پاکستان میں منافع بخش رئیل اسٹیٹ سیکٹر تباہی کا شکار کیسے ہوا ؟

ایک وقت میں پاکستانی معیشت کا متحرک اور منافع بخش ترین شعبہ تصور کی جانے والی ریئل اسٹیٹ مارکیٹ اب مکمل جمود کا شکار ہو چکی ہے جسکے نتیجے میں مکانات اور پلاٹوں کی قیمتیں 10 سے 15 فیصد تک گر چکی ہیں۔ اسلام آباد، لاہور اور کراچی جیسے بڑے شہر جو کبھی ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں سرمایہ کاری کا گڑھ ہوتے تھے، اب جمود کا شکار ہیں اور سرمایہ کاروں کا پیسہ یا تو ڈوب رہا ہے یا پھنسا ہوا ہے۔

لاہور میں ڈی ایچ اے، بحریہ اور گلبرگ جیسے علاقوں میں اگرچہ زمین کی قیمتوں میں کراچی اور اسلام آباد کے مقابلے میں استحکام ہے لیکن خریداروں کی سرگرمی کم کافی ہو گئی ہے۔ اسلام آباد میں خاص طور پر آئی ایٹ، جی ٹین، اور بحریہ انکلیو جیسے علاقوں میں رئیل اسٹیٹ مارکیٹ جمود کا شکار ہے، ایک زمانے میں ایک ہی دن میں زمینوں اور مکانوں کے دو دو تین تین سودے کرنے والے ڈیلرز کا کہنا ہے کہ اب پراپرٹی خریدنے میں لوگوں کی دلچسپی ختم ہو چکی ہے لہٰذا انکے دفاتر میں کئی کئی ہفتوں تک خاموشی چھائی رہتی ہے۔

رئیل اسٹیٹ سیکٹر سے وابستہ افراد کا کہنا ہے کہ ملک بھر میں پراپرٹی مارکیٹ میں بحران یا جمود صرف اور صرف حکومتی پالیسیوں، اور معاشی یا سیاسی عدم استحکام کا نتیجہ نہیں بلکہ سرمایہ کاروں اور بلڈرز کی جانب سے بے ہنگم تعمیرات اور بے شمار ہاؤسنگ سوسائٹیوں کا بھی نتیجہ ہے۔ ان کے مطابق گزشتہ 10 سال میں اسلام آباد اور راولپنڈی کے گرد و نواح میں بننے والی ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں سے 50 فیصد بھی ایسی نہیں جہاں گھروں کی تعمیر اور رہائش مکمل ہوئی ہو۔

 انکا کہنا ہے کہ جب ہاؤسنگ سوسائٹیاں آباد نہیں ہوتیں تو ایک خالی پلاٹ کب تک قیمت بڑھنے کا باعث بنتا رہے گا؟ ایک وقت آتا ہے کہ اس کی قیمت کم ہونا شروع ہو جاتی ہے۔

پراپرٹی سیکٹر کی صورتحال اتنی خراب ہو چکی ہے کہ اب صرف رہائشی پلاٹس کی ہی نہیں بلکہ کمرشل پراپرٹی کی قیمت بھی گرنا شروع ہو چکی ہے۔ ایک وجہ یہ ہے کہ کمرشل پلازے بنانے والوں نے مارکیٹ کی ضروریات کو سامنے ہی نہیں رکھا۔ حالانکہ اسلام آباد کا سینٹورس مال، راولپنڈی اور اسلام آباد دونوں کی ضروریات پورا کر رہا تھا لیکن پھر بھی اس کے ساتھ ایک صفا مال بھی بنا دیا گیا۔ اس کے علاوہ بھی جس جس نے بھی جہاں جہاں مالز بنائے وہ آدھے سے زیادہ خالی پڑے ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود ہر آنے والی نئی سوسائٹی ایک بڑا کمرشل ایریا چھوڑ دیتی ہے جو شاید ہی کبھی بھرا ہو۔

رئیل سیکٹر کے ماہرین کا کہنا ہے کہ سٹیٹ بینک کی مالیاتی پالیسی کے تحت شرحِ سود 24 فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچی ہوئی ہے، جس کا براہِ راست اثر مارگیج فنانسنگ پر پڑا ہے۔ وہ متوسط طبقہ جو کبھی بینک سے قرضے لیکر گھر خریدنے کی امید رکھتا تھا، آج وہ اس سے مکمل طور پر مایوس ہو چکا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس بحران کی بنیادی وجوہات میں ملک میں مہنگائی کی بلند ترین شرح، قرضوں پر بلند سود، اور مسلسل بدلتی ٹیکس پالیسیاں شامل ہیں۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان کی 2024 کی رپورٹ کے مطابق بنیادی شرحِ سود 24 فیصد پر موجود ہے، جس نے نہ صرف ہاؤسنگ فنانس کو مہنگا بنا دیا ہے بلکہ بلڈرز اور عام خریداروں دونوں کے لیے زمین خریدنا تقریباً ناممکن بنا دیا ہے۔

پاکستان انسٹیٹیوٹ آف ڈیولپمنٹ اکنامکس کی حالیہ تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریئل اسٹیٹ کے بحران کی کئی پرتیں ہیں۔ صرف قیمتوں کا گرنا ہی مسئلہ نہیں بلکہ لین دین میں نمایاں کمی، نئی تعمیرات کا رُک جانا، بینکوں سے مارگیج فنانسنگ کا تقریباً ناپید ہونا، اور غیررسمی سرمایہ کاری کا اچانک خاتمہ اس بحران کو کئی گنا سنگین بنا رہے ہیں۔ ایک جانب حکومت نے ماضی میں جائیداد کے شعبے کو ریگولیٹ کرنے کے لیے سخت اقدامات کیے، جن میں پراپرٹی کی خریداری پر ‘سورس آف انکم’ ظاہر کرنا لازم قرار دیا گیا، دوسری جانب ایف بی آر اور نیب نے ہزاروں غیر قانونی ہاؤسنگ سکیموں کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا۔ بظاہر یہ اقدامات اصلاحات کی طرف اشارہ کرتے ہیں، لیکن اس کے نتیجے میں مارکیٹ سے وہ سرمایہ غائب ہو گیا ہے جو کبھی اسے چلاتا تھا۔

کراچی کے معروف ریئل اسٹیٹ تجزیاتی ادارے ’زمین ڈاٹ کام‘ کے چیف اکانومسٹ علی فاروقی کے مطابق ‘پاکستان میں گزشتہ دو سالوں میں پراپرٹی کی اوسط قیمت میں حقیقی بنیادوں پر 12 سے 15 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ ان کے بقول ’اگرچہ افراطِ زر کے باعث کاغذی قیمتیں وہی دکھائی دیتی ہیں، لیکن خریداروں کی قوتِ خرید شدید متاثر ہوئی ہے جس کے نتیجے میں مارکیٹ میں اصل سرگرمی ختم ہو گئی ہے۔ اس وقت صرف وہی خریداری ہو رہی ہے جو فوری رہائش کی ضرورت سے جڑی ہے۔ رئیل اسٹیٹ کے سرمایہ کار مکمل طور پر پس منظر میں جا چکے ہیں۔

لہٰذا ملک کی دو سو سے زائد ذیلی صنعتوں کو سہارا دینے والا رئیل اسٹیٹ سیکٹر اس بحران کی وجہ سے مکمل جمود کا شکار ہو چکا ہے۔ اینٹوں، سیمنٹ، لوہے، لکڑی، بجلی، پلمبنگ اور مزدوروں پر انحصار کرنے والے اس شعبے کے ہزاروں منصوبے رُک چکے ہیں۔ آل پاکستان بلڈرز ایسوسی ایشن کے صدر محمد حسین نے بتایا کہ ‘ہم نے 2022 کے بعد سے تقریباً 30 فیصد سے زائد منصوبے منسوخ کر دیے یا روک دیے۔ ہماری تنظیم کے رکن تعمیراتی ادارے اب نئی سرمایہ کاری کرنے سے گھبرا رہے ہیں۔‘

کنفیوژن در کنفیوژن : عمران خان مذاکرات چاہتے ہیں یا احتجاج ؟

اسکے علاوہ پاکستان میں ہزاروں غیر قانونی ہاؤسنگ سکیموں کے خلاف کارروائی نے ایک اور بحران کو جنم دیا۔ پنجاب ہاؤسنگ اینڈ ٹاؤن پلاننگ ایجنسی کے مطابق صرف پنجاب میں 2023 تک 3,700 غیر منظور شدہ سکیمیں فعال تھیں۔ ان میں سے اکثر میں لاکھوں افراد نے اپنی زندگی کی جمع پونجی لگائی ہوئی تھی۔ ان سکیموں کے خلاف کارروائی سے سرمایہ کاروں کا اعتماد مزید متزلزل ہو گیا اور نئے پروجیکٹس پر سرمایہ کاری تقریباً رک گئی۔

اوورسیز پاکستانی، جو ماضی میں جائیداد کے سب سے بڑے سرمایہ کار سمجھے جاتے تھےاب سرمایہ کاری کرتے ہوئے ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔ سخت قوانین، شناختی عمل کی پیچیدگیاں، منی لانڈرنگ کی روک تھام کی پالیسیاں اور کئی دیگر ضوابط نے ان کے لیے پراپرٹی خریدنا مشکل بنا دیا ہے۔ اس تمام صورتحال میں ٹیکس پالیسیوں کا بوجھ بھی شامل ہے۔ کارپوریٹ ٹیکس، کیپیٹل گینز ٹیکس، ہولڈنگ ٹیکس، اور رجسٹریشن فیس نے اس شعبے کو مزید دباؤ میں ڈال رکھا ہے۔

Back to top button