انسانی پٹھوں سے ڈرون کنٹرول کیا جاسکے گا

اس سے قبل ڈرون کو آنکھوں کے اشارے اور دماغی سگنلز سے کنٹرول کرنے کے کئی تجربات ہوچکے ہیں اور اب تازہ خبر یہ ہے کہ ایم آئی ٹی کے انجینئرز نے ہاتھوں کی جنبش اور پٹھوں کے سگنل سے ڈرون کنٹرول کرنے کا کامیاب مظاہرہ کیا ہے۔
اس تجرباتی سسٹم کو ’کنڈکٹ اے بوٹ‘ کا نام دیا گیا ہے جس میں (برقی سرگرمی نوٹ کرنے والے) الیکٹرومایوگرافی نظام اور حرکت محسوس کرنے والے موشن سینسر استعمال کئے گئے ہیں۔ تجرباتی طور پر انہیں سیدھے ہاتھ کی اوپری مچھلی (بائسیپ) نچلے پٹھے (ٹرائی سیپ) اور نچلے بازو پر لگایا گیا ہے۔ سارے سینسر ایک ساتھ ملکر بازو کی حرکت اور بازو کے سگنل کو پڑھتے رہتے ہیں جس کا ڈیٹا مائیکرو پروسیسر تک جاتا ہے۔
پروسیسر میں مشین لرننگ الگورتھم شامل کیا گیا ہے جو بازو کے سگنل اور مختلف حرکات کو دیکھتے ہوئے ان کو ڈرون کےلیے احکامات میں بدلتا ہے۔ یہ ہدایات وائرلیس کے ذریعے چار پر والے ڈرون تک پہنچتی ہے اور اس کے لحاظ سے عمل کرتا ہے۔

اس کے بعد ڈرون پٹھے کے اشاروں کو بھی سمجھتے ہوئے ازخود ان کی مطابقت میں آجاتا ہے۔ اب اگر بازو کے اوپری حصے کو سخت کردیا جائے تو ڈرون رک جائے گا۔ مٹھی کو زور سے بند کرنے پر ڈرون آگے جاتا ہے۔ مٹھی کو گھڑی وار اور گھڑی کی سمت کے خلاف گھمایا جائے تو وہ دائیں اور بائیں گھومتا ہے۔ اگر مٹھی کو دائیں بائیِں، اوپر اور نیچے گھمایا جائے تو ڈرون بھی دائیں اور بائیں یا اوپر اور نیچے ہوجاتا ہے۔ اس طریقے سے ڈرون نے مجموعی طور پر 1500 اشاروں کو 82 فیصد درستگی سے سمجھا اور عمل کیا۔
اس ٹیکنالوجی میں کسی بھی ڈرون کو آسانی سے استعمال کیا جاسکتا ہے اور ہر نئے شخص کےلیے نظام کو ٹریننگ دینے کی کوئی ضرورت پیش نہیں آسکتی۔ اس طریقے سے بوڑھے اور معذور افراد کےلیے مددگار روبوٹ بنانے کی راہ ہموار ہوگی۔
اس پر کام کرنے والے مرکزی محقق جوزف ڈیل پریٹو کہتے ہیں کہ ڈرون نظام کو مزید مؤثر بنانے پر کام جاری ہے اور جلد ہی اس ٹیکنالوجی سے عام لوگ بھی فائدہ اٹھاسکیں گے۔
اس سے قبل ڈرون کو آنکھوں کے اشارے اور دماغی سگنلز سے کنٹرول کرنے کے کئی تجربات ہوچکے ہیں اور اب تازہ خبر یہ ہے کہ ایم آئی ٹی کے انجینئرز نے ہاتھوں کی جنبش اور پٹھوں کے سگنل سے ڈرون کنٹرول کرنے کا کامیاب مظاہرہ کیا ہے۔
اس تجرباتی سسٹم کو ’کنڈکٹ اے بوٹ‘ کا نام دیا گیا ہے جس میں (برقی سرگرمی نوٹ کرنے والے) الیکٹرومایوگرافی نظام اور حرکت محسوس کرنے والے موشن سینسر استعمال کئے گئے ہیں۔ تجرباتی طور پر انہیں سیدھے ہاتھ کی اوپری مچھلی (بائسیپ) نچلے پٹھے (ٹرائی سیپ) اور نچلے بازو پر لگایا گیا ہے۔ سارے سینسر ایک ساتھ ملکر بازو کی حرکت اور بازو کے سگنل کو پڑھتے رہتے ہیں جس کا ڈیٹا مائیکرو پروسیسر تک جاتا ہے۔
پروسیسر میں مشین لرننگ الگورتھم شامل کیا گیا ہے جو بازو کے سگنل اور مختلف حرکات کو دیکھتے ہوئے ان کو ڈرون کےلیے احکامات میں بدلتا ہے۔ یہ ہدایات وائرلیس کے ذریعے چار پر والے ڈرون تک پہنچتی ہے اور اس کے لحاظ سے عمل کرتا ہے۔
اس کے بعد ڈرون پٹھے کے اشاروں کو بھی سمجھتے ہوئے ازخود ان کی مطابقت میں آجاتا ہے۔ اب اگر بازو کے اوپری حصے کو سخت کردیا جائے تو ڈرون رک جائے گا۔ مٹھی کو زور سے بند کرنے پر ڈرون آگے جاتا ہے۔ مٹھی کو گھڑی وار اور گھڑی کی سمت کے خلاف گھمایا جائے تو وہ دائیں اور بائیں گھومتا ہے۔ اگر مٹھی کو دائیں بائیِں، اوپر اور نیچے گھمایا جائے تو ڈرون بھی دائیں اور بائیں یا اوپر اور نیچے ہوجاتا ہے۔ اس طریقے سے ڈرون نے مجموعی طور پر 1500 اشاروں کو 82 فیصد درستگی سے سمجھا اور عمل کیا۔
اس ٹیکنالوجی میں کسی بھی ڈرون کو آسانی سے استعمال کیا جاسکتا ہے اور ہر نئے شخص کےلیے نظام کو ٹریننگ دینے کی کوئی ضرورت پیش نہیں آسکتی۔ اس طریقے سے بوڑھے اور معذور افراد کےلیے مددگار روبوٹ بنانے کی راہ ہموار ہوگی۔
اس پر کام کرنے والے مرکزی محقق جوزف ڈیل پریٹو کہتے ہیں کہ ڈرون نظام کو مزید مؤثر بنانے پر کام جاری ہے اور جلد ہی اس ٹیکنالوجی سے عام لوگ بھی فائدہ اٹھاسکیں گے۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button