پی ٹی آئی انتشار کا شکار: کئی یوتھیے رہنما پارٹی چھوڑنے کو تیار

حکومت کی جانب سے عدم دلچسپی اور مثبت جواب نہ آنے پر بانی پی ٹی آئی کی رہائی سمیت مختلف مطالبات کے ساتھ حکومت سے مذاکرات کی بیل منڈھے چڑھنے کے امکانات معدوم ہیں۔ دوسری جانب ہی پی ٹی آئی کے اندر باہمی اختلافات اور عدم اعتماد میں بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہوتا دکھائی دے رہا ہے۔ پی ٹی آئی کے سنجیدہ حلقوں کے ساتھ ساتھ مبصرین کا بھی خیال ہے کہ پی ٹی آئی میں خلیج ایسے ہی بڑھتی رہی تو آنے والے دنوں میں تحریکِ انصاف میں ٹوٹ پھوٹ کا جاری سلسلہ مزید تیز ہوتا ہوا نظر آئے گا یہاں تک کہ کئی خاموش بیٹھے ہوئے پی ٹی آئی رہنما اپنے راستے الگ کرلیں گے۔ یوں پی ٹی آئی نہ صرف مزید چھوٹے چھوٹے گروپوں میں تقسیم ہو جائے گی بلکہ تحریک انصاف میں سیاسی اور تنظیمی انتشار اور خلفشار مزید بڑھ جائے گا۔
پی ٹی آئی ذرائع کے مطابق بانی پی ٹی آئی کی غیر موجودگی میں اس وقت ہر کوئی اپنی سیاست چمکانے میں لگا ہوا ہے اور پارٹی میں کنفیوژن بڑھانے کا موجب بن رہا ہے۔ ان حالات میں جہاں ایک طرف بانی پی ٹی آئی کے خونی رشتہ داروں کے آگے بڑھ کر قیادت سنبھالنے کے وقت کا انتظار کیا جارہا ہے۔ تاہم عمران خان کے قریبی رشتہ داروں یعنی بشری بی بی اور علیمہ خان میں بھی اختلافات زوروں پر ہے دونوں اپنی اپنی ڈگر پر چل رہی ہیں اس وجہ سے پارٹی کو متحد رکھنا اس وقت ایک چیلینج ثابت ہو رہا ہے۔
واضح رہے کہ پی ٹی آئی کی ’فائنل احتجاجی کال‘ کی ناکام کے بعد حکومت کے ساتھ مذاکراتی عمل اور مجوزہ نافرمانی تحریک پر پی ٹی آئی کے ساتھ ساتھ اتحادی جماعتوں میں بھی اختلافِ رائے پایا جاتا ہے۔ جبکہ بانی پی ٹی آئی اپنی جماعت کے رہنمائوں کی پارلیمانی و سیاسی کارکردگی پر ناخوش اور برہم ہیں۔ ان کے اتحادی انہیں حکومت کے ساتھ مذاکرات کے ساتھ ساتھ کسی جامع منصوبہ بندی کے بغیر نافرمانی کی تحریک شروع نہ کرنے کا مشورہ دے رہے ہیں۔ جبکہ عمران خان کسی کی بات سننے پر آمادہ نظر نہیں آتے تاہم پی ٹی آئی رہنما کے متضاد بیانات سے پی ٹی آئی کے عام کارکنان سے سنجیدہ حلقوں میں کنفوژن پیدا ہوچکی ہے جس میں روزبروز اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے۔ اس کنفیوژن اور مذکرات کی پوزیشن پر پی ٹی آئی کے ذرائع کا کہنا ہے کہ مذاکرات کرنے والوں کو بنیادی طور پر کچھ معلوم ہی نہیں ہے۔ زیادہ تر کوئی اور بات کی جاتی ہے اور بانی پی ٹی آئی کے احکامات پر اپنی دانست کے مطابق عمل کیا جاتا ہے جس سے فائدے کے بجائے نقصان کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ان ذرائع کے مطابق پی ٹی آئی میں کسی کو معلوم ہی نہیں کہ کرنا کیا ہے ؟ فیصلہ کس نے کرنا ہے ؟ اگرچہ تمام فیصلے بانی پی ٹی آئی نے ہی کرنے ہیں لیکن ساتھ ہی لگتا ہے کہ فیصلے کرنے والے ایک سے زیادہ ہیں اور ہر کسی کا فیصلہ الگ الگ ہوتا ہے جس کی وجہ سے کوئی مستقل لائحہ عمل نہیں بن پاتا اور اپوزیشن اتحادی بھی بد دل ہوتے ہیں جن میں جے یو آئی کو سر فہرست قرار دیا جارہا ہے۔ اندیشہ ظاہر کیا جارہا ہے کہ اگر پارٹی کے اندر یہی صورتحال برقرار رہی تو دیگر اتحادی بھی یکے بعد دیگرے کہیں پی ٹی آئی کوچھوڑ کر نہ چلے جائیں۔
روزنامہ امت کی ایک رپورٹ کے مطابق پی ٹی آئی ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کو ماننا پڑے گا کہ جب اتحادیوں کو استعمال کر کے نظر انداز کردیا جائے گا اور ان کی مشاورت و تجاویز کو اہمیت نہیں دی جائے گی تو اس کے نتائج منفی برآمد ہوں گے۔ ان ذرائع نے یوتھیوں کی جانب خاص طور پر عسکری اداروں کے بارے میں سوشل میڈیا پر چلائی جانے والی مہم کو افسوسناک قراردیتے ہوئے کہا کہ جب مقتدر حلقوں کیخلاف ایسی سوشل میڈیا مہم چلائی جائے گی تو اس کے نتائج کیا نکلیں گے؟
مبصرین کا مزید کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کس واضح سمیت کے بغیر چل رہی ہے اور اس وقت کوئی بھی بانی پی ٹی آئی کے ساتھ حقیقی معنوں میں مخلص اور وفادار دکھائی نہیں دیتا۔ کیونکہ کئی پارٹی رہنماؤں کی سیاست عمران خان کی جیل یاترا کے ساتھ ہی وابستہ ہے کہ جتنی دیر عمران خان جیل میں رہیں گے اتنی دیر ہی ان کہ سیاست چکمتی رہے گی اور جیسے عمران خان جیل سے باہر آئے وہ زمین بوس ہو جائیں گے ایسے رہنماؤں کو اپنی اپنی سیاسی چمک عزیزہے اور وہ جانتے ہیں کہ جب تک بانی پی ٹی آئی جیل میں ہیں تب تک وہ گرم توے پر پراٹھا پکا سکتے ہیں۔ مذاکرات اور مذاکرات کرنے والوں کی بھی یہی پوزیشن ہے۔ یہی صورتحال اس وقت پارٹی میں پائی جانے والی کنفیوژن میں اضافہ کررہی ہے اور اس وقت تک برقرار رہے گی جب تک بانی پی ٹی آئی جیل سے رہا نہیں ہوتے۔
عمران خان کی سول نافرمانی کی دھمکی بھی ہوا کے طرح خارج
مبصرین کے مطابق بانی پی ٹی آئی عمران خان اس وقت صورتحال بھانپ چکے ہیں اسی لئے وہ مذاکرات ِ کے ذریعے اپنی نجات چاہتے ہیں۔ کیونکہ انھیں پتا چل چکا ہے کہ اگر وہ مزید کچھ عرصہ جیل میں رہے تو پی ٹی آئی کو ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ تاہم پی ٹی آئی کی انتشاری سیاست کی وجہ سے حکومت عمران خان کو قطعا فیس سیونگ دینے پر آمادہ دکھائی نہیں دیتی۔ مبصرین کے مطابق محمود اچکزئی کی طرف سے بانی پی ٹی آئی کو سول نافرمانی کی تحریک موخر کرنے کا مشورہ دینا بھی فیس سیونگ ہے۔ اس سے لگتا ہے کہ پی ٹی آئی کی اتحادی جماعتیں بانی پی ٹی آئی کی فیس سیونگ کرتی رہیں گی اور اس طرح مذاکرات کا کھیل چلتا رہے گا تاہم مذاکرات کا نتیجہ کچھ نہیں نکلے گا۔