سیکیورٹی فورسز پر فائرنگ کے بعد کرم میں امن معاہدہ خطرے میں
خیبرپختونخوا کے ضلع کرم میں سینکڑوں اموات کے بعد ہونے والے امن معاہدے پر ایک بار پھر غیر یقینی کے بادل منڈلانے لگے ہیں۔ مبصرین کے مطابق کرم ایجنسی کے علاقے لوئر کرم میں پولیس، ایف سی پر حملے اور گاڑی پر فائرنگ سے امن کی کوششوں کو شدید دھچکا لگا ہے جبکہ متعلقہ فریقین نے شرپسندانہ کارروائی میں ملوث افراد کو نشان عبرت بنانے کیلئے پھر سر جوڑ لئے ہیں۔ ذرائع کے مطابق لوئر کرم کے علاقے بگن میں جہاں سیکورٹی اہلکاروں کو نشانہ بنایا گیا ہے وہاں کے مکین نقصانات کا ازالہ نہ ہونے پر امن معاہدے پر خوش نہیں ہیں لگتا ہے انھی ناراض شرپسندوں کی جانب سے ہی پولیس اور ایف سی پر حملہ کیا گیا ہے۔
خیال رہے کہ لوئر کرم کے علاقے بگن میں نا معلوم ملزمان کی جانب سے پولیس اور ایف سی پر حملہ کیا گیا، جس کے نتیجے میں علاقے میں صلح کروانے اور سڑکیں بحال کروانے کے لیے جانے والے ضلعی انتظامیہ کے سربراہ ڈپٹی کمشنر جاوید اللہ محسود بھی زخمی ہوگئے،
مبصرین کے مطابق اگرچہ خیبر پختونخوا کے ضلع کرم میں جاری پرتشدد کشیدگی کے خاتمے کے حوالے سے صوبائی حکومت کے تشکیل کردہ جرگے میں فریقین کے مابین امن معاہدہ طے پاچکا ہے۔ تاہم کچھ پوائنٹس ایسے ہیں جس کے سبب اس معاہدے پر غیر یقینی کے بادل چھائے ہوئے ہیں۔ جیسا کہ بعض جرگہ ارکان سے بات چیت کا حوالہ دیتے ہوئے میڈیا میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ فریقین بھاری ہتھیار حکومت کے پاس جمع کرانے پر آمادہ ہوگئے ہیں اور حکومت اس حوالے سے طریقہ کار پندرہ دن میں جاری کرے گی۔ لیکن اس کے برعکس معاہدے میں ایسی کوئی بات وضاحت کے ساتھ موجود نہیں ہے۔ پھر یہ کہ ایک فریق کے تمام ارکان کے دستخط معاہدے پر نہیں ہیں۔ دوسری جانب بگن کے متاثرین تاحال سراپا احتجاج ہیں کیونکہ ان کے نقصان کے ازالے کے حوالے سے بھی معاہدہ خاموش ہے اور آج بگن میں ہی سیکیورٹی اداروں کی گاڑیوں پر فائرنگ کی گئی ہے۔
’’روزنامہ امت کی ایک رپورٹ کے مطابق اسلحہ اور ہتھیاروں کے معاملے کا ذکر معاہدے کی شق نمبر پانچ میں ہے۔ جس میں کہا گیا ہے ’’ماضی اور حالیہ فسادات میں چھوٹے اسلحے اور بھاری ہتھیاروں کے بے دریغ استعمال سے قیمتی جانوں کا ضیاع ہوا۔ گاؤں اور شہری آبادیوں کو بھی نشانہ بنایا گیا۔ نیز یہ اسلحہ حالیہ واقعات میں سیکورٹی اور حکومتی اداروں کے خلاف بھی استعمال ہوا۔ لہذا اسلحہ کی آزادانہ نمائش اور استعمال پر مکمل پابندی ہوگی۔ اور اسلحہ خریدنے کے لیے چندہ جمع کرنے کی اجازت نہیں ہوگی۔مزید براں فریقین صوبائی کابینہ کے فیصلے کی روشنی میں بابت اسلحہ دو ہفتوں یعنی پندرہ دنوں کے اندر قومی مشاورت سے مربوط لائحہ عمل دیں گے۔ بصورت دیگر جس فریق نے مذکورہ پندرہ دن کے اندر مربوط لائحہ عمل نہیں دیا تو اس فریق پر اپیکس کمیٹی کا فیصلہ نافذ العمل ہوگا‘‘۔ کسی پیچیدہ عدالتی فیصلے کی زبان سے مماثل معاہدے کی اس عبارت میں کہیں وضاحت نہیں کی گئی ہے کہ ’’مربوط لائحہ عمل کیا ہے؟‘‘ اور پندرہ دنوں میں جو فریق ’’یہ مربوط لائحہ عمل‘‘ نہ دے سکا تو اس کے خلاف کس نوعیت کی کارروائی ہوگی؟
مبصرین کے مطابق معاہدے میں یہ تو کہا گیا ہے کہ اسلحہ کی آزادانہ نمائش اور استعمال پر پابندی ہوگی۔ تاہم پورے معاہدے میں کہیں بھی یہ نہیں لکھا گیا ہے کہ فریقین ایک ماہ یا پندرہ دن کے اندر بھاری ہتھیار حکومت کو جمع کرانے کے پابند ہوں گے۔ جیسا کہ بنکرز سے متعلق، معاہدے میں بغیر کسی ابہام کے آسان الفاظ میں کہا گیا ہے کہ ’’فریقین کے ہر قسم کے بنکرز کی تعمیر پر پابندی ہوگی اور علاقے میں پہلے سے موجود تمام بنکرز ایک مہینے میں ختم کیے جائیں گے‘‘۔
جرگے کی کارروائی سے آگاہ ذرائع نے بتایا کہ ایک فریق شروع سے ہی ہتھیار حکومت کو جمع کرانے سے انکاری تھا۔ اس وجہ سے ہی مذاکرات میں ڈیڈ لاک آتا رہا۔ اس فریق کا اصرار تھا کہ اگر ہتھیار جمع کرانے کی نوبت آتی ہے تو وہ اپنے عمائدین کے پاس ہتھیار جمع کرانے کے لیے تیار ہیں۔ تاہم دوسرے فریق کا موقف تھا کہ ہتھیار حکومت کے پاس جمع کرانے چاہئیں اور وہ اس کے لیے تیار ہیں۔ اپنے عمائدین کے پاس ہتھیار جمع کرانے کا مطلب تو یہ ہوگا کہ جب وہ چاہیں گے ہتھیار دوبارہ حاصل کرلیں گے۔ اس سے مستقل امن کیسے آسکتا ہے؟ مبصرین کے مطابق لگتا یہی ہے کہ یہ اختلاف رائے ابھی تک دور نہیں ہو سکا۔
پی ٹی آئی حکومت کے ساتھ مذاکراتی عمل لٹکا کیوں رہی ہے؟
دوسری جانب معاہدے پر ایک فریق کے تو تقریباً تمام ارکان کے دستخط موجود ہیں۔ تاہم دوسرے فریق کے بعض ارکان نے تاحال دستخط نہیں کیے ہیں۔ اس بارے میں کہا گیا ہے کہ چند ایک ارکان جرگہ میں حاضر نہیں ہو سکے جن کے دستخط ایک دو دن میں لے لیے جائیں گے۔ تاہم ذرائع کا دعویٰ ہے کہ جن ارکان نے دستخط نہیں کیے، وہ معاہدے کے بعض نکات سے خوش نہیں۔
دوسری جانب بگن میں متاثرین کا احتجاج نویں روز میں داخل ہوگیا ہے۔ ان متاثرین کا کہنا ہے کہ پہلے ان کے نقصانات کا ازالہ کیا جائے۔ اس کے بعد ہی پارہ چنار اور پشاور کو ملانے والی مرکزی شاہراہ کھولنے کی بات کی جائے۔ واضح رہے کے نومبر میں بس کا نوائے پر کیے جانے والے حملے کے ردعمل میں لوئر کرم کے علاقے بگن کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ جہاں پیٹرول چھڑک کر پہلے مرکزی بازار کی تین سو کے قریب دکانوں کو جلایا گیا اور پھر ایک سو سے زائد گھروں کو نذرِ آتش کردیا گیا تھا۔