چھوٹا ہونے کے باوجود پاکستان نے انڈیا پر دفاعی برتری کیسے ثابت کی؟

سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ جنگ تباہی تو لاتی ہے لیکن اس کا سب سے خطرناک اور خوفناک پہلو یہ ہوتا ہے کہ دونوں فریقین میں سے کوئی نہیں جانتا کہ اسکا نتیجہ کیا نکلے گا اور کس کے حق میں نکلے گا۔ لہذا پاکستان اس لحاظ سے بہت خوش قسمت رہا ہے کہ سائز میں چھوٹا ملک ہونے کے باوجود اس نے نہ صرف بھارت پر اپنی دفاعی اور سفارتی دھاک بٹھا دی ہے بلکہ فتحیاب ہونے کے بعد باوقار انداز میں جنگ بندی کروانے میں بھی کامیاب رہا ہے۔

روزنامہ جنگ کے لیے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ کئی دہائیوں کے بعد پاکستانی قوم میں 1965 والا جذبہ دوبارہ سے دیکھنے میں آیا۔ پاکستان میں اس مرتبہ ہر شخص کو یقین تھا کہ بھارت غلطی پر ہونے کے باوجود زیادتی کر رہا ہے اور پاکستان حق پر ہونے کے باوجود جارحیت سے گریز کرتے ہوئے مدافعانہ حکمت عملی پر رواں دواں ہے۔ بھارت اور پاکستان دونوں جمہوری اور امن پسند ممالک ہیں دونوں ملکوں کی غالب آبادی امن اور خوشحالی کی خواہاں ہے لیکن بھارتی وزیر اعظم مودی پر ہندوتوا کے مذہبی تصور کے ذریعے خطے میں برتری اور بالادستی قائم کرنے کا بھوت سوار ہے۔

سینیئر صحافی کہتے ہیں کہ برصغیر کی تاریخ بتاتی ہے یہاں کے لوگ کسی کی بالادستی قبول نہیں کرتے بالخصوص زور زبردستی سے تو اس خطے میں حکمرانی کرنا ناممکن ہے۔ اس خطے کی تاریخ میں دو حکمرانوں نے 40 سے 50 سال تک اس خطے میں بہترین حکمرانی کی۔ اشوکا اور اکبر اعظم دونوں رواداری، انصاف، محبت اور دانش سے معاملات چلانے والے اس خطے کے بہترین حکمران تصور کئے جاتے ہیں۔ مودی جی شروع میں امن کی طرف مائل تھے مگر پھر ہندوتوا کے جھوٹے نعرے کے رتھ پر سوار ہو کر ان میں رعونت اور ضد آ گئی، چنانچہ اس مرتبہ وہ 400 سیٹیں جیتنے کے احمقانہ ہدف سے کہیں پیچھے رہ گئے۔ تاریخی طور پر پاکستان نے جنرل مشرف کے دور سے خود پر لگنے والے دہشت گردی کے الزامات کا اندرونی طور پر احتساب کیا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کا بیرونی دبائو اس کے علاوہ تھا، مگر جنر ل مشرف، جنرل راحیل شریف، جنرل قمر باجوہ اور جنرل عاصم منیر کی طرف سے امن اور صلح کی پیش کشوں کے باوجود مودی نے نفرت پر مبنی جارحت کی پالیسی اپنائے رکھی۔ اور تو اور صدر زرداری، نواز شریف اور عمران خان نے ذاتی حیثیت میں ہمیشہ امن کی حمایت کی مگر مودی نے متکبرانہ سرد مہری سے انہیں نظر انداز کر دیا۔

سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ پاکستانی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے کشمیر کے جہادیوں بارے پالیسی میں نمایاں تبدیلی کے باوجود انڈیا نے وہاں ظلم و ستم میں اضافہ کر کے یہ پیغام دیا کہ پاکستان جو مرضی کر لے ہم نہیں مانیں گے۔ دوسری طرف مودی سرکار نے بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشت گردی کی سرپرستی سے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ انڈیا نے حد تو یہ کر دی کہ پاکستان کے اندر اپنے تخریب کاروں کی مدد سے پرو کشمیر سابق جہادیوں کو مارنا شروع کر دیا۔ یہ سارے واقعات بھارت کی طرف سے پاکستان کے خلاف جنگی اقدامات تھے۔

جنگ میں خاموش رہنے والے عمران کی رہائی کے امکانات ختم کیوں ہو گئے؟

سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ ایک ایسے وقت میں کہ جب پاکستان معاشی استحکام کی اڑان بھرنے جا رہا ہے، ایسے منفی بھارتی اقدامات اسکے سازشی عزائم کو آشکار کرتے ہیں۔ لیکن الحمد للّٰہ ، پاکستان اور بھارت کے مابین ایک باوقار اور باعزت جنگ بندی کے بعد توقع کی جانی چاہئے کہ مودی کا ہندوتوا اور بالادستی کا نظریہ تبدیل ہو گا اور وہ چانکیہ سیاست چھوڑ کر ایک سٹیٹس مین بننے کی کوشش کریں گے۔ وجہ یہ ہے کہ آج کل ملک اکیلے ترقی نہیں کرتے، بلکہ خطے ترقی کرتے ہیں۔ یورپی یونین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ پاکستان اور بنگلہ دیش کو دبا کر انڈیا نہ تو اپنی بالادستی قائم کر سکتا ہے اور نہ ہی ترقی کر سکتا ہے۔ اسکا واحد راستہ خطے کے دوسرے ممالک خصوصا پاکستان اور بنگلہ دیش کے ساتھ باعزت پارٹنر شپ ہے۔ اسکے بغیر بھارت معاشی ترقی بھی نہیں کر سکتا۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ بھارت سنگاپور بن جائے اور خطے کے دوسرے ممالک پیچھے رہ جائیں، یہ سوچ سراسر ِخام ہے، مودی جی کو جتنا جلد یہ سمجھ آ جائے اتنا ہی بہتر ہے۔

Back to top button