیلئے تیار تھا۔ غرض اس کا تکبر انتہائوں کو چھو رہا تھا جب کہ دوسری طرف پاکستان چھوٹا ملک ہونے کے باوجود بڑی مشکلات سے دو چار تھا۔
افغانستان کی سی پیک میں شمولیت پر بھارت چیخیں کیوں مارنے لگا؟
صدر بائیڈن اور پھر ٹرمپ کے دور میں یہ بات ہر زبان پر تھی کہ امریکی ترجیحات میں اب پاکستان شامل نہیں رہا۔ اپوزیشن طعنے دے رہی تھی کہ پاکستان سفارتی تنہائی کا شکار ہے۔ لیکن بھارت کے تکبر اور حالیہ جارحیت نے سفارتی محاذ پر کئی حوالوں سے پاکستان کو فائدہ پہنچایا۔ مثلاََ امریکی صدر تسلسل کے ساتھ ذکر کر رہے ہیں کہ انہوں نے پاکستان اور انڈیا میں جنگ بندی کرائی۔ انکے یہ بیانات جب مودی سنتا ہے تو اس پر نہایت گراں گزرتے ہیں لیکن وہ انکار نہیں کر سکتا۔ یوں جس امریکہ کو وہ پاک بھارت تنازعے سے باہر رکھنا چاہتا تھا وہ خود اس کے ”کارناموں“ سے دخیل ہو گیا۔ بھارتی حکمران پاکستان کا ذکر نہایت حقارت سے کرتے ہوئے پاکستان کو معاشی اور سیاسی حوالوں سے طعنے دیا کرتے تھے لیکن ڈونلڈ ٹرمپ دونوں ممالک کو برابر رکھ کر بات کرتے ہیں۔ بھارت کو زعم تھا کہ دنیا کے اکثر ممالک اس کا ساتھ دیں گے لیکن پاکستان کو چونکہ اب کی بار اخلاقی برتری حاصل تھی، اس لئے اسرائیل کے سوا کسی نے بھارت کا ساتھ نہ دیا۔ دوسری طرف چین، ترکیہ اور آذربائیجان کھل کر پاکستان کے ساتھ کھڑے ہوگئے۔ برطانیہ متوازن رہا۔ عرب ممالک اگرچہ ثالثی کی کوشش کر رہے تھے لیکن جھکائو ان کا بھی پاکستان کی طرف اس لئے تھا کیونکہ وہ جانتے تھے کہ انڈیا بدمعاشی کررہا ہے اور پاکستان کا موقف اصولوں پر مبنی ہے۔ دوسری طرف بھارت نے پہلی کارروائی میں معصوم شہریوں کے ساتھ ساتھ دو مساجد کو بھی شہید کیا اور اسکی وجہ سے بھی مسلمانوں کا جھکائو پاکستان کی طرف ہو گیا۔
سلیم صافی کہتے ہیں کہ پاک بھارت جنگ کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوا کہ ٹرمپ بھی اب کشمیر کا ذکر کر رہے ہیں اور انڈیا کے خیال میں دفن ہو جانے والا مسئلہ کشمیر بھی دوبارہ عالمی سطح پر اجاگر ہو چکا ہے۔ پہلے صرف پاکستان کہتا تھا کہ کشمیر دو نیوکلئیر طاقتوں کے درمیان فلیش پوائنٹ ہے لیکن اب دنیا نے خود دیکھ لیا کہ مسئلہ کشمیر کسی بھی وقت ایک ایٹمی جنگ کے آغاز کا باعث بن سکتا ہے۔