پاکستان میں پہلے الیکشن کے انعقاد میں 23 سال کیوں لگے؟
متحدہ ہندوستان میں ہونے والے انتخابات کے نتائج کی بنیاد پر قیام پذیر ہونے والے ’’پاکستان‘‘ نامی ملک میں قومی سطح پر عام انتخابات کی نوبت آتے آتے لگ بھگ 23 برس کا عرصہ لگا اور ملک کا پہلا آئین بھی 1956 میں جا کر بنا۔ لیکن وہ بھی صرف دو برس بعد منسوخ ہو گیا۔ اس کے مقابلے میں بھارت میں آزادی کے دو برس کے اندر ہی نہ صرف دستور سازی مکمل ہو گئی تھی بلکہ پہلے عام انتخابات بھی 1951 میں منعقد ہو گئے تھے۔بھارت اور پاکستان کے قیام کے وقت دونوں ممالک کا کوئی آئین نہیں تھا۔ 46-1945 میں جب ہندوستان میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات ہوئے تو اس میں بھی 1935 کے ایکٹ میں فراہم کردہ شرائط کے ساتھ محدود حقِ رائے دہی یا لمیٹڈ فرنچائز دیا گیا۔ ان انتخابات میں مسلم لیگ نے مرکزی اسمبلی کی 102 میں سے 30 اور صوبائی اسمبلیوں کی 495 مسلم نشستوں میں سے 446 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔آئین سازی کے لیے جولائی 1946 میں 296 رکنی دستور ساز اسمبلی بنائی گئی جس میں صوبوں کو آبادی کے حساب سے نمائندگی دی گئی۔ صوبائی اسمبلیوں نے ان نشستوں کے ارکان کا بالواسطہ انتخاب کیا۔ دستور ساز اسمبلی میں کانگریس نے 208 اور مسلم لیگ نے 73 نشستیں حاصل کیں۔پاکستان اور بھارت کا قیام آزادیٔ ہند ایکٹ 1947 کے تحت ہوا جس میں دونوں ریاستوں کے لیے علیحدہ علیحدہ دستور ساز اسمبلیاں بنائی گئی تھیں۔ ان دستور ساز اسمبلیوں میں وہی ارکان شامل تھے جنھیں 1945 میں منتخب ہونے والی صوبائی اسمبلیوں نے چنا تھا۔پاکستان کی دستور ساز اسمبلی میں 69 ارکان شامل تھے۔ ان ارکان میں سے 44 بنگال، 17 پنجاب، چار سندھ، تین شمال مغربی سرحدی صوبے (موجودہ خیبر پختونخوا) اور ایک کا تعلق بلوچستان سے تھا۔ قیامِ پاکستان کے بعد دستور ساز اسمبلی میں 10 ارکان کا اضافہ کیا گیا جن میں سے چھ نشسیتں بھارت سے آنے والے مہاجرین کے لیے مختص کی گئی تھیں۔ بانیٔ پاکستان محمد علی جناح ملک کے پہلے گورنر جنرل اور دستور ساز اسمبلی کے صدر بھی بنے۔پاکستان کی پہلی دستور ساز اسمبلی کے 79 میں سے 60 ارکان کا تعلق مسلم لیگ سے تھا۔ لیکن خود مسلم لیگ کے اندر دستور سازی پر اختلافات پائے جاتے تھے۔اکتوبر 1951 میں وزیرِ اعظم لیاقت علی خان کے قتل کے بعد خواجہ ناظم الدین نے گورنر جنرل کا عہدہ چھوڑ کر وزارتِ عظمیٰ سنبھال لی تھی اور بیورو کریٹ غلام محمد گورنر جنرل بن گئے تھے۔دوسری دستور ساز اسمبلی کا اجلاس سات جولائی 1955 کو ہوا اور اس نے آئین سازی پر کام کرنا شروع کر دیا۔ اس دوران اکتوبر 1955 میں ون یونٹ بھی قائم ہو گیا۔ون یونٹ میں بلوچستان، سرحد، پنجاب اور سندھ کو ملا کر ‘مغربی پاکستان’ کے نام سے ایک نیا صوبہ بنا دیا گیا اور مشرقی بنگال کا نام تبدیل کر کے ‘مشرقی پاکستان’ کر دیا گیا۔ اس اقدام کی ملک کے دونوں حصوں میں مخالفت کی گئی تھی۔حامد خان کے مطابق 1956 کے آئین میں یونی کیمرل یا ایک ایوانی نظامِ حکومت تجویز کیا گیا تھا جس میں صدر، قومی اسمبلی اور مشرقی و مغربی پاکستان کی صوبائی اسمبلیاں تجویز کی گئی تھیں۔ جب کہ مرکز میں سینیٹ کا ایوان نہیں رکھا گیا تھا۔1956 کے آئین کے تحت وجود میں آنے والی قومی اسمبلی کے لیے ارکان کی تعداد 300 رکھی گئی تھی۔آئین کے مطابق نومبر 1958 تک ملک میں عام انتخابات کا انعقاد ہونا تھا۔ لیکن صدر اسکندر مرزا نے فروری 1959 تک الیکشن مؤخر کر دیا۔ اس دوران محلاتی سازشوں کا سلسلہ جاری رہا اور ملک میں عام انتخابات سے قبل ہی اسکندر مرزا نے آٹھ اکتوبر 1958 کو آئین معطل کر کے مارشل لا نافذ کر دیا۔صدر اسکندر مرزا نے جس آئین کو معطل کیا تھا وہ خود بھی اسی کے تحت ملک کے صدر بنے تھے۔ اس لیے آئین کی معطلی کے بعد پیدا ہونے والے خلا کو فوج نے پر کیا اور اس وقت پاکستان فوج کے سربراہ جنرل ایوب خان نے اقتدار سنبھال لیا۔ایوب خان نے اقتدار سنبھالنے کے بعد 27 اکتوبر 1958 کو بنیادی جمہوریتوں (بیسک ڈیموکریسیز) کا نظام متعارف کرایا جس کے تحت مشرقی و مغربی پاکستان میں چھوٹے چھوٹے 40، 40 ہزار انتخابی حلقے بنا دیے گئے۔آئین سازی کا اختیار حاصل ہونے کے بعد ایوب خان نے پاکستان کے لیے پارلیمانی نظامِ حکومت کو ‘ناکام’ قرار دے دیا اور فروری 1960 میں ملک کے لیے نئے نظام حکومت کی تشکیل کے لیے سابق چیف جسٹس شہاب الدین کی سربراہی میں ایک آئینی کمیشن بنا دیا۔دسمبر 1968 میں ایوب خان کے خلاف احتجاج میں بعض مظاہرین کی ہلاکت کے بعد ملک کے دونوں حصوں میں حالات کنٹرول سے باہر ہونے لگے۔ایوب خان کے خلاف احتجاج شدید ہونے کے ساتھ اگلے ہی روز جنرل یحییٰ خان نے چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کا عہدہ سنبھال لیا اور 1962 کا آئین منسوخ کر دیا۔قیام پاکستان کے لگ بھگ 23 برس بعد سات دسمبر 1970 کو پاکستان کے پہلے عام انتخابات ہو گئے۔ان انتخابات میں عوامی لیگ نے مشرقی پاکستان کی 162 میں سے 160 نشستوں پر کامیابی حاصل کی۔ مغربی پاکستان کی 138 میں سے 81 نشستیں پیپلز پارٹی نے جیتیں۔انتخابی نتائج آنے کے بعد عوامی لیگ کو دستور ساز اسمبلی میں سادہ اکثریت حاصل ہو گئی جب انتخابات ہوئے بھی تو مشرقی و مغربی پاکستان کے درمیان کشیدگی کا باعث بننے والے بنیادی مسائل اس قدر پیچیدہ ہو چکے تھے کہ الیکشن ان مسائل کا حل ثابت ہونے کے بجائے ایک ایسے تنازع
کی بنیاد بنے جس کے نتیجے میں پاکستان دو لخت ہو گیا۔