انڈیا کیلئے پاکستانی میزائلز کو جام کرنا یا روکنا ممکن کیوں نہیں رہا؟

جیمنگ اور ہیکنگ کے خدشات کے پیش نظر پاکستان نے اپنے تمام میزائلوں کو امریکی نیوی گیشن ٹیکنالوجی سسٹم جی پی ایس سے چینی ٹیکنالوجی بی ڈی ایس پر منتقل کر لیا ہے جس کے بعد پاکستانی میزائلز کے نیوی گیشن سسٹم کو جام یا ہیک کرنا بھارت کیلئے ناممکن ہو گیا ہے۔ دوسری جانب ماہرین کے مطابقحالیہ پاک انڈیا جنگ سے پہلے بھارت کو سیٹلائٹ ٹیکنالوجی میں خطے کا کنگ سمجھا جاتا تھا تاہم آپریشن بنیان مرصوص کے دوران پاکستان نے جس طرح سٹیلائٹ ٹیکنالوجی کو استعمال کرتے ہوئےانڈیا میں کامیابی کے ساتھ اپنے اہداف کو نشانہ بنایا اور جدید ترین بھارتی لڑاکا طیاروں اور دفاعی نظام کو تباہ کیا۔ اس کے بعد بھارت کی اس میدان میں بھی برتری ایک سوالیہ نشان بن چکی ہے۔

ماہرین کے مطابق حالیہ پاک انڈیا جنگ میں پاکستان کے میزائلوں اور طیاروں کی برتری کے پیچھے ایک بڑی وجہ پاکستان کا وہ نیوی گیشن سسٹم بھی ہے جو چین نے اسے دے رکھا ہے۔دراصل پاکستان کو شروع ہی سے اس بات کا احساس تھا کہ امریکی نیوی گیشن کے ہوتے ہوئے کامیاب دفاع کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔امریکہ کسی بھی وقت اس سسٹم کو جام کر دے یا روک دے تو اس وقت پاکستان کے میزائلوں کی مار کرنے کی صلاحیت بے معنی ہو جائے گی۔اسی وجہ سے پاکستان نے چین کی مدد سے اپنے میزائل پروگرام کو صنعت کے طور پر آگے بڑھایا ہے۔ سی پیک کی سیکورٹی کے لیے پاکستان نے چین کی مدد سے ایسے سیٹلائٹ خلا میں بھیجے ہیں جس کے بعد پاکستانی سائنسدانوں کو سیٹلائٹ کے ذریعے نہ صرف پاکستان بلکہ پورے انڈیا کے ایک ایک انچ کا جائزہ لینے کی صلاحیت مل چکی ہے۔ دفاعی ماہرین کے مطابق 2013 میں چینی وزیراعظم لی کی کیانگ کے دورہ پاکستان کے موقعے پر دونوں ممالک کے مابین ایک معاہدہ کیا گیا تھا جس کی رو سے چین نے پاکستان میں ایسے پانچ سٹیشن بنانے تھے جن کے بعد پاکستان کو نیوی گیشن کی اپنی سہولت میسر آ جانی تھی اور وہ اس سلسلے میں امریکی نیوی گیشن کا محتاج نہیں ہو گا۔اب یہ سسٹم مکمل آپریشنل ہو چکا ہے جس کو سول اور فوجی دونوں مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔

 ایس پی ڈی کے سابق سربراہ اور نیشنل کمانڈ اتھارٹی کے مشیر جنرل قدوائی کے مطابق پاکستان کے بیلسٹک اور کروز میزائل جی پی ایس بیسڈ تھے تاہم پاکستان کو خدشہ تھا کہ انڈیا کے ساتھ کسی بھی تنازعے کے دوران امریکہ پاکستان کی رسائی جی پی ایس سسٹم پر بند کر سکتا ہے جس سے اس کے میزائلوں کو ہدف پر پہنچنے میں مشکل پیش آ سکتی ہے اس لیے پاکستان نے اپنے میزائلوں کو امریکی جی پی ایس نظام سے متبادل چینی نظام بی ڈی ایس پر منتقل کر لیا ہے۔ پاکستانی رعد اور بابر میزائل جن کو پہلے امریکی جی پی ایس کی ضرورت تھی وہ بھی اب پوری طرح چینی نیوی گیشن نظام پر منتقل ہو چکے ہیں۔ماہرین کے مطابق چین کا بی ڈی ایس نظام پورے انڈیا کی کوریج کر سکتا ہے جس کی وجہ سے بھارت کیلئے اس نظام کو جام یا ہائی جیک کرنا ناممکن ہے اس طرح پاکستان اس میدان میں بھی بھارت سے بہت آگے نکل چکا ہے۔

امریکی ثالثی میں پاکستان اور بھارت مختصر جنگ کے بعد سیز فائر پر آمادہ ہو چکے ہیں تاہم پاکستان کی جانب سے میزائلوں کی بارش سے بھارتی دفاعی نظام کو تباہ کرنے کی باز گشت مسلسل سنائی دے رہی ہے۔دفاعی ماہرین کا کہنا ہے کہ حالیہ مختصر جنگ میں پاکستان نے اپنے حریف بھارت پر اپنی برتری ثابت کر دی ہے۔ اس برتری کا ایک اظہار اگرچہ پاکستان کی جانب سے انڈیا کے جنگی طیارے تباہ کر کے دیا گیا تھا مگر اس کا حتمی فیصلہ اس وقت ہوا جب پاکستان نے انڈیا پر میزائلوں کی بارش کر دی، جن کی تاب نہ لا کر انڈیا جنگ بندی کے لیے امریکہ سے رجوع کرنے پر مجبور ہو گیا۔

مودی نے رافیل کی ڈیل میں ساڑھے 7 ملین پاؤنڈز کیسے کھائے؟

ایسے میں سوال پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کا میزائل پروگرام کب اور کیوں شروع کیا گیا اور پاکستانی میزائل پروگرام بھارت سے بہتر کیوں ہے؟ ماہرین کے مطابق پاکستان کا میزائل پروگرام اس کے ایٹمی پروگرام سے جڑا ہوا ہے کیونکہ جب کوئی ملک ایٹمی صلاحیت حاصل کر لیتا ہے تو پھر اگلا مرحلہ اس کے ڈیلوری سسٹم کا ہوتا ہے یعنی ایسے میزائل تیار کیے جائیں جو ایٹمی وار ہیڈ کو کم از کم 60 کلو میٹر سے لے کر 2750 کلومیٹر تک پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔

پاکستان نے 80 کی دہائی میں ہی اس جانب پیش رفت شروع کر دی تھی۔ آنے والے سالوں میں پاکستان نے ایسے میزائل بنا لیے جو مختصر فاصلے سے لے کر درمیانی فاصلے تک مار کر سکتے تھے جن میں بیلسٹک میزائل شاہین تھری بھی شامل تھے۔ ان میں درمیانی فاصلے تک مار کرنے والے ابابیل میزائل بھی ہیں جو مخصوص گاڑیوں کے ذریعے کہیں سے بھی داغے جا سکتے ہیں۔ماہرین کے مطابق انڈیا کو میزائل پروگرام کے لیے شمالی کوریا، ایران اور روس کی جبکہ پاکستان کو شمالی کوریا اور چین کی مدد حاصل ہے۔پاکستان کے میزائل پروگرام اور ایٹمی وار ہیڈز کے بارے میں نیسکام اور پاکستان اٹامک کمیشن کے سابق سربراہ ڈاکٹر ثمر مبارک مند اور دیگر ماہرین کہتے ہیں کہ ’یہ انڈیا سے بہت جدید اور آگے ہے۔‘بعض دیگر ماہرین کے مطابق حتف ون میزائل ایک ایسا راکٹ ہے جس کو سپارکو کی مدد سے 1980 میں ہی بیلسٹک میزائل میں بدل لیا گیا تھا۔ شاہین بھی درمیانی فاصلے تک مار کرنے ولا بیلسٹک میزائل ہے جسے ایس ایل وی کے ذریعے بنایا گیا ہے تاہم پاکستان نے حال ہی میں شاہین تھری کا تجربہ کیا ہے جو کہ 2700 کلومیٹر سے زیادہ دور ہدف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔حال ہی میں پاکستان نے ایک ساتھ کئی وار ہیڈ لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے ابابیل میزائل کا بھی تجربہ کیا ہے جو کہ 2000 کلومیٹر تک ایک ساتھ کئی اہداف کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق یہ صلاحیت اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ پاکستان کے پاس سیٹلائٹ مدار میں بھیجنے کی صلاحیت بھی موجود ہے اور اس نے اس میدان میں بھی انڈیا کی برتری کو چیلنج کر دیا ہے۔

Back to top button