پاکستانی طالبان کس کی مدد سے سب سے بڑا دہشت گرد گروپ بنے؟

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی جانب سے عائد کردہ پابندیوں کی نگرانی کرنے والی خصوصی کمیٹی کی تازہ ترین رپورٹ میں تسلیم کیا گیا ہے کہ اس وقت افغانستان میں سب سے بڑا دہشت گرد گروپ تحریک طالبان پاکستان ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت آنے کے بعد تمام غیرملکی انتہا پسند گروپس میں سب سے زیادہ فائدہ ٹی ٹی پی کو ہوا ہے۔

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی خصوصی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افغانستان میں تحریک طالبان کے عسکریت پسندوں کی تعداد 6 ہزار سے ساڑھے 6 ہزار کے درمیان ہے۔ ٹی ٹی پی افغانستان میں بڑے پیمانے پر متحرک ہے اور مسلسل پاکستان میں سرحد پار سے دہشت گردی کی کارروائیوں میں ملوث ہے۔  رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ ’طالبان، ٹی ٹی پی کو دہشت گرد گروہ نہیں سمجھتے، دونوں کی آپس میں قریبی تعلقات ہیں اور افغان طالبان پاکستانی طالبان کی پشت پناہی کرتے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی کو افغانستان کے جنرل ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس سے مدد ملتی ہے جبکہ وہ اس گروہ کو سپروائز بھی کرتا ہے۔ جنرل ڈائریکٹوریٹ آف انٹیلی جنس کا مقصد طالبان کے اصل دشمن اسلامک سٹیٹ خراسان میں طالبان اراکین کی شمولیت کو روکنا ہے۔ دوسری جانب ٹی ٹی پی کے القاعدہ کے ساتھ بھی مضبوط روابط برقرار ہیں جس کا نیٹ ورک افغانستان میں اب بھی موجود ہے۔

یاد رہے کہ سال 2024 میں پاکستان میں سرحد پار دہشت گرد حملوں کے سلسلے میں شدت آئی جبکہ قانون نافذ کرنے والےاداروں کے اہلکاروں کی اموات میں بھی نمایاں اضافہ دیکھا گیا جس سے پاکستان میں سلامتی کے خطرات نے سر اٹھایا۔ درحقیقت 2024ء میں ایک دہائی بعد دہشت گردانہ حملوں میں سب سے زیادہ اموات ریکارڈ کی گئیں۔ مرنے والوں میں سب سے زیادہ تعداد فوجیوں کی تھی جو تحریک طالبان کا بنیادی ہدف ہیں۔

سیاسی تجزیہ کار کہتے ہیں کہ افغانستان میں تین سال قبل جب طالبان حکومت کی واپسی ہوئی تو پاکستان کے پالیسی سازوں کو امید تھی کہ اب پاکستانی کی مغربی سرحد کی صورت حال میں بہتری اور استحکام آئے گا۔ یہ پاکستان کے لیے کافی اہم تھا کیونکہ اسے اپنی مشرقی سرحدوں پر بھارت کے ساتھ کشیدہ تعلقات کا سامنا ہے۔لیکن یہ مفروضہ کہ طالبان دور میں پاکستان کی سرحدیں محفوظ ہوں گی، سٹریٹجک طور پر غلط ثابت ہوا۔ جلد اس بات کے شواہد سامنے آنے لگے کہ افغانستان میں طالبان کی حکومت آنے کے بعد کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان کو دوبارہ منظم ہونے کا موقع فراہم کیا گیا یے۔ افغانستان میں موجود تحریک طالبان کے دہشت گردوں نے سرحد پار حملوں کا سلسلہ تیز کر سیا جو کہ پاکستان کی سلامتی کے لیے سنگین خطرہ بن کر سامنے آیا۔ ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کرنے سے انکا کر کے افغانستان کی طالبان حکومت نے پاکستان کی طاقتور فوجی اسٹیبلشمنٹ کی تمام تر امیدوں پر پانی پھیر دیا۔

اس معاملے پر امریکہ میں پاکستان کی سابق سفیر ملیحہ لودھی کا کہنا ہے کہ پاکستانی اور طالبان حکام کے درمیان ٹی ٹی پی کو قابو کرنے کے حوالے سے ساڑھے تین سالہ بات چیت کے کوئی خاطر خواہ نتائج سامنے نہیں آئے۔ افغان طالبان حکومت نے ٹی ٹی پی کو ’سنبھالنے‘ کے لیے وقت مانگا تھا۔ افغان حکومت نے کبھی پاکستانی حکام پر زور دیا کہ وہ ٹی ٹی پی سے مذاکرات کرے اور کبھی ان کے ٹھکانوں کو پاکستانی سرحد سے دور کرنے کی یقین دہانی کروائی۔ لیکن عملی طور پر افغان حکومت نے ایسا کچھ نہ کیا اور طالبان کی پشت پناہی جاری رکھی۔

ملیحہ لودھی کا کہنا ہے کہ صبر کا پیمانہ لبریز ہونے پر پاکستان نے کابل کے کیساتھ سخت رویہ اختیار کرنا شروع کیا اور افغانستان میں ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں کو غیر اعلانیہ آپریشنز میں نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ پاکستانی قیادت کی جانب سے افغانستان کی طالبان حکومت کے حوالے سے سخت بیان جاری کیے گئے۔ طالبان حکام سے کہا گیا کہ وہ ٹی ٹی پی اور پاکستان کے درمیان کسی ایک کو چُنیں۔ اس دوران پاک فوج کے ترجمان نے براہ راست افغانستان کی طالبان حکومت پر پاکستان مخالف دہشت گردوں کو مسلح کرنے اور انہیں محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کا الزام بھی عائد کیا۔

گزشتہ ہفتے وزیر اعظم شہباز شریف نے کابل سے مطالبہ کیا کہ وہ پاکستان میں حملے اور معصوم لوگوں کو مارنے سے ٹی ٹی پی کو روکیں اور اسے پاکستان کی ریڈ لائن قرار دیا۔ اس سے پہلے دسمبر کے اواخر میں جنوبی وزیرستان کے علاقے مکین میں ایک سرحدی چوکی پر ٹی ٹی پی نے حملہ کیا جس میں 16 سیکیورٹی اہلکار شہید ہوئے۔ اس واقعے نے پاکستان کو جوابی کارروائی کرنے پر مجبور کیا۔ 24 دسمبر کو پاکستان کے لڑاکا طیاروں نے پکتیکا صوبے میں ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں پر فضائی بمباری کی۔

طالبان حکام نے اس بمباری پر سخت احتجاج کیا اور دعویٰ کیا کہ ان کی فورسز نے وزیرستان سمیت پاکستان کی سرحد سے متصل متعدد علاقوں میں جوابی کارروائیاں بھی کی ہیں۔ ان مسلح جھڑپوں نے پہلے سے کشیدگی کا شکار تعلقات کو مزید سنگین رخ دیا ہے۔ پاکستان کی جانب سے افغانستان میں ٹی ٹی پی کے ٹھکانوں پر بمباری کا واقعہ ایک ایسے وقت میں ہوا جب پاکستان کے خصوصی مندوب محمد صادق افغانستان میں تھے اور کابل میں افغان حکومت کے نائب وزیر اعظم مولوی عبدالکبیر اور دیگر طالبان حکام کے ساتھ بات چیت میں مصروف تھے تاکہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کو کم کیا جاسکے۔

خیبرپختونخوا میں سکیورٹی فورسز کی کارروائیاں، 8 خوارج ہلاک

لیکن پاکستان کی جانب سے ٹی ٹی پی کے کیمپوں پر فضائی بمباری کے بھی محدود نتائج سامنے نکلے۔

تاہم ملیحہ لودھی کا کہنا ہے کہ افغانستان اور پاکستان کو آج نہیں تو کل اپنے باہمی تعلقات بہتر کرنا ہوں گے کیونکہ اسی میں دونوں کا بھلا ہے۔

Back to top button