پاکستان کو نریندر مودی سے خیر کی توقع کیوں نہیں رکھنی چاہیے

سینئر صحافی اور تجزیہ کار حامد میر نے کہا کہ ہمیں نہ تو پہلے بھارتی وزیر اعظم مودی سے خیر کی توقع تھی اور نہ ہی آئندہ کسی خیر کی توقع ہے۔ ہم انڈیا کے ساتھ امن چاہتے ہیں لیکن اگر مودی جیسے انتہا پسند لوگ اقتدار میں رہے تو امن قائم نہیں ہو سکے گا۔ مودی جیسے لوگ صرف پاکستان کیلئے نہیں بلکہ بھارت کے ہر مسلمان اور کرسچین کیلئے خطرہ ہیں کیونکہ یہ ان دونوں مذاہب کے پیروکاروں کو آئوٹ سائڈرز سمجھتے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ مودی کابینہ کے ایک وزیر کے ہاتھوں بھارتی فوج کی ترجمانی کرنے والی کرنل صوفیہ قریشی جیسے مسلمان ہمدردی کے مستحق ہیں، جب تک بی جے پی اور آر ایس ایس اپنی انتہا پسندانہ سوچ نہیں بدلتی کرنل صوفیہ انڈیا میں ایک آئوٹ سائڈر ہی رہے گی۔
اپنی تازہ تحریر میں حامد میر کہتے ہیں کہ کرنل صوفیہ قریشی کا تعلق بھارتی فوج کی سگنل کور سے ہے۔ بھارتی ریاست گجرات میں پیدا ہونے والی کرنل صوفیہ کو تب اچانک شہرت ملی جب انہوں نے 7 مئی کو انڈین ایئر فورس کی ونگ کمانڈر وامیکا سنگھ کے ہمراہ ایک پریس بریفنگ میں پاکستان کے خلاف آپریشن سندور کا اعلان کیا۔ بھارتی فوج نے دو خواتین کو اپنا ترجمان بنا کر عالمی میڈیا میں خاصی توجہ حاصل کی۔ کرنل صوفیہ کا تعلق ایک مسلمان خاندان سے تھا لہٰذا عالمی میڈیا میں یہ پیغام بھی دیا گیا کہ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ کوئی امتیازی سلوک نہیں ہوتا۔
کرنل صوفیہ قریشی کے والد بھی بھارتی فوج میں خدمات سر انجام دے چکے ہیں اور انکے خاوند کرنل تاج الدین کا تعلق بھی بھارتی فوج سے ہے۔ کرنل صوفیہ نے آپریشن سندور کے متعلق سچ بولا یا جھوٹ؟ آپریشن سندور میں واقعی دہشت گردوں کے تربیتی مراکز کو نشانہ بنایا گیا یا بے گناہ عورتوں اور بچوں کو خون میں نہلایا گیا؟ ان سوالات کے جواب ٹھوس شواہد کے ساتھ دنیا کے سامنے آ چکے ہیں۔ بھارتی فوج نے اس آپریشن میں پاکستان کی بے گناہ سول آبادی پر حملہ کیا اور مساجد پر میزائل مارے۔ بہاولپور، مریدکے اور مظفر آباد کی مساجد کو تباہ کر کے ایک مسلمان فوجی افسر سے یہ اعلان کرایا گیا کہ ہم نے دہشت گردوں پر حملہ کیا ہے پاکستان کی فوج پر حملہ نہیں کیا۔ چند دن تک تو کرنل صوفیہ کی بھارت میں بڑی واہ واہ ہوئی لیکن جب بھارت نے پاکستان کے فوجی اڈوں پر حملہ کیا تو بھارتی حکومت کے ہوش اڑ گئے۔
حامد میر کہتے ییں کہ پاکستان ایئر فورس، آرمی اور نیوی نے مل کر بھارت کا غرور خاک میں ملا دیا۔ بھارت نے امریکہ سے مداخلت کی درخواست کی اور امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پاکستان اور بھارت میں سیز فائر کا اعلان کر دیا۔ یہ سیز فائر صرف بھارتی میڈیا نہیں بلکہ بھارت کی حکمران جماعت بی جے پی کیلئے بھی کسی ذہنی صدمے سے کم نہ تھا کیونکہ انہیں تو یہ بتایا گیا تھا کہ آپریشن سندور کا نتیجہ پاکستان کے خاتمے پر ہو گا۔ آپریشن سندور کے بعد پاکستان پہلے سے زیادہ مضبوط ریاست کے طور پر ابھر کر سامنے آیا اور بھارت کی ساکھ دنیا بھر میں مجروح ہوئی۔ وہ بھارت جو ہمیشہ مسئلہ کشمیر پر امریکہ سمیت کسی بھی تیسرے ملک کی ثالثی کو مسترد کر دیتا تھا اس بھارت کیلئے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے بیانات ہزیمت کا باعث بن رہے تھے۔ مودی دعویٰ کر رہے تھے کہ پاکستان نے سیز فائر کیلئے بھارت سے رابطہ کیا لیکن ٹرمپ نے بار بار بتایا کہ سیز فائر تو انہوں نے کرایا بلکہ سعودی عرب کے دورے کے دوران انہوں نے یہ بھی بتایا کہ امریکی وزیر خارجہ عنقریب پاکستان اور بھارت کے وزرائے اعظم کو ڈنر پر اکٹھا کرنے کی کوشش کریں گے۔
ٹرمپ کے بیانات نے مودی کو ایک مذاق بنا دیا لہٰذا بی جے پی اور آر ایس ایس نے پہلے تو بھارت کے سیکرٹری خارجہ وکرم مسری کے خلاف گالی گلوچ کا طوفان برپا کیا اور پھر ان کا اگلا نشانہ کرنل صوفیہ بن گئیں۔ جس خاتون فوجی افسر نے آپریشن سندور کی کامیابی کا اعلان کیا اسی افسر کو بی جے پی نے دہشت گردوں کی بہن قرار دے دیا۔ کرنل صوفیہ کے خلاف سب سے قابل مذمت تقریر بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کے وزیر کنور وجے شاہ نے کی۔ انہوں نے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے مودی کے ویژن کی تعریف کی اور کہا کہ مودی نے دہشت گردوں کے خلاف کامیاب آپریشن کا اعلان ان کی ایک بہن سے کرایا جس نے پوری دنیا کو بتایا کہ ہم نے دہشت گردوں کو ان کے گھر میں گھس کر مارا۔
حامد میر کے بقول کنور وجے شاہ آٹھ مرتبہ مدھیہ پردیش اسمبلی کے رکن منتخب ہو چکے ہیں اور بی جے پی کے اہم رہنمائوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ان کی تقریر کیخلاف سب سے پہلا اعتراض بھارتی صحافی راج دیپ سرڈیسائی نے کیا جس کے بعد کانگریس نے مطالبہ کیا کہ کنور وجے شاہ کو مدھیہ پردیش کی کابینہ سے نکالا جائے۔ بھارتی میڈیا میں یہ سوال بھی اٹھایا گیا کہ کرنل صوفیہ کو دو بریفنگز کے بعد منظر سے ہٹا دیا گیا۔ جس بریفنگ میں بھارت کی تینوں مسلح افواج کے آپریشنل سربراہوں نے ملفوف انداز میں اپنے نقصانات کا اعتراف کیا اس میں تو کرنل صوفیہ قریشی موجود ہی نہ تھیں پھر اس مسلمان افسر کو مذہبی امتیاز کا نشانہ کیوں بنایا گیا؟ بہرحال کنور وجے شاہ پر اتنی زیادہ تنقید ہوئی کہ صرف چوبیس گھنٹے کے اندر موصوف نے کرنل صوفیہ سے ناصرف معافی مانگ لی بلکہ یہ بیان بھی دیا کہ میں سسٹر صوفیہ کو سلیوٹ کرتا ہوں۔ لیکن اس معافی کا اب کوئی فائدہ نہیں کیونکہ بھارتی سوشل میڈیا پر کرنل صوفیہ کے ساتھ ساتھ ان کی ایک جڑواں بہن کی بھی توہین کی جا رہی ہے جو فیشن ڈیزائنر ہیں۔ کنور وجے شاہ کے نفرت انگیز بیان نے بی جے پی کی مسلمان دشمنی کا ایک اور ثبوت فراہم کیا ہے۔
دہشت گردوں کی سرپرستی روکنے کا پاک بھارت معاہدہ ہونے کا امکان
حامد میر کہتے ہیں کہ ظاہر ہے کہ بھارت کے تمام ہندو کنور وجے شاہ جیسے متعصب اور منافق نہیں ہیں لیکن ان تمام مسلمان دشمنوں کا لیڈر نریندر مودی ہے۔ آپریشن سندور کی ماسٹر مائنڈ کرنل صوفیہ قریشی تھی اور نہ ہی وکرم مسری تھے۔ ماسٹر مائنڈ تو مودی تھے اس آپریشن کی ناکامی کے ذمہ دار بھی مودی ہیں کیونکہ اس کی بنیاد ایک جھوٹ پر رکھی گئی۔ پہل گام کے حملے کی ابھی تک تحقیقات مکمل نہیں ہوئیں لیکن مودی نے اس حملے کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دیکر آپریشن سندور کا اعلان کر دیا۔ یہ آپریشن ناکام ہوا تو مودی نے ٹرمپ کے ذریعہ سیز فائر کرا دیا لیکن اب وہ دوبارہ دھمکیوں پر اتر آئے ہیں۔