12 برس میں PTI خیبر پختون خواہ کی حالت بہتر کیوں نہیں بنا پائی ؟

عمران خان کے نام پر پچھلے 12 برس سے خیبر پختون خواہ میں برسر اقتدار تحریک انصاف کی حکومت نہ تو صوبے میں عوامی فلاح کا کوئی بڑا منصوبہ شروع کر پائی ہے اور نہ ہی پشاور شہر کی حالت بہتر بنانے کا کوئی پلان بنایا ہے۔ صوبائی حکومت کی ناہلی کا نتیجہ یہ ہے کہ پی ٹی آئی پشاور کی مرکزی قیادت بھی اب گنڈاپور سرکار سے اپنی ناراضی کا کھُل کر اظہار کر رہی ہے۔

یاد رہے کہ تحریک انصاف 2024ء کے الیکشن میں مسلسل تیسری بار خیبر پختون خوا میں برسراقتدار آئی تھی۔ سال 2013 سے حکومت میں ہونے کی وجہ سے پی ٹی آئی صوبے میں غیرمعمولی سیاسی اثر و رسوخ رکھتی ہے، مگر آٹھ فروری 2024 کے الیکشن میں کامیابی کے باوجود وزیر اعلی گنڈاپور کی حکومتی کارکردگی پر پارٹی کے اندر بھی سوالات اُٹھنے لگے ہیں۔ تیسری بار حکومت میں آنے کے باوجود حکمران جماعت سے صوبائی دارالحکومت پشاور کی حالت تک نہیں بدلی جا سکی اور نہ ہی عوامی فلاح کا کوئی بڑا منصوبہ شروع کیا جا سکا ہے۔ اسی وجہ سے اب پی ٹی آئی پشاور کے رہنماؤں نے صوبائی حکومت سے اپنی ناراضی کا کھُل کر اظہار کرنا شروع کر دیا ہے۔

گذشتہ دنوں پشاور کے سینیئر ورکرز اور عوامی نمائندوں کا اجلاس ہوا جس میں وزیراعلٰی کو اپنے تحفظات سے آگاہ کرنے اور احتجاج ریکارڈ کرنے پر اتفاق ہوا۔ اس موقع پر پی ٹی آئی پشاور ڈسٹرکٹ کے صدر عرفان سلیم کا کہنا تھا کہ ’پشاور اس صوبے کا چہرہ ہے لیکن افسوس ہے کہ یہاں 12 برس سے کسی قسم کا کوئی بھی ترقیاتی کام نہیں ہو سکا۔انہوں نے کہا کہ ’پی ٹی آئی کا پہلا دور قدرے بہتر تھا جس میں بہت سے منصوبے شروع کیے گئے تھے مگر یہ تسلسل برقرار نہیں رہ سکا اور شہر کی حالت بگڑ گئی ہے۔‘ عرفان سلیم کے مطابق ’پی ٹی آئی پشاور کے تمام ورکرز اس بات پر متفق ہیں کہ ہم نے شہر کی حالت بہتر بنانی ہے جس کے لیے صوبائی حکومت سے بات چیت بھی جاری ہے۔

پی ٹی آئی کے ایک سینیئر رہنما نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کہا کہ ’خیبر پختونخواہ حکومت کو بہت سارے چیلنجز درپیش ہیں مگر غیر سنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ سوائے بیان بازی کے اور کچھ بھی نہیں ہو رہا۔‘ انہوں نے کہا کہ ’بانی چئیرمین عمران خان کی رہائی ضروری ہے مگر عوامی مینڈیٹ کو مدِنظر رکھتے ہوئے لوگوں کی فلاح و بہبود کے حوالے سے بھی کام ہونا چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ پچھلے ڈیڑھ برس سے گنڈاپور سرکار احتجاجی سیاست کیے جا رہی ہے اور عوامی فلاح پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی۔ انکا کہنا تھا کہ اس وجہ سے اب صوبے میں پی ٹی آئی کی مقبولیت میں کمی آ رہی ہے۔ انکا کہنا تھا کہ عوام کو عمران سے پیار ضرور ہے مگر انکی صوبائی حکومت کے بارے میں بھی ان کی رائے منفی ہے۔

تاہم پشاور سے منتخب رُکن صوبائی اسمبلی فضل الٰہی کا کہنا ہے کہ ’آٹھ فروری 2024 کو عوام نے تحریک انصاف کو ووٹ عمران خان کو رہا کروانے کے لیے دیے تھے لیکن ایسا نہیں ہے کہ صوبے میں ترقیاتی کام نہیں ہو رہی۔ صوبے میں 10 برسوں سے ترقیاتی کام ہو رہے ہیں اور آگے بھی ہوتے رہیں گے، مگر اس مرتبہ ہمیں جس مقصد کے لیے ووٹ ملا تھا، اسے پورا کرنے کی بھرپور کوشش کی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’سب کو معلوم ہے کہ عوام نے پی ٹی آئی کے آزاد امیدواروں کو ووٹ کیوں دیا۔ نہ تو ہمارے پاس انتخابی نشان تھا اور نہ ہی ہمیں انتخابی مہم چلانے دی گئی، مگر عوام نے انتقام لینے کے لیے ہمیں کامیاب کروایا۔ فضل الٰہی کا کہنا تھا کہ ’ہم اپنے ووٹرز کو مایوس نہیں کریں گے اور انہیں بہت جلد خان صاحب کی رہائی سے متعلق خوش خبری سنائیں گے۔‘

تاہم دوسری جانب سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ 26 نومبر کے اسلام آباد احتجاج کی ناکامی کے بعد سے تحریک انصاف کی سٹریٹ پاور ختم ہو چکی ہے اور اب وہ اس پوزیشن میں نہیں کہ عوامی احتجاج کر سکے اور عمران خان کی رہائی کے لیے حکومت پر دباؤ ڈال سکے۔ ان کا کہنا ہے کہ ویسے بھی 26 نومبر کے بعد سے پارٹی قیادت نے احتجاج کی ایک بھی کال نہیں دی، بنیادی وجہ یہ ہے کہ اپنے ساتھیوں کو پیچھے چھوڑ کر بشری بی بی سمیت جوتیاں اٹھا کر بھاگ جانے کے بعد سے اب علی امین گنڈاپور پشاور سے آ کر اسلام آباد پر چڑھائی کرنے کے قابل نہیں رہے۔

تاہم وزیراعلٰی خیبر پختونخوا کے فوکل پرسن برائے اقلیتی امور وزیر زادہ کا کہنا تھا کہ گنڈاپور سرکار بانی پی ٹی ائی کی رہائی کے لیے کوششیں جاری رکھے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کی رہائی کی جنگ درحقیقت قانون اور آئین کی آزادی کی جنگ ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’عمران خان کی آزادی پی ٹی آئی کے ووٹرز کا اولین مطالبہ ہے جس کے لیے ہماری قیادت اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر رہی ہے۔‘

پی ٹی آئی کے رہنما وزیر زادہ کے مطابق ’خیبر پختونخوا حکومت ترقیاتی منصوبے بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ صحت کارڈ کی بحالی، شاہراہوں کی تعمیر، احساس گھر پروگرام اور نوجوانوں کو کاروبار کے لیے بلاسود قرضے دیے جا رہے ہیں۔ علاوہ ازیں صوبائی حکومت نے سولرائزیشن سکیم پر بھی کام شروع کر دیا ہے۔‘

انکا کہنا تھا کہ سیاسی مخالفین گنڈاپور حکومت کے خلاف منفی پروپیگنڈا کرتے ہیں لیکن ان کو معلوم ہونا چاہیے کہ ان کی باری نہیں آنے والی اور عوام دوبارہ عمران خان کو ہی ووٹ دیں گے۔انکا کہنا تھا کہ کے پی میں عوام کے ٹیکس کا پیسہ عوام پر ہی خرچ کیا جا رہا ہے اور تمام ترقیاتی منصوبے وقت پر مکمل کیے جائیں گے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’پی ٹی آئی کی اصلاحات کے بعد خیبر پختونخوا ملک کا امیر ترین صوبہ بن چکا ہے۔ کرپشن کے دروازے بند کیے جا چکے ہیں، جو پیسہ غائب ہوتا تھا، وہ اب خزانے میں جمع ہو رہا ہے۔‘

لیکن خیبر پختونخوا کی موجودہ صورت حال کے حوالے سے تجزیہ کار ڈاکٹر عنایت اللہ فیضی کا کہنا ہے کہ ’اس حکومت سے ترقیاتی کام کرنے کی توقع نہیں رکھنی چاہیے کیوںکہ تمام رہنماؤں کا ایجنڈا عمران خان کی رہائی ہے اور اسی مقصد کے لیے بھاگ دوڑ ہو رہی ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’صوبے کو اس وقت بدامنی، بے روزگاری کے علاوہ مالی بحران کا بھی سامنا ہے مگر حکومت کی جانب سے کوئی سنجیدہ اقدامات نہیں کیے جا رہے۔‘ عنایت اللہ فیضی نے کہا کہ ’ایک شخص کے لیے عوامی مینڈیٹ کو نظر انداز کیا جا رہا ہے جو اس صوبے کے ساتھ ناانصافی ہے۔‘

وفاقی حکومت کا شہریوں کے شناختی کارڈ کو ہیلتھ کارڈ بنانے کا فیصل

دوسری جانب سینیئر صحافی محمد فہیم نے کہا کہ ’ہر حکومت کے دور میں پشاور کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ حکومت کے پاس جب بھی فنڈز کی کمی ہوتی ہے تو سب سے زیادہ نقصان پشاور کو اٹھانا پڑتا ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’حکومت کے پاس سرپلس بجٹ ہے مگر وہ آئی ایم ایف کی شرط کے مطابق سرپلس بجٹ خرچ نہیں کرے گی۔‘

محمد فہیم کے مطابق ’پشاور میں وقتاً فوقتاً کلین اینڈ گرین پشاور، پشاور اَپ لفٹ پروگرام، ڈرگ فری پشاور، بیوٹیفیکیشن آف پشاور جیسے منصوبے شروع ہوئے مگر آج تک یہ مکمل نہیں ہوئے اور نہ ان کے نتائج نظر آ رہے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ پرویز خٹک کے دور سے کچھ منصوبے چلے آ رہے ہیں مگر وہ کب مکمل ہوں گے اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا۔‘ فہیم کا کہنا تھا کہ ’پشاور کی قیادت ہمیشہ سے بولتی آئی ہے چاہے وہ کسی پارٹی سے ہو، انہوں نے ہمیشہ شہر کے لیے آواز اٹھائی ہے مگر اب دیکھنا ہے کہ موجودہ حکومت اس پر کیا ردِعمل دیتی ہے۔‘

Back to top button