شوقِ شمشیر زنی

تحریر : حماد غزنوی
بشکریہ : روزنامہ جنگ
پاپولسٹ سیاسی راہ نما خِرد دشمنی کے فن میں ماہر ہوتے ہیں، پاسبانِ عقل کو معزول کر دیتے ہیں، کوئی بھی مسئلہ درپیش ہو اسے تعصب اور نفرت کی عینک سے دیکھتے اور دکھاتے ہیں، فرضی دشمن تخلیق کرتے ہیں جو آپ کے خون کا پیاسا ہے، دشمن کا خوف بیدار کرتے ہیں اور پھر اس دشمن سے نفرت کی بنیاد پر اپنے قصرِ سیاست کی تعمیر کرتے ہیں۔ یہ ایک سیدھا سادہ، طے شدہ فارمولا ہے جس کوہم رو بہ عمل دیکھتے ہی رہتے ہیں۔ پچھلے کچھ ہفتے ٹرمپ صاحب کی ٹیرف جنگ کی دھمکیوں نے دنیا اتھل پتھل کیے رکھی، اور اب مہاشے مودی نے اپنا آئٹم نمبر پیش کر دیا ہے جس سے برِ صغیر مزید عدم استحکام کی گرفت میں آ گیا ہے۔
پچھلے ہفتے مقبوضہ کشمیر میں پہل گام کے مقام پر چھبیس بے گناہ بھارتی شہری دہشت گردی کا نشانہ بنے تو مودی سرکار نے آئو دیکھا نہ تائو، بنا کسی تحقیق اور بغیر کسی ثبوت کے، پٹاخ سے پاکستان پر الزام دھر دیا، اور پھر بھارت نے سندھ طاس معاہدے کی معطلی کا اعلان کر دیا جس کے جواب میں پاکستان نے بھی شملہ معاہدے کی معطلی کا نقارہ بجا دیا۔ ان معاہدوں کی معطلی کا کیا مطلب ہوا؟ سادہ لفظوں میں ہندوستان نے دھمکی دی کہ ہم آپ کا پانی روک لیں گے، آپ کی معیشت ویران کر دیں گے، آپ کی زراعت سے بجلی کی پیداوار تک سب کچھ تباہ کر دیں گے۔ پاکستان نے جواباً عرض کیا کہ پھر ہم شملہ معاہدے کے تحت لائن آف کنٹرول کو سرحد تسلیم نہیں کریں گے، یعنی پانی بند کرنے کو ہم فقط ’’اعلانِ جنگ‘‘ نہیں سمجھیں گے بلکہ ’’جنگ‘‘ ہی سمجھیں گے، اور اس کا بھرپور جواب دیں گے۔ یاد رہے کہ یہ گفتگو سلطنتِ ٹونگا اور جزائرِ فجی کے درمیان نہیں ہو رہی بلکہ دو نیوکلیئر طاقتوں کے درمیان ہو رہی ہے۔ بی جے پی کی سیاست کی بنا کیوں کہ ہندوتوا پر رکھی گئی ہے، اور مودی صاحب کی تین انتخابی فتوحات کا مرکزی محرک مسلم دشمنی رہی ہے، اسی لیے اسلامی جمہوریہ پاکستان سے نفرت کا پرچار بھی ان کی سیاست کا اہم ستون رہا ہے۔ پاکستان کے انتخابات میں ہندوستان کا ذکر شاید ہی کسی نے سنا ہو، جب کہ ہندوستان میں پاکستان سے نفرت کی بنیاد پر ہی ووٹ مانگا جاتا ہے۔ اس مسلم دشمن طرزِ سیاست کی ’’برکت‘‘ ہے کہ بھارت میں نفرت کی کھیتی ہر وقت لہلہاتی رہتی ہے، اور جب بھی موقع ملے مودی سرکار درانتیاں اٹھاتی ہے اور کٹائی آغاز کر دیتی ہے۔ پہل گام واقعے کے بعد سے اگر آپ نے بھارتی میڈیا کی شکل دیکھی ہے تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ ہم کیا کہنا چاہ رہے ہیں۔ اینکر کف اُگل رہے ہیں، گردنوں کی رگیں پھولی ہوئی ہیں، چہرے تمتما رہے ہیں، شرکاء چنگھاڑ رہے ہیں، عقل کی مسلسل توہین کر رہے ہیں، ’’پاکستان کو سبق سکھائو، بدلہ لو‘‘ ہرطرف دیوانگی کا راج ہے، ہر چوکی پر پاگل پن کا قبضہ ہو چکا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ بھارت ایک جنگی جنون کا شکار نظر آتا ہے۔ ایک بھارتی ٹی وی شو میں ایک صاحب نے واقعہ کے پیچھے ’’پاکستانی ہاتھ‘‘ ہونے کے ثبوت کے حوالے سے کچھ کہنا چاہا تو انہیں ’’پاکستانی ایجنٹ‘‘ ہونے کا طعنہ سننا پڑا، یعنی کامن سینس کا استعمال گودی میڈیا پر قابلِ استہزا بنا دیا گیا ہے۔ ہم پاکستانی میڈیا پر کئی زاویوں سے تنقید کرتے رہتے ہیں، لیکن اس وقت مقابلتاً پاکستانی میڈیا کہیں معقول اور متوازن دکھائی دیتا ہے، نہ کہیں ’’کرش انڈیا‘‘ کے نعرے سننے میں آئے نہ کسی نے ’’دلی پر ایٹم بم گرانے‘‘ کی لاف زنی کی۔
ستّر کی دہائی کے ابتدائی سال تھے، جس دن ہم نے والد صاحب کے ساتھ مری جانا تھا اُسی صبح خبر آئی کہ راوی میں سیلاب کی سطح بلند ہو رہی ہے اور پانی پُل تک آ پہنچا ہے۔ خیر، ہم نکل کھڑے ہوئے، جب راوی پر پہنچے تو منظر کچھ یوں تھا کہ پُل کے اوپر چلنے والی گاڑیوں کے آدھے آدھے پہیے پانی میں ڈوب چکے تھے، اور آس پاس سینکڑوں لاہوریے اکٹھے تھے، جو سیلاب کا ’’تماشا‘‘ دیکھنے آئے ہوئے تھے۔ مختلف آفات اور جنگوں کے دوران اس ہوسِ سیر و تماشا کے کئی مظاہر ہم زندگی بھر دیکھتے رہے ہیں۔ اس وقت بھی ہمارے سوشل میڈیا کی کچھ ایسی ہی حالت ہے، بھارت جنگی جنون بھڑکا رہا ہے اور پاکستانی جگتیں کر رہے ہیں۔ ایک حضرت فرماتے ہیں ’’جنگ رات نو بجے سے پہلے کر لیں کیوں کہ اس کے بعد ہماری گیس چلی جاتی ہے، ایک صاحب کہتے ہیں کہ جنگ کرنےکیلئے بھارتی پاکستان آئیں گے یا جنگ کسی نیوٹرل وینیو پر ہو گی، ایک کرکٹر فرماتے ہیں اگر آپ نے پانی بند کر دیا تو ہم آپ کو چائے کیسے پلائیں گے، وغیرہ وغیرہ۔
کیسا بدقسمت خطہ ہے، 75سال سے یہاں کے باشندے نارمل انسانوں کی طرح زندگی نہیں گزار سکے، جنگیں ہوئیں، تجارت بند ہے، آمدورفت بند ہے، آپس میں کھیلیں بند ہیں، فوجی بجٹ بڑھاتے جاتے ہیں (بھارتی دفاع کا بجٹ 77ارب ڈالر سے تجاوز کر چکا ہے، اور پاکستان کا سات ارب ڈالر سے)، بھارت میں 42کروڑ اور پاکستان میں 10کروڑ لوگ خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں، ایک کی چونچ اور دوسرے کی دُم گُم ہو چکی ہے، مگر شوقِ شمشیر زنی ماند پڑنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ یہ کھیل اتنی بار ہو چکا ہے کہ اب تو اس ’’میچ‘‘ کو تماشائی بھی میسر نہیں آتے، ٹرمپ نے طنزاً تبصرہ کیا کہ پاکستان اور بھارت تو پندرہ سو سال سے لڑ رہے ہیں، لہٰذا خود ہی اس معاملے سے نپٹیں۔ دنیا یہ نکتہ سمجھتی ہے کہ دو ایٹمی طاقتوں کے درمیان جھڑپیں تو ہو سکتی ہیں، جنگ نہیں ہو سکتی۔ دونوں ایٹمی ملکوں کو معلوم ہے کہ ریڈ لائن کہاں کھنچی ہوئی ہے، کارگل بھارت کی ریڈ لائن تھی تو پانی ہماری ریڈ لائن ہے۔ لہٰذا توقع یہی ہے کہ نریندر مودی صاحب پاگل پن کی اداکاری کر رہے ہیں، سچی مچی پاگل نہیں ہیں۔