PTIکے تمام انٹرا پارٹی انتخابات متنازع کیوں رہے؟

تحریک انصاف کے اب تک کے تمام انٹرا پارٹی الیکشن متنازعہ رہے ہیں۔ اس تناظر میں دو دسمبر کو اعلان کردہ پارٹی انتخابات بھی اسی انجام سے دوچار ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔ جس طریقہ کار کے تحت پی ٹی آئی یہ الیکشن کرانے جارہی ہے۔ اسے دیکھتے ہوئے یہ خارج از امکان نہیں کہ الیکشن کمیشن پاکستان اس انٹرا پارٹی الیکشن کو مسترد کر دے گا۔یوں عمران خان کی چیئرمین شپ سے دست برداری کے باوجود پی ٹی آئی کو اپنے انتخابی نشان بلے سے محروم ہونا پڑسکتا ہے۔

روزنامہ امت کی ایک رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کرانے میں کیا قانونی و آئینی سقم دکھائی دے رہا ہے۔ اس کی تفصیل سے قبل یہ بھی بتاتے چلیں کہ یہ پہلی بار نہیں کہ انٹرا پارٹی الیکشن کرانے سے راہ فرار پر پی ٹی آئی کا انتخابی نشان خطرے میں پڑا۔ چھ برس پہلے بھی بروقت پارٹی الیکشن نہ کرانے پر اسے ’’بلے‘‘ کا نشان استعمال کرنے سے روک دیا گیا تھا۔

خیال رہے کہ پولیٹیکل پارٹیز آرڈر دوہزار دو کے تحت ہر چار سال بعد انٹرا پارٹی انتخابات کا انعقاد کرانا سیاسی پارٹیوں کیلئے ضروری ہے۔

واضح رہے کہ مارچ دو ہزار تیرہ میں پی ٹی آئی کے پہلے انٹرا پارٹی الیکشن میں وہ نوٹ چلے اور دھاندلی ہوئی کہ الاماں۔الحفیظ۔۔۔ اس کی تحقیقات کیلئے خود عمران خان کے مقرر کردہ الیکشن ٹربیونل کے سربراہ جسٹس (ر) وجیہ الدین احمد کی چشم کشا رپورٹ موجود ہے۔ انہوں نے انٹرا پارٹی الیکشن میں دھاندلی، فنڈز کے ناجائز استعمال اور گروپ بندی کی نشاندہی کرتے ہوئے کئی اہم رہنماؤں کو پارٹی سے فارغ کرنے کی سفارش کی تھی۔ تاہم اس کے نتیجے میں ایمانداری کی شہرت رکھنے والے سپریم کورٹ کے سابق جج وجیہ الدین احمد کو خود پارٹی سے نکلنا پڑگیا تھا۔

جسٹس وجیہ کی رپورٹ منظر عام پر آنے کے بعد بدنامی ہوئی تو عمران خان نے اعلان کیا کہ دوبارہ انٹرا پارٹی الیکشن کرائے جائیں گے۔

اس بار ایک اور نیک نام سابق بیورو کریٹ تسنیم نورانی کو پارٹی کا نیا چیف الیکشن کمشنر مقرر کیا گیا۔ لیکن جب تسنیم نورانی نے انتخابی عمل کو شفاف بنانے کے اقدامات کا آغاز کیا تو عمران خان سے ان کے اختلافات شروع ہوگئے۔ تسنیم نورانی کا مؤقف تھا کہ پارٹی کا ہر عہدیدار ووٹوں سے منتخب ہونا چاہیے اور پارٹی کو ’’حقیقی انٹرا پارٹی‘‘ کی طرف جانا چاہیے۔ اس طرح انٹرا پارٹی الیکشن تاخیر کا شکار ہوتے رہے۔ آخر کار تسنیم نورانی نے تنگ آکر مارچ دو ہزار سولہ کو استعفیٰ دیدیا۔ نہ صرف پارٹی کے چیف الیکشن کمشنر تسنیم نورانی بلکہ مرکزی الیکشن کمیشن کے تمام عہدیداران سمیت پنجاب اور سندھ کے ارکان بھی احتجاجاً مستعفی ہوگئے۔یہ رکاوٹ دور ہونے کے بعد پی ٹی آئی نے ایک تابعدار قائمقام چیف الیکشن کمشنر مقرر کیا۔ لیکن عمران خان پھر بھی انٹرا پارٹی الیکشن سے راہ فرار اختیار کرتے رہے۔ یوں دو ہزار سترہ آگیا۔ تب الیکشن کمیشن پاکستان نے اس تاخیر کا نوٹس لیا اور مارچ دو ہزار سترہ میں پی ٹی آئی کو مستقبل میں کسی بھی انتخابات میں اپنا انتخابی نشان ’’بلا‘‘ استعمال کرنے سے روک دیا۔ کیونکہ پارٹی وقت پر انٹرا پارٹی انتخابات کرانے میں ناکام رہی تھی۔ یعنی یہ پہلی بار نہیں ہے کہ انٹرا پارٹی الیکشن سے راہ فرار پر پی ٹی آئی کو اپنے انتخابی نشان ’’بلے‘‘ سے محروم ہونے کا خطرہ لاحق ہوا۔ چھ برس پہلے بھی اسے اپنا انتخابی نشان استعمال کرنے سے روک دیا گیا تھا۔لیکن فرق یہ ہے کہ اس وقت ہوا تحریک انصاف کے حق میں چل رہی تھی۔ چنانچہ اسے موقع دیا گیا۔ آخرکار گیارہ جون دو ہزار سترہ کو پی ٹی آئی نے انٹرا پارٹی الیکشن کرادیئے گئے اور ان الیکشن کے نتائج کو تسلیم کر لیا گیا اور پی ٹی آئی کو اپنا انتخابی نشان ’’بلا‘‘ استعمال کرنے کی اجازت بھی مل گئی۔

 تحریک انصاف کے حالیہ انٹرا پارٹی الیکشن بارے پی ٹی آئی یہ دہائی دیتی دکھائی دیتی ہے کہ الیکشن کمیشن پاکستان نے محض بیس روز میں انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کا حکم دے کر بہت بڑی زیادتی کی ہے اور یہ کہ اس کا مقصد پارٹی کو اس کے انتخابی نشان ’’بلے‘‘ سے محروم کرنا ہے۔ پی ٹی آئی کے سینیٹر بیرسٹر علی ظفر اور ان کے ہمنوا یہ کہتے ہوئے نہیں تھک رہے کہ ’’الیکشن کمیشن نے ایک غیر قانونی و غیر آئینی حکم دیا‘‘۔ لیکن عوام کو ریلیف دینے کے دعوئوں، مدینہ کی ریاست کے قیام اور فارن فنڈنگ سے لے کر سائفر اسکینڈل تک تحریک انصاف نے اب تک جھوٹے بیانیے کے جو بے مثال ریکارڈ قائم کئے ہیں۔ انٹرا پارٹی الیکشن کو لے کر رونا پیٹنا بھی اسی کا تسلسل ہے۔

اصل کہانی یوں ہے کہ تسنیم نورانی کے مستعفی ہونے کے بعد دو ہزار سترہ میں پی ٹی آئی نے قائم مقام چیف الیکشن کمشنر کی زیر نگرانی انٹرا پارٹی الیکشن کراکے تمام پارٹی عہدیداران چار سال کیلئے منتخب کرائے تھے۔ جن کی چار سالہ مدت تیرہ جون دو ہزار اکیس کو ختم ہوگئی تھی۔ وہ دن ہے اور آج کا دن ہے۔ الیکشن کمیشن کی یاد دہانیوں کے باوجود پچھلے قریباً ڈھائی برس سے پی ٹی آئی لارا لپا دیتی آرہی تھی۔پہلے کہا گیا کہ کورونا کی وجہ سے پارٹی الیکشن کرانے سے قاصر ہے۔ لہٰذا اسے ایک برس کی مہلت دی جائے۔ چونکہ اس وقت عمران خان وزیراعظم تھے اور پی ٹی آئی کی گڈی چڑھی ہوئی تھی۔ چنانچہ اسے یہ مہلت دیدی گئی۔ یوں پورے ایک برس تک پی ٹی آئی غیرقانونی قیادت کے ذریعے چلائی جاتی رہی۔ تاہم یہ ایک سالہ مہلت پوری ہوجانے پر بھی تحریک انصاف نے انٹرا پارٹی الیکشن سے راہ فرار اختیار کیے رکھی۔

آخرکار الیکشن کمیشن کے شوکاز نوٹس پر پچھلے برس جون میں تحریک انصاف نے نام نہاد پارٹی الیکشن کراکے ’’منتخب‘‘ ارکان کی فہرست الیکشن کمیشن پاکستان میں جمع کرادی۔ اس کیس کی پانچ سماعتیں ہوئیں۔ جس میں پی ٹی آئی کے وکیل بیرسٹر گوہر علی خان تھے۔ جنہیں پی ٹی آئی کا نیا چیئرمین منتخب کیا گیا ہے

رواں برس ستمبر میں الیکشن کمیشن پاکستان نے کیس کا فیصلہ محفوظ کرلیا تھا جو جمعرات تئیس نومبر کو سنایا گیا۔ جس میں تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کو کالعدم قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ اس حوالے سے جو رپورٹ یا فہرست کمیشن میں جمع کرائی گئی۔ وہ تنازعات اور شکوک و شبہات سے بھرپور تھی اور اگر پی ٹی آئی بیس روز میں انتخابات نہیں کراتی تو وہ اپنے انتخابی نشان بلے سے محروم ہوجائے گی۔

اس سخت وارننگ پر گھبراکر اب تحریک انصاف نے دو دسمبر کو انٹرا پارٹی الیکشن کرانے کا اعلان کیا ہے۔ لیکن اصل سوال یہ ہے کہ جو انٹرا پارٹی الیکشن پی ٹی آئی پچھلے ڈھائی برس میں نہ کرا سکی۔ وہ اتنے مختصر وقت میں کیسے کرالے گی؟ پی ٹی آئی کے ایک سابق عہدیدار کے بقول انٹرا پارٹی الیکشن کا ایک طویل عمل ہوتا ہے جو گراس روٹ لیول شروع ہوتا ہے۔ تاہم دو دسمبر کو انٹراپارٹی الیکشن کرانے کا اعلان کرنے والی پی ٹی آئی نے تاحال متذکرہ الیکٹورل کالجز نہیں بنائے۔ نہ ریجن اور صوبوں میں الیکشن ہوئے ہیں، نہ ہی اب تک پینلز کا اعلان کیا گیا ہے۔

دیکھنا ہے کہ اس مختصر وقت میں کس طریقہ کار کے ذریعے پی ٹی آئی یہ الیکشن کراکے نئے چیئرمین سمیت دیگر مرکزی عہدیداران کا انتخاب کرتی ہے۔ ملین ڈالر کا سوال ہے کہ کیا اس نوعیت کے انٹراپارٹی الیکشن کو الیکشن کمیشن پاکستان تسلیم کرلے گا؟ یہ سوال بھی اہم ہے کہ ایک موجودہ پارٹی چیئرمین عمران خان نے دوسرے چیئرمین کو نامزد کردیا تو شفاف عمل کیسے کہلائے گا جس میں ووٹر کا حق چھین لیا گیا ہے۔

Back to top button