جنگ کے دوران نواز شریف پر خاموشی کا الزام لگانے والوں کو جواب

معروف لکھاری اور تجزیہ کار سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ہے کہ پاک بھارت جنگ کے دوران سابق وزیر اعظم نواز شریف کو خاموش رہنے پر تنقید کا نشانہ بنانے والوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کے لیے 28 مئی 1998 کو دھماکے نواز شریف نے ہی کیے تھے۔

روزنامہ جنگ کے لیے اپنی تازہ تحریر میں عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ 28 مئی یوم تکبیر ہماری عظمت، شان، وقار، قومی تاریخ اور 14اگست 1947ء کے بعد دوسرا اہم ترین قومی دن ہے۔ تب کے وزیر اعظم نواز شریف نے عالمی دباؤ کو یکسر مسترد کرتے ہوئے امریکی صدر بل کلنٹن کے پانچ ٹیلی فون کالز اور 5 ارب ڈالرز کے پیکج کو مسترد کرکے پاکستان کو عالمِ اسلام کی پہلی اور دنیا کی ساتویں ایٹمی طاقت بنا دیا۔

بل کلنٹن نے اپنی کتاب (My Life) میں لکھا ہے کہ مئی 1998 کے وسط میں بھارت نے زیر زمین ایٹمی دھماکے کئے تو جوابی دھماکوں سے روکنے کے لئے وزیراعظم نواز شریف پر دباؤ ڈالا گیا لیکن انہوں نے اسے مسترد کرتے ہوئے دو ہفتے بعد انڈیا کے پانچ ایٹمی دھماکوں کے جواب میں چھ ایٹمی دھماکے کر دیے”۔

عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ اس حقیقت کے باوجود کیڑا کار کہتے ہیں کہ نوازشریف حالیہ پاک بھارت جنگ کے دوران کیوں نہیں بولا؟ کوئی بُغض کے مارے اِن کیڑا کاروں کو بتائے کہ پاکستان کی ایٹمی صلاحیت کے خوف سے لیکر جے ایف 17 تھنڈر کی گھن گھرج تک نواز شریف ہی تو بول رہا تھا؟ وہ سوال کرتے ہیں کہ حالیہ کشیدگی کے دوران پاکستان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملا کر کھڑے ہونیوالے دوست رہنمائوں کیساتھ تدبر، فراست اور گہری یگانگت والی سفارت کاری میں کس کا طویل تجربہ کلام کر رہا تھا؟

عرفان صدیق کہتے ہیں کہ 1998 کے ایٹمی دھماکوں کی طرح پاکستان نے بھارت کے میزائل اور ڈرون حملوں کا بھی بھرپور جواب دیا اور بھارت کو شکست فاس سے دوچار کر دیا۔ وہ سوال کرتے ہیں کہ رُسوائی اور ہزیمت میں لَت پَت مودی کی اِس یورشِ لاحاصل کے بعد کیا بھارت میں خود احتسابی کی کوئی سنجیدہ مشق ہو گی؟ بھارت، نفع نقصان پر گہری نظر رکھنے والے کھاتہ داروں کا ملک ہے۔ توقع کی جانی چاہئے کہ فریب اور جھوٹ کی بنیاد پر جنگی جنون بھڑکانے، ماحول میں بارودپاشی کرنے اور اپنی جنتا کے سطحی جذبات کو ہوا دینے کے بعد پاکستان کو ترنوالہ سمجھتے ہوئے رات کی تاریکی میں حملہ آور ہونے کے فوائد اور نقصانات کا ٹھنڈے دل ودماغ سے جائزہ لیا جائے گا اور بہی کھاتہ کھول کر حساب لگایا جائے گا کہ بھارت نے پاکستان خے ساتھ ایک غیر ضروری جنگ کا پنگا لیکر کیا کھویا اور کیا پایا؟

عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ پاکستان سے پانچ گنا زیادہ جنگی بجٹ اور اسی نسبت سے بھاری بھرکم اسلحہ خانہ رکھنے کے باوجود کیا بھارت کسی بھی مقصد کے حصول میں کامیاب رہا؟ کیا انڈیا کو حالیہ جنگ کے دوران کسی بحری، فضائی اور زمینی محاذ پر سبقت ملی؟ کیا بھارت جنگ میں پہل کرنے کے باوجود کوئی ایک بھی ایسا کارنامہ کر سکا جسے وہ تحفے کے طور پر اپنی جنتا کے ’حضور‘ پیش کرسکے؟ اِس کے برعکس اُسے جنگی ہی نہیں، بلکہ سیاسی اور سفارتی محاذ پر بھی ذلت آمیز شکست کا سامنا کرنا پڑا۔

پاکستانی ائیر چیف نے خفیہ کمانڈ سینٹر سے فضائی جنگ کیسے لڑی ؟

عرفان صدیقی کہتے ہیں کہ اگر نریندر مودی نامی شخص، اپنی سفاکانہ سرشت کو ایک طرف رکھ کر، گیان دھیان کے کسی خاص لمحے میں، آسن جما کر کسی بھگوان کی مورتی کے سامنے بیٹھ جائے، ترازو کے ایک پلڑے میں ’’آپریشن سَندور‘‘ اور دوسرے میں ’’بُنیان مرصوص‘‘ رکھ کر، ڈنڈی مارے بغیر، خود تراشیدہ جنگ کے اثرات و نتائج کا بے لاگ جائزہ لے تو اُسے لگی لپٹی رکھے بغیر، اپنی قوم سے خطاب کرتے ہوئے یہ واضح، دوٹوک اور غیرمبہم پیغام دینا چاہئے کہ ’’کچھ بھی کر لینا، لیکن آئندہ کبھی پاکستان سے پنجہ آزمائی کا خواب بھی نہ دیکھنا۔‘‘ مُودی کیلئے ایک لمحۂِ فکریہ یہ بھی ہے کہ وہ اس بے سروپا مہم میں تنہا دکھائی دیا۔ کسی بھی ملک نے اُس کے پہلگام حملے کے جھوٹ پر یقین نہیں کیا اور نہ ہی اس کے جنگی جنون کو سراہا۔ آج جب وہ اپنے گلے میں اپنی ہی بانہیں ڈالے سیاپا کر رہا ہے تو کوئی پُرسا دینے والا بھی نہیں۔ دودری طرف پاکستان کے دوست ڈٹ کر اُس کے ساتھ کھڑے رہے اور تو اور، مُودی کے اپنے دوست ٹرمپ کے دیس سے بھی ٹھنڈی ہوا کا کوئی جھونکا نہیں آیا۔

عرفان صدیقی کے مطابق اس جنگ کا سب سے بڑا واقعہ یہ ہوا کہ جس کشمیر کو مودی نے قصّہ پارینہ سمجھ لیا تھا، اُسے ڈونلڈ ٹرمپ کے ٹویٹ نے حیات نو دے دی ہے۔ ’’کوئی رسوائی سی رسوائی ہے۔‘‘ پاک بحریہ کو اپنا ہُنر آزمانے کا موقع ہی نہ ملا۔ ائیر چیف مارشل ظہیر احمد بابر سدھو نے فضائیہ کی درخشندہ تاریخ میں ایک ایسے نئے تابناک باب کا اضافہ کیا ہے جو برسوں پاکستانیوں کا لہو گرماتا رہیگا۔ آرمی چیف عاصم منیر نے ایمان ویقین کی جس پختگی اور جذبۂِ جہاد کی جس روحانی حرارت کیساتھ دفاعِ وطن کے مقدس مشن کی قیادت کی اور جس درجۂِ کمال کی پیشہ ورانہ مہارت کیساتھ دشمن کو دھول چاٹنے پر مجبور کر دیا، اُسے برسوں یاد رکھا جائے گا۔ دفاعی معرکے کو ’’بنیان مرصوص‘‘ کی قرآنی اصطلاح کا نام بھی سیّد عاصم منیر نے دیا جس نے اپنے معنی ومفہوم کی کامل صداقت کے ساتھ واقعی پوری قوم کو سیسہ پلائی دیوار بنادیا۔

Back to top button