ٹی ٹی پی نے افغان طالبان سے تعلقات برقرار رکھے

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل (یو این ایس سی) کےلیے تیار کردہ ایک رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ کالعدم عسکریت پسند گروپ تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے پاس افغانستان میں سرحد کے قریب 6 ہزار تربیت یافتہ جنگجو موجود ہیں۔ا قوام متحدہ کے ’تجزیاتی معاونت اور پابندیوں‘ کی نگرانی کرنے والی ٹیم کی 28 ویں رپورٹ میں چین کے ساتھ افغانستان کی سرحد کے قریب بیجنگ مخالف سیکڑوں عسکریت پسندوں کی موجودگی کی تصدیق بھی کی ہے۔غیرملکی دہشت گردوں کے بارے میں طالبان کا نقطہ نظر‘ پر مشتمل رپورٹ کے ایک باب میں کہا گیا کہ غیرملکی دہشت گرد کا رحجان داعش اور ٹی ٹی پی کی طرف ہوسکتا ہے۔

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ ’پی ٹی پی پر عائد آپریشنل پابندیوں کی وجہ سے طالبان اور گروپ کے مابین (مہلک) جھڑپیں ہوچکی ہیں۔اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ’بڑھتے ہوئے عدم اعتماد کے باوجود ٹی ٹی پی اور طالبان تعلقات کو بنیادی طور پر پہلے کی طرح ہی چلاتے ہیں۔اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق ٹی ٹی پی پاکستان کی سرحد کے قریب صوبہ ننگرہار کے مشرقی اضلاع میں واقع ہے۔اقوام متحدہ کی ٹیم نے بتایا کہ ’دسمبر 2019 سے اگست 2020 کے عرصہ میں افغانستان میں ٹی ٹی پی اور کچھ الگ گروپوں کے مابین دوبارہ اتحاد ہوا۔

رپورٹ کے مطابق اس میں شہریار محسود گروپ، جماعت الاحرار (جے یو اے)، حزب الاحرار، امجد فاروقی گروپ اور عثمان سیف اللہ گروپ (پہلے لشکر جھنگوی کے نام سے مشہور تھے) شامل تھے اور مبینہ طور پر القاعدہ ان گروپوں کے مابین مصالحت پسندی کا کردار ادا کرتا رہا۔رپورٹ میں کہا گیا کہ علیحدہ ہونے والے گروپوں کی ٹی ٹی پی میں شمولیت سے ان کی طاقت میں اضافہ ہوا ہے، اب مسلح جنگجو کی تعداد محتاط اندازے کے مطابق ڈھائی ہزار سے 6 ہزار ہوسکتی ہے اور اس گروپ کی قیادت جون 2018 سے نور ولی محسود کر رہے ہیں۔اقوام متحدہ کی ٹیم کے مطابق ٹی ٹی پی کے ’پاکستان مخالف مقاصد‘ ہیں لیکن وہ افغان حکومت کی افواج کے خلاف افغانستان کے اندر افغان طالبان کی حمایت کرتے ہیں۔

Related Articles

Back to top button