کیا شہباز نے عاصم کو فیلڈ مارشل بنانے کا فیصلہ نواز کے مشورے سے کیا؟

وزیراعظم شہباز شریف نے انکشاف کیا ہے کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر کو فیلڈ مارشل کا رینک عطا کرنے کا فیصلہ انہوں نے اپنے بڑے بھائی نواز شریف کی مشاورت سے کیا کیونکہ وہ کوئی بھی فیصلہ ان کے مشورے کے بغیر نہیں کرتے۔
روزنامہ جنگ کے لیے اپنی تازہ تحریر میں سہیل وڑائچ وزیراعظم شہباز شریف سے حالیہ ملاقات کا احوال بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ وزیر اعظم نے پاک بھارت جنگ بارے تفصیلی گفتگو کی۔ انہوں نے بتایا کہ بھارت نے پہلے روز مریدکے اور بہاولپور پر میزائل حملوں کے بعد پاکستان کو فوری جنگ بندی کی پیشکش کی تھی، لیکن جب پاکستان نے انکار کرتے ہوئے جواب میں بھارتی رافیل طیارے گرا دیے تو سیز فائر پر اور زیادہ اصرار کیا جانے لگا، اس دوران امریکی وزیر خارجہ روبیو، پاکستان اور بھارت دونوں اطراف بات کر رہے تھے، لیکن آرمی چیف اور حکومت دونوں متفق تھے کہ بھارتی حملے کا منہ توڑ جواب دیئے بغیر سیز فائر دیرپا نہیں ہو گا۔ چنانچہ شہباز شریف نے بتایا کہ ہم نے بھارت کو منہ توڑ جواب دیا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ پاکستان نے بھارتی حملوں کا جواب دینے کے لیے صرف ڈیڑھ دن تیاری کی۔ پھر رات تین بجے جنرل عاصم منیر نے مجھے فون کر کے بتایا کہ ہم حملے کیلئے تیار ہیں، چنانچہ باہمی مشورے سے بھرپور حملے کر کے بھارت کو تاریخی سبق سکھا دیا گیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ انڈیا میں اپنے حملوں کے ہدف پورا کرنے کے بعد ہی پاکستان سیز فائر پر تیار ہوا۔ انہوں نے فاتحانہ طور پر بتایا کہ قیام پاکستان کے بعد بھارت سے جتنی بھی جنگیں ہوئیں ان میں ہمیں واضح برتری پہلی بار حاصل ہوئی ہے جسے پوری دنیا نے تسلیم کیا ہے۔ بریفنگ کے دوران ایک گستاخ صحافی نے شہباز شریف سے پوچھ لیا کہ کیا بڑے میاں صاحب بھی ان سب فیصلوں میں شریک تھے؟ یہ بھی پوچھا گیا کہ ماضی میں بڑے میاں صاحب کے فوج سے مراسم اچھے نہیں رہے تو کیا جنرل عاصم منیر کو فیلڈ مارشل بنانے کے بارے میں بھی ان سے مشورہ ہو تھاا؟ وزیر اعظم نے مسکراتے ہوئے فوری کہا کہ میں اپنے لیڈر میاں نواز شریف سے پوچھے بغیر کوئی فیصلہ نہیں کرتا۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ 1947ء سے اب تک پاکستان اور بھارت کی جتنی بھی چھوٹی بڑی جنگیں ہوئیں وہ نتیجہ خیز نہیں تھیں۔ بھارت دعویٰ کرتا کہ وہ جیت گیا ہے جبکہ پاکستان کا دعویٰ ہوتا کہ ہم فاتح ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ ان جنگوں کے دھندلے نتائج میں کوئی واضح فاتح نہیں ابھر سکا تھا، ہمارے کئی ریٹائرڈ جرنیلوں نے تو یہ تک لکھ دیا کہ انڈیا کے ساتھ جنگ میں ہر مرتبہ پاکستان کو ہی شکست ہوئی۔
تاہم اس مرتبہ بین الاقوامی منظر نامے پر بھی یہ واضح ہے کہ اس جنگ میں پاکستان فتح یاب ٹھہرا اور جارحیت کرنے والے بھارت کو شکست کا سامنا کرنا پڑا، جب پاک بھارت فضائی جنگ میں 0-6 کا حوالہ دیا جاتا ہے تو یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ ہماری فضائیہ نے بھارت کے 6 جنگی طیارے مار گرائے جن میں تین فرانسیسی ساختہ مہنگے اور جدید ترین رافیل جہاز بھی شامل تھے، جبکہ دوسری طرف پاکستان ایئر فورس کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔
سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ جنگ میں فتح کے بعد ثمرات سمیٹنے کیلئے ہر کوئی فتح کا باپ بن جاتا ہے، یہ بڑا ہی خطرناک لمحہ ہوتا ہے۔ پاکستان کے سول ملٹری تعلقات کی تاریخ بڑی تلخ ہے۔ جنرل مشرف کا لیا ہوا کارگل جنگ کا پنگا جب پاکستان کے گلے پڑا تو وزیراعظم نواز شریف نے امریکی صدر کلنٹن کے ذریعے جنگ بندی تو کروا دی لیکن اسکے بعد مشرف نے نواز شریف حکومت ختم کر دی، اس سے پہلے ضیا نے جنیوا معاہدے میں نئی افغان حکومت کی تشکیل پر اختلاف کی وجہ سے وزیر اعظم محمد خان جونیجو کو گھر بھیج دیا تھا۔ لیکن حالیہ جنگ میں وزیر اعظم شہباز شریف نے اپنی روایتی لچک پسندی اور کشادہ دلی سے معاملات کو نہایت فہم و فراست کے ساتھ نمٹایا۔
سینئر صحافی کا کہنا ہے کہ وزیر اعظم نے بلبل بن کر نہ صرف فوج کی بہادری کے ترانے گائے بلکہ انڈیا کو شکست سے دوچار کرنے والے اصل ہیرو جنرل عاصم منیر کو فیلڈ مارشل کے اعلی ترین رینک سے بھی نواز دیا۔ کچھ روز پہلے وزیر اعظم نے چند صحافیوں کو جنگ کی تفصیلات پر اعتماد میں لیا۔ وہ بتاتے ہیں کہ اس بریفنگ کے دوران جب انہوں نے شہباز شریف سے سوال کیا کہ فیلڈ مارشل بنانے کی تجویز کیا کہیں سے آئی تھی یا آپ نے خود یہ فیصلہ کیا تھا۔ وزیر اعظم نے جواباً دو تین بار زور دیکر کہا یہ میری تجویز تھی، میں نے صدر کو اعتماد میں لیکر فیصلہ کیا جسے آرمی چیف نے قبول کر لیا۔ سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ماضی میں حکمرانوں کا رویہ چیلوں والا ہوتا تھا جنہیں پھولوں کی ذرہ برابر قدر نہیں تھی، لیکن شہباز شریف چونکہ بلبل ہونے کی وجہ سے صاف دماغ رکھتے ہیں اس لئے انہیں نہ صرف پھولوں کی قدر ہے بلکہ وہ انکی پیار محبت سے دیکھ بھال کرنا بھی جانتے ہیں۔
سینیئر صحافی کہتے ہیں کہ اقتدار کے ایوان شیشے کے گھر ہوتے ہیں اس لئے ان میں مقیم لوگ گستاخ اور سرکش گھوڑے نہیں ہو سکتے۔ وہ سدھائے ہوئے اور آزمودہ ہوتے ہیں۔ شیشے کے گھر میں کوئی سرکش مکین آ جائے تو حسن ترتیب ٹوٹ جاتا ہے۔ اسی پیرائے میں جب بریفنگ کے دوران شہباز شریف سے سوال کیا گیا کہ سول ملٹری تعلقات میں اونچ نیچ سے کئی سیاسی حکومتیں وقت سے پہلے گھر چلی گئیں لہذا آپ کے تعلقات کی نوعیت کیا ہے۔ اس پر وزیر اعظم نے بڑے اعتماد سے کہا کہ ہمارے تعلقات بہترین ہیں، لیکن پھر سوچتے ہوئے کہا کہ حکومت ختم ہونے کی تو کوئی پیشن گوئی نہیں کی جاسکتی، وہ تو کل بھی ختم ہو سکتی ہے اور اپنی مدت پوری بھی کر سکتی ہے۔
پاکستان نے امریکیوں کو لوٹنے والا ہیکنگ نیٹ ورک کیسے گرفتار کیا؟
وزیراعظم کی بریفنگ کے دوران کچھ صحافیوں نے سوال پوچھا کہ بانی پی ٹی آئی سے مذاکرات کیوں نہیں ہو رہے؟ کسی نے تجویز بھرا سوال کیا کہ باہر بھیجے جانے والے وفود میں اپوزیشن ہوتی تو کیا اچھا نہ ہوتا؟ اس پر وزیر اعظم نے کہا کہ میں تو اپوزیشن کو کئی بار مذاکرات کی دعوت دے چکا ہوں لیکن دوسری طرف سے جواب نہیں آیا۔ بیرونی وفود کے بارے میں کہا کہ یہ بھارت کی طرح کے پارلیمانی وفود نہیں ہیں، یہ حکومتی وفود ہیں جن میں حکومت کے نامزد کردہ سفارتکار اور لیڈر شامل کئے گئے ہیں۔