کیا پرویز خٹک کو مشیر بنانے کا مقصد گنڈاپور پر دباؤ ڈالنا ہے ؟

خیبر پختونخوا کے سابق وزیراعلٰی پرویز خٹک کو وزیراعظم شہباز شریف کا مشیر داخلہ بنا کر وفاقی کابینہ میں شامل کرنے کو موجودہ وزیراعلی علی امین گنڈا پور پر دباؤ ڈالنے کی ایک کوشش قرار دیا جا رہا ہے۔ تاہم سیاسی تاریخ کے سب سے زیادہ با اختیار اور طاقتور وزیر داخلہ سئد محسن نقوی کی موجودگی میں پرویز خٹک کو کتنے اختیارات ملتے ہیں، اس سوال کا جواب ملنا ابھی باقی ہے۔
سیاسی مبصرین کے مطابق پرویز خٹک کو خیبر پختونخوا میں تحریک انصاف کی حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے لیے میدان میں اتارا گیا ہے، لیکن بعض افراد کی رائے میں خٹک اپنے تجربے کی بنیاد صوبے میں امن و امان کی بگڑتی ہوئی صورتحال پر قابو پانے کے لیے وفاق کی نمائندگی کریں گے۔ اس حوالے سے اردو نیوز کو اپنی رائے دیتے ہوئے پشاور کے سینیئر صحافی ارشد عزیز ملک نے کہا کہ پرویز خٹک کو ایک اہم مقصد کی خاطر لایا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’پرویز خٹک مسلم لیگ ن یا کسی سیاسی جماعت کے نامزد کردہ نہیں ہیں بلکہ انہیں اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی حاصل ہے۔ لہٰذا انہیں صوبے میں تحریک انصاف کو لگام ڈالنے اور دباؤ میں رکھنے کے لیے لایا گیا ہے۔ پرویز خٹک کے آج بھی تحریک انصاف میں گہرے تعلقات ہیں تو عین ممکن ہے کہ وہ ان تعلقات کو دوبارہ سے بحال کر کے فارڈ بلاک بنا لیں تاکہ پی ٹی آئی کی حکومت کو فارغ نہ بھی کر سکیں تو کسی نہ کسی طریقے سے دباؤ میں رکھ سکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پرویز خٹک کو صوبے میں امن و امان کے معاملات دیکھنے کی ذمہ داری بھی دی جائے گی اور اس حوالے سے محسن نقوی کو بھی اعتماد میں لیا گیا ہے۔
تاہم تحریک انصاف کے ترجمان شیخ وقاص کا کہنا تھا کہ پرویز خٹک اپنی یونین کونسل تک ہار چکے ہیں وہ تحریک انصاف کو کیا لگام ڈالیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ’پرویز خٹک کو نوازنے کے لیے ایک پارٹی بنا کر دی گئی تھی پھر اس جماعت سے نکال دیا گیا۔ آٹھ فروری کے الیکشن میں ان کا پورا خاندان شکست سے دوچار ہوا، ان کی ضمانتیں بھی ضبط ہوئی تھیں۔ جب پی ٹی آئی زیرِعتاب تھی اس وقت پرویز خٹک کو اسٹیبلشمنٹ کی پوری حمایت حاصل تھی، بیوروکریسی سے لے کر پولیس والے تک ان کے کہنے پر تبدیل ہوتے تھے مگر وہ تحریک انصاف کا کچھ نہیں بگاڑ سکے۔‘
یاد رہے کہ پرویز خٹک نے 2013 کے انتخابات میں تحریک انصاف کے ٹکٹ پر کامیاب ہو کر وزیراعلٰی خیبر پختونخوا کا عہدہ سنبھالا تھا، جبکہ 2018 کے انتخابات میں وہ قومی اسمبلی کی سیٹ جیت کر وفاقی وزیر دفاع بنے تھے۔ تاہم 9 مئی کو فوجی تنصیبات پر حملوں کے بعد انہوں نے تحریک انصاف سے علیحدگی اختیار کر کے اپنی نئی سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی لیکن 8 فروری 2024 کے الیکشن میں انہیں اور ان کے دو بیٹوں کو نوشہرہ سے بدترین شکست کا سامنا کرنا پڑا تھس۔
پرویز خٹک کی وفاقی کابینہ میں شمولیت کے حوالے سے تجزیہ کار کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنی اننگز کھیل لی یے اور اب ان کا خیبر پختون خواہ کی سیاست میں کوئی رول نظر نہیں آتا، ان کا کہنا تھا کہ وہ ماضی میں عمران خان کی مقبولیت کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پہلے وزیراعلی بنے جس کے بعد انہیں وزیر دفاع بھی بنایا گیا لیکن اب صرف اقتدار کی خاطر الیکشن ہارنے کے باوجود انہوں نے وفاقی کابینہ میں مشیر جیسا چھوٹا عہدہ قبول کر کے اپنی عزت ہی گنوائی۔ ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ 2024 کے الیکشن میں فوج کی مکمل حمایت ملنے کے باوجود پرویز خٹک بری طرح ہارے حالانکہ انکے حلقے میں ان کی مرضی سے پوسٹنگ اور ٹرانسفرز ہوئیں مگر اس کے باوجود وہ کامیاب نہیں ہوئے۔ پرویز خٹک اب دوبارہ سیاسی اننگز کھیلنا چاہتے ہیں اور اسی لیے انہیں خیبر پختونخوا میں ذمہ داریاں دی گئی ہیں۔
سینیئر صحافی صفی اللہ گل کا کہنا ہے کہ پرویز خٹک وفاق اور صوبے کے معاملات میں کچھ زیادہ کردار ادا نہیں کر سکیں گے کیونکہ ان کے پاس کوئی اختیار نہیں ہے، البتہ وہ ضلع نوشہرہ کو اپنا بیس کیمپ بنا کر اپنے حلقے کو مضبوط کر سکتے ہیں۔ صفی اللہ گل کہتے ہیں کہ پرویز خٹک کو منانے کے لیے مقتدر حلقوں نے انہیں ایڈجسٹ کیا ہے کیونکہ 8 فروری کے الیکشن میں شکست کے بعد خٹک صاحب ناراض ہو گئے تھے۔‘ ان کے مطابق تحریک انصاف میں اندرونی اختلافات کی خبریں بھی آ رہی ہیں اسی لیے پرویز خٹک جوڑ توڑ کی کوشش بھی ضرور کریں گے۔ یاد رہے کہ اس سے پہلے پرویز خٹک کو مولانا فضل الرحمن کی جانب سے جمیعت علماء اسلام میں شمولیت کی دعوت دی گئی تھی لیکن انہوں نے کابینہ میں شامل ہونا مناسب سمجھا۔
پاکستان سویلینز نے چلانا ہے یا جرنیلوں نے، فیصلہ کیوں نہیں ہو پا رہا؟
دوسری جانب مسلم لیگ ن کے رہنما اور وزیر اعظم کے کوآرڈینیٹر برائے خیبر پختونخوا امور اختیار ولی خان نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ پرویز خٹک کو جو اختیارات دیے گئے ہیں، ان کا انہیں خود علم نہیں ہے۔ یاد رہے کہ اختیار ولی نے پچھلے الیکشن میں نوشہرہ سے پرویز خٹک کو شکست دی تھی اور وہ ان کی کابینہ میں بطور مشیر شمولیت سے کافی نالاں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پرویز خٹک کا کام محض ایک مشیر کے طور پر ایک مخصوص ٹاسک تک محدود ہے۔ انکا کہنا تھا کہ پرویز خٹک کے پاس وزارت داخلہ کے امور دیکھنے کی ذمہ داری نہیں ہے کیونکہ وزارت داخلہ کے وفاقی وزیر محسن نقوی ہیں اور وزیر مملکت طلال چوہدری ہیں۔‘ اختیار ولی خان کے مطابق ’پرویز خٹک کو خاص کام سونپے گئے ہیں، دیکھتے ہیں اگلے مہینوں میں ان کے کیا نتائج سامنے آتے ہیں۔‘ انہوں نے واضح کیا کہ رانا ثنااللہ نے بھی وضاحت کی ہے کہ پرویز خٹک کو مسلم لیگ ن کی طرف سے نامزد نہیں کیا گیا۔