حکومت کو PTI سے مذاکرات میں کہیں لینے کے دینے نہ پڑ جائیں؟
سینیئر صحافی اور تجزیہ کار سہیل وڑائچ نے کہا ہے کہ نون لیگ اور پی ٹی آئی کی آپسی لڑائی میں ایک دوسرے کو جو زخم لگے تھے وہ ابھی تک مندمل نہیں ہوئے، جب تک ان زخموں پر پھاہا نہیں رکھا جاتا اور جب تک ان جماعتوں کی قیادت ایک دوسرے سے معافی نہیں مانگتی، دونوں کے مابین شروع ہونے والے مذاکرات کا کوئی نتیجہ نکلنا ممکن نہیں۔
اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی نے اپنے اپنے دور اقتدار میں ایک دوسرے کے ساتھ جو زیادتیاں کی ہیں ان کا ازالہ اسی طرح ممکن ہے کہ قیادت ایک دوسرے سے معافی مانگ لے اور صلح صفائی کر لے۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسا مذاکرات کے آغاز ہی میں ہو جائے تو زیادہ بہتر ہے ورنہ حکومت اور پی ٹی آئی کے مابین ہونے والے مذاکرات نتیجہ خیز ثابت نہیں ہو سکتے۔ ویسے بھی اب نون لیگ اقتدار میں ہے اور عمران خان کی احتجاجی سیاست ناکامی کا شکار ہو چکی ہے، اس لیے اگر پی ٹی آئی کی قیادت معافی مانگنے میں پہل کر لے تو زیادہ بہتر ہو گا۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ فی الحال فوجی قیادت وزیر اعظم شہباز شریف کی دن رات محنت اور مشکل ترین حالات میں کام کرنے پر ان کو سراہ رہی ہے اور انہیں یہ اعتماد دیا جا رہا ہے کہ معاشی حالات بہتر ہونے کے بعد آپ ملکی سیاست میں بھی بہتری لا سکتے ہیں، سینیر صحافی کا کہنا ہے کہ حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ فوج کی طرف سے فی الحال عمران خان کو کوئی رعایت ملنے کا امکان نہیں، اگر انہیں کوئی رعایت ملی بھی تو مکمل خاموشی اپنانے اور موجودہ نظام کو تسلیم کرنے کی سخت شرائط قبول کرنے پر ہی ملے گی۔ فی الحال تو اسٹیبلشمنٹ کا یہ موقف ہے کہ اگر عمران خان نے مذاکرات کرنے ہیں تو موجودہ حکومت کے ساتھ کرے چونکہ فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں۔ دوسری جانب حکومت مذاکرات پر تو امادہ ہو چکی ہے لیکن ساتھ میں یہ بھی واضح کر چکی ہے کہ ان مذاکرات کے نتیجے میں عمران خان کو کسی این آر او کی امید نہیں رکھنی چاہیے۔ ویسے بھی عمران کی جانب سے مذاکرات کی اجازت تب دی گئی جب آئی ایس آئی کے سابق سربراہ فیض حمید کے خلاف کورٹ مارشل کی چارج شیٹ کا اعلان ہوا اور یہ افواہ گرم ہوئی کہ 9 مئی کے اگلے ملزمان میں عمران خان کا نام بھی شامل ہونے والا ہے۔
سہیل وڑائچ لاہور میں بتاتے ہیں کہ 8 فروری کے الیکشن کے بعد پہلی بار ایک ہوٹل میں ایک بڑی سیاسی تقریب ہوئی۔ یہ موقع خواجہ سعد رفیق اور سلمان رفیق کے والد خواجہ رفیق کی سالانہ برسی کا تھا۔ مگر یہ ایک سیاسی میلہ بن گیا جس میں مذاکرات کے حوالے سے نونی موقف کھل کر سامنے آیا۔ میرے بشمول مجیب الرحمٰن شامی صاحب، رانا ثنا اللہ اور ایاز صادق، سب نے مصالحت، مفاہمت اور مستقبل کے امکانات پر بات کی، لیکن سب سے دلچسپ اور دلپذیر تقریر وزیر دفاع خواجہ آصف کی تھی۔ انہوں نے رومن مقرر سیسرو کی طرح ڈرامائی انداز میں نون لیگ کا اندرونی موقف بیان کیا۔ وہ بار بار سامعین سے سوال کرتے رہے کہ 26 نومبر تک تو تحریک انصاف انقلاب لانا چاہتی تھی اور ہم سے بات تک نہیں کرنا چاہتی تھی، لہازا اب یکا یک وہ مذاکرات پر کیوں تیار ہو گئی۔ ایک ماہر مقرر کی طرح وہ سامعین سے بار بار سوال پوچھتے رہے کہ پندرہ دن میں کیا ہوا ہے؟
اس پر سامعین میں سے ایک نے جواب میں کہا ڈنڈا۔ تو خواجہ صاحب نے فوراً فی البدیہہ جواب دیا کہ میں یہ نہیں سمجھتا، یہ آپ کی رائے ہے۔ بار بارسوال دہرانے کے باوجود خواجہ آصف نے خود بھی سامعین کو یہ نہیں بتایا کہ پندرہ دن میں آخر ایسا کیا ہوا ہے کہ تحریک انصاف کی قیادت نے چوری کی حکومت سے مذاکرات نہ کرنے کی پالیسی سے یوٹرن لیتے ہوئے چوروں اور ڈاکوں کی حکومت کے ساتھ مذاکرات شروع کر دیے ہیں۔ تاہم اپنی تقریر کے آخر میں خواجہ محمد آصف نے یہ انکشاف کرکے اپنی سوچ واضح کردی کہ نہ مجھ سے مذاکرات پر مشورہ کیا گیا ہے اور نہ مجھے مذاکراتی کمیٹی میں شامل کیا گیا ہے۔ پھر ابہوں نے مسکراتے ہوئے کہا، حکومت کو دھیان کرنا چاہیے کیونکہ ان مذاکرات میں کوئی چال ضرور ہے، لہذا میرا مشورہ یہ ہوگا کہ محتاط رہنا اور پی ٹی آئی کی چال میں نہ آنا۔ یہ نہ ہو کہ لینے کے دینے پڑ جائیں۔
پی ٹی آئی کی سیاسی بقا کیلئے عمران خان کی زبان بندی ضروری کیوں؟
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ خواجہ آصف کی تقریر سے واضح ہوگیا کہ ’’نون لیگ‘‘ بہت محتاط ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ تحریک انصاف کے مذاکرات ایک بہانہ ہیں، اصل میں اب وہ سازش کر کے حکومت کی جگہ لینا چاہتی ہے۔ پی ٹی آئی مذاکرات اس لئے کر رہی ہے کہ بیرونی دنیا کے سامنے خود کو ایک سیاسی پارٹی ثابت کرسکے اور یہ تاثر دے کہ ہم دبائو اور تشدد کے باوجود مذاکرات پر آمادہ ہیں۔ دوسری طرف نون میں یہ تاثر ہے کہ پی ٹی آئی کے سربراہ کو فوجی عدالت سے 9 مئی اور 26 نومبر کے واقعات کی سزا ملنا ضروری ہے۔خواجہ سعد رفیق اور رانا ثنا اللہ کی رائے یہ تھی کہ اگر سنجیدہ مذاکرات کرنے ہیں تو نواز شریف، زرداری، فضل الرحمٰن اور عمران خان کے ہونے چاہئیں اور فوج اور عدلیہ کو بھی ان مذاکرات کا حصہ ہونا چاہئے۔