حکومت سے مذاکرات رکنے کے بعد PTI کے فوج سے رابطے بھی ختم

حکومت سے مذاکراتی عمل ختم کرنے کے اعلان کے بعد پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے بیک ڈور رابطوں کے دروازے بھی بند ہو گئے ہیں۔ تاہم سیکورٹی ذرائع کے مطابق پشاور میں غیر رسمی مگر اہم ملاقات کے بعد فریقین میں برف ضرور پگھلی تھی تاہم اعتماد سازی کے فقدان کی وجہ سے تحریک انصاف کا اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مضبوط اور موثر بیک ڈور رابطہ قائم ہی نہیں ہو سکا تھا۔ تاہم اب عمران خان کی جانب سے حکومت سے مذاکرات کے خاتمے کے اعلان کے بعد رابطہ کاری مکمل ختم ہو گئی ہے۔ ذرائع کا دعوی ہے کہ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے پی ٹی آئی رہنماؤں کو واضح پیغام پہنچا دیا گیا ہے کہ عسکری قیادت کسی بھی سیاسی عمل کا حصہ نہ بننے کھ اپنے فیصلے پر قائم ہے۔اب جبکہ پی ٹی آئی حکومت سے مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کر چکی ہے اس صورتحال میں پس پردہ مذاکرات اور رابطوں کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔
ذرائع کا دعوی ہے کہ پشاور میں عسکری قیادت کیساتھ بیرسٹر گوہر اور علی امین گنڈا پور کی ملاقات ان دونوں کی درخواست پر غیر رسمی طور پر ہوئی تھی۔ صوبائی سیکیورٹی صورتحال کے حوالے سے خیر سگالی کے تحت ہونے والی ملاقات کو سیاسی رنگ دینے پر عسکری قیادت نے پی ٹی آئی پر شدید برہمی کا اظہار کیا تھا اسی وجہ سے اس ملاقات کے بعد عسکری قیادت کا پی ٹی آئی کیساتھ کوئی رابطہ نہیں ہوا جبکہ اب مذاکراتی عمل ختم ہونے کے بعد پی ٹی آئی اور اسٹیبلشمنٹ کے رابطوں کے حوالے سے پکا فل سٹاپ لگ گیا ہے۔ سیکورٹی ذرائع کا کہنا ہے کہ پشاور ملاقات میں بھی واضح طور پر پی ٹی آئی رہنماؤں کو بتا دیا گیا تھا کہ تحریک انصاف کو بات چیت کیلئے سیاسی قیادت کیساتھ ہی بیٹھنا ہو گا اور وہی واحد راستہ ہے جو مذاکراتی عمل کو آگے لے جا سکتا ہے ۔ تاہم اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے صاف ٹھینگا دکھائے جانے کے بعد بانی پی ٹی آئی کی پارلیمنٹ ہاؤس میں ہونے والے مذاکراتی عمل سے دلچسپی ختم ہونے لگی تھی اور اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے دوبارہ گود لینے سے صاف انکار کے بعد اب عمران خان نے فرنٹ ڈور مذاکرات سے نکلنے کا اعلان کر دیا ہے۔
مبصرین کے مطابق بانی پی ٹی آئی نے حکومت سے جاری مذاکراتی عمل ختم کرنے کا اعلان کر کے ایک مرتبہ پھر پی ٹی آئی کو سیاسی محاذ پر دفاعی پوزیشن میں لاکھڑا کیا ہے۔ تجزیہ کاروں کے مطابق مذاکرات کے ختم کرنے کے عمرانی فیصلے کے بعد ملک میں سیاسی استحکام کیلئے امیدیں اور توقعات غارت ہوتی نظر آرہی ہیں۔ مذاکرات میں ڈیڈ لاک سیاسی محاذ پر پھر سےنئے انتشار اور ٹکراؤ کو جنم دے سکتا ہے ۔ماہرین کے مطابق بانی پی ٹی آئی نے مذاکرات ختم کرنے کا اعلان عجلت میں کیا ، تاہم ہوسکتا ہے کہ جلد یا بدیر یہ سلسلہ اندرونی وبیرونی دباؤ کے تحت پھر بحال ہو جائے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق لگتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی خبروں کو اپنے ایجنڈے کی بنا پر بناتے اور چلاتے ہیں،اسی طرز عمل کے تحت انہوں نے مذاکرات ختم کرنے کا اعلان کردیاہے۔ تاہم عمران خان نے مذاکرات ختم کرنے میں جلد بازی کا مظاہرہ کر کے اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری لی ہے کیونکہ اس فیصلے سے جہاں حکومت کے ساتھ بات چیت کے دروازے بند ہو گئے ہیں وہیں اسٹیبلشمنٹ نے بھی بیک ڈور رابطے منقطع کر دئیے ہیں۔تجزیہ کاروں کے مطابق ماضی قریب میں بظاہر تو خود پی ٹی آئی پس پردہ مذاکراتی عمل کا حصہ تھی جس کا اظہار خود بیرسٹر گوہر نے یہ کہہ کر کیا تھا کہ بیک ڈور اور فرنٹ ڈور مذاکراتی عمل چلائیں گے تاہم عمران خان کے اعلان کے بعد اب جبکہ فرنٹ ڈور مذاکرات ختم ہو گئے ہیں تو ایسے میں پس پردہ مذاکراتی عمل کا بھی دھڑن تختہ ہو گیا ہے۔
تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ بانی پی ٹی آئی عمران خان نے مذاکرات ختم کرنے کا فیصلہ عجلت میں کیا ہے اس لئے اس پر پی ٹی آئی کا یوٹرن لینا اور مذاکراتی عمل بحال ہونا خارج ازامکان نہیں مبصرین کے مطابق مذاکرات ختم کرنے کے اعلان کے بعد جہاں تک پی ٹی آئی کی نئی سیاسی حکمت عملی کا سوال ہے تو لگتا یہی ہے کہ یوتھیے پھر سے احتجاجی سیاست کی طرف ہی رجوع کیلئے کوشاں ہونگے کیونکہ وہ انتشاری حکمت عملی کو اپنی سیاست اور سیاسی کردار کیلئے ناگزیر سمجھتے ہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اب پی ٹی آئی کے پاس کونسااحتجاجی آپشن ہے جس پر وہ اب کی بار عمل پیرا ہونگے کیونکہ وہ دھرنے، مارچ، وفاق پر حملے اور سول نافرمانی سمیت تمام حربے آزما چکے ہیں۔
سپریم کورٹ کے ججز کی آپسی جنگ عروج پر کیوں پہنچ گئی؟
مبصرین کے مطابق پی ٹی آئی کی مذاکرات سے پسپائی کے بعد پس پردہ مذاکرات کا مستقبل بھی تاریک ہو چکا ہے۔ جس کا اظہار اب خود پی ٹی آئی کی جانب سے ہورہا ہے کیونکہ یہ آپشن بھی تبھی کارگر ہوسکتا تھا جب فرنٹ ڈور مذاکرات جاری ہوتے کیونکہ کسی بھی پس پردہ مذاکرات کا اعلان بھی حکومت کو ہی کرنا تھا کیونکہ مذاکرات میں چھتری حکومت ہی تھی اب جبکہ پی ٹی آئی نے حکومت سے مذاکراتی عمل ہی توڑ دیا ہے تو پھر پس پردہ مجوزہ مذاکرات کی کامیابی کا بھی کوئی جواز نہیں لہذا صورتحال پھر دسمبر کے پہلے ہفتے پر پہنچ گئی ہے جہاں خود پی ٹی آئی بند گلی میں کھڑی تھی۔