کیا پاکستانی نیوکلیئر صلاحیت ختم کرنے کا منصوبہ بن چکا ہے؟

جیو نیوز سے وابستہ معروف اینکر پرسن حامد میر نے کہا ہے کہ ایران اور اسرائیل کے مابین جنگ بندی عارضی ہے کیونکہ اسرائیل اور امریکہ نے وقتی طور پر پیچھے ہٹنے کا فیصلہ کیا ہے، ان کا اصل ایجنڈا ایران اور اس کے نیوکلیئر پروگرام کی تباہی ہے لہذا وہ تازہ دم ہو کر دوبارہ اس پر حملہ آور ہوں گے، یہ ٹارگٹ حاصل کرنے کے بعد دنیائے اسلام کی واحد سپر پاور پاکستان اور اسکا نیوکلئیر بم امریکہ اور اسرائیل کا اگلا نشانہ ہوں گے۔

روزنامہ جنگ کے لیے اپنے تجزیے میں حامد میر کہتے ہیں کہ کسی کو شک نہیں رہنا چاہئے کہ اسرائیل اور ایران میں وقتی طور پر جنگ بند ہو گئی ہے لیکن نیتن یاہو چین سے نہیں بیٹھے گا۔ وہ ایران پر دوبارہ حملہ کریگا کیونکہ ایران دراصل گریٹر اسرائیل کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ ایران پر اسرائیل نے جو میزائل برسائے وہ انڈین حیدر آباد کی ایک فیکٹری میں تیار ہوئے جس کی ملکیت  اڈانی گروپ کے پاس ہے۔ پاکستان مخالف وزیر اعظم نیتن یاہو اور وزیر اعظم مودی نے اڈانی گروپ کے ساتھ مل کر حیدرآباد میں ڈرون اور میزائل بنانے کی جو فیکٹری قائم کی اس کا اسلحہ صرف ایران نہیں بلکہ پاکستان کے خلاف بھی استعمال کیا جائے گا۔ پچھلے دو سال میں بھارت نے اسرائیل سے چار ارب ڈالر کا اسلحہ خریدا ہے۔ یہ اسلحہ چین کے خلاف نہیں بلکہ پاکستان کے خلاف استعمال ہوگا کیونکہ پاکستان اکھنڈ بھارت کے راستے میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔

حامد میر کے مطابق یروشلم کی معروف ہیبریو یونیورسٹی میں جیو پولیٹکس کے ڈائریکٹر مائر ماسری نے پہلے ہی اعلان کر دیا ہے کہ ایران کے بعد اسرائیل کا اگلا نشانہ پاکستان ہے۔ 24 جون 2025 کو ’’ماڈرن ڈپلومیسی‘‘میں مائر ماسری کی جو تفصیلی رپورٹ شائع ہوئی ہے اُس میں کہا گیا ہے کہ کروز میزائلوں اور ڈرونز کے ذریعہ اسرائیل کو ناصرف پاکستان کی ایٹمی صلاحیت ختم کرنی ہے بلکہ بھارت کے ساتھ مل کر سندھ کو پنجاب سے علیحدہ کرنا ہے اور آزاد کشمیر پر قبضہ کر کے چین کو گوادر سے کاٹنا ہے۔ حیدر آباد میں ارب پتی انڈین بزنس مین گوتم اڈانی کی خطرناک میزائل اور ڈرون بنانے والی فیکٹری  ابھی محفوظ ہے۔ جب تک یہ فیکٹری محفوظ ہے تب تک پاکستان غیرمحفوظ ہے۔ اس فیکٹری کے میزائل ایران سے پہلے فلسطین کے علاقے غزہ میں بھی تباہی مچا چکے ہیں۔ گوتم اڈانی کی اس فیکٹری کا اگلا نشانہ پاکستان بننے والا ہے لہذا ہمیں انڈیا اور اسرائیل کے گٹھ جوڑ سے بہت زیادہ چوکنا رہنا ہوگا۔

سینیئر اینکر پرسن بتاتے ہیں کہ گوتم اڈانی کا تعلق بھارتی ریاست گجرات کے شہر احمد آباد سے ہے۔ بھارت کے اپوزیشن لیڈر راہول گاندھی کئی مرتبہ لوک سبھا میں اڈانی اور وزیراعظم نریندر مودی کی تصاویر لہرا چکے ہیں۔ انہوں نے الزام لگایا ہے کہ اڈانی نے مودی حکومت کے ذریعہ اپنے کاروبار کو خوب وسعت دی اور دنیا کے امیر ترین افراد میں شامل ہو گیا۔ مودی کا تعلق بھی گجرات سے ہے۔ جب وہ گجرات کے وزیراعلیٰ تھے تو اڈانی کے ہوائی جہاز کا بے تحاشا استعمال کرتے تھے۔ اس ہوائی جہاز پر بیٹھ کر مودی بھارت کے وزیر اعظم بنے جس کے بعد اڈانی کے کاروبار کو چار نہیں بلکہ آٹھ چاند لگ گئے۔ مودی نے اڈانی کی ملاقات اسرائیل کے وزیراعظم بینجمن نیتن یاہو سے کرائی جس کے بعد 2023 میں اسرائیل نے اپنی سب سے بڑی بندرگاہ حیفہ کے 70 فیصد شیئرز ایک ارب 20 کروڑ ڈالر کے عوض اڈانی گروپ کو فروخت کر دیئے۔

اڈانی گروپ کو حیفہ پورٹ کے 70 فیصد شیئرز فروخت کرنے کی کہانی 2018ء میں شروع ہوئی جب اسرائیل کی ایک اسلحہ ساز کمپنی نے اڈانی گروپ کے ساتھ مل کر بھارتی شہر حیدرآباد میں ہرمیز 900 ڈرون اور میزائل بنانے کی فیکٹری قائم کی۔ اڈانی گروپ کو مودی سرکار کی بھر پور معاونت حاصل تھی لہٰذا دو سال میں ہی فیکٹری قائم ہوگئی اور پروڈکشن بھی شروع ہوگئی۔ 2022 تک اس فیکٹری کے تیار کردہ میزائل اور ڈرون اسرائیلی فوج نے ٹیسٹ کر لئے اور اسکی 85 فیصد پروڈکشن خریدنے پر آمادگی ظاہر کردی۔ حیدرآباد سے اڈانی گروپ حیفہ پہنچا اور اسرائیل کی اس اہم بندرگاہ کے 70 فیصد شیئرز خرید کر پوری دنیا کو حیران کردیا۔ یہ کامیابی صرف اڈانی کی نہیں بلکہ بھارت کی بھی بہت بڑی کامیابی تھی۔ ایک طرف بھارت کی طرف سے اسرائیل کے دشمن ایران کی بندرگاہ چابہار میں سرمایہ کاری کی گئی تھی اور دوسری طرف ایک بھارتی کمپنی نے حیفہ پورٹ کا انتظام سنبھال لیا تھا۔

حامد میر بتاتے ہیں کہ جب 13 جون 2025 کو نیتن یاہو نے ایران پر حملے کا اعلان کیا تو گوتم اڈانی کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ ایرانی میزائل اڑ کر حیفہ تک پہنچ جائیں گے۔ اڈانی حیدرآباد میں جو ڈرون اور میزائل تیار کررہا تھا انہوں نے ایران میں خوب تباہی پھیلائی۔ لیکن جب ایرانی میزائل تل ابیب اور حیفہ پر گرنے لگے تو اڈانی کے ہاتھ پائوں پھولنے لگے۔ نیتن یاہو کا خیال تھا کہ جیسے اڈانی کی فیکٹری میں تیار ہونے والے ڈرونز اور میزائلوں نے لبنان سے غزہ تک اپنی دھاک بٹھا دی تھی ایسے ہی ایران میں بھی ہو گا۔ لیکن اس کا خیال غلط نکلا۔ ایران کا نقصان تو بہت ہوا لیکن ایرانی میزائلوں نے حیفہ کی بندرگاہ کو بری طرح تباہ کرتے ہوئے ملبے کا ڈھیر بنا دیا ہے۔

 ایران کے بیلسٹک میزائلوں نے اسرائیل کے چھکےکیسے چھڑائے؟

آج جب اس ملبے کی تصویروں کا غزہ کے ملبے سے تقابل کیا جاتا ہے تو زیادہ فرق نظر نہیں آتا۔ ایرانی ڈرونز اور میزائلوں نے اسرائیل میں ایسی افراتفری پھیلائی کہ ہزاروں اسرائیلی اپنا ملک چھوڑ کر بھاگنے لگے۔ ایسے میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے دوست نیتن یاہو کی مدد کو پہنچے۔ انہوں نے پہلے ایران کی ایٹمی تنصیبات پر حملے کا اعلان کیا اور اسکے بعد اسرائیل اور ایران میں سیز فائر کا اعلان بھی کروا دیا۔ لیکن اب امریکی میڈیا میں یہ بحث شروع ہو گئی ہے کہ ٹرمپ کے حکم پر ایران کی نیوکلیئر تنصیبات پر حملوں سے ایران کی ایٹمی صلاحیت کا خاتمہ ہو سکا ہے یا نہیں؟

Back to top button