نوازشریف اسٹیبلشمنٹ کے قریب اور عمران دور کیسے ہوئے؟

سابق وزیراعظم نواز شریف اور عمران خان پاکستانی سیاسی تاریخ کے وہ کردار ہیں جن کی سیاسی مخاصمت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ان دونوں کو سیاسی عروج دلوانے اور وزارت عظمیٰ تک پہنچانے کا کریڈٹ طاقت ور فوجی اسٹیبلشمنٹ کو دیا جاتا ہے۔ 2018 کے الیکشن کے بعد نواز لیگ نے اسٹیبلشمنٹ پر دھاندلی کے ذریعے عمران کو اقتدار میں لانے کا الزام عائد کیا تھا جبکہ اب تحریک انصاف والے نواز لیگ پر فوجی اسٹیبلشمنٹ سے مل کر عمران کو اقتدار سے نکالنے کا الزام عائد کر رہے ہیں۔

چنانچہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ عمران خان اور نواز شریف پاکستانی سیاست کے دو ایسے سیاسی کردار ہیں جن کے درمیان بدترین سیاسی رقابت بھی ان دونوں کے سیاسی کیریئر میں پائی جانے والی مماثلت کو دھندلا نہیں سکی۔

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق سیاسی بلندی کی انتہاؤں کو چھونے والی ان دونوں شخصیات کی سیاست کا آغاز پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے مرہون منت قرار دیا جاتا ہے۔ 2014 میں اپنے سیاسی حریف نوازشریف کے خلاف احتجاجی تحریک سے کچھ عرصہ پہلے تک اعلیٰ عدلیہ اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے بارے میں یہ عمومی تاثر پایا جاتا تھا کہ ان میں عمران کے لیے نرم گوشہ پایا جاتا ہے۔ ملک کے بعض سیاسی پنڈت تو یہاں تک کہتے ہیں کہ گذشتہ چند سال کے دوران عدالتی فیصلے اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کی پالیسیاں عمران کی حامی و مدد گار رہیں تاکہ وہ اپنے سیاسی اہداف کو حاصل کرنے میں آگے بڑھ سکیں۔ تاہم جب عمران نے اپنے محسنوں کو آنکھیں دکھانے کے بعد تحریک عدم اعتماد کو غیر ملکی سازش قرار دینے کی کوشش کی تو فوجی اسٹیبلشمنٹ پیچھے ہٹ گئی۔

حکومت کی تبدیلی کے لیے مبینہ غیر ملکی سازش کے بارے میں ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کے بعد سے عمران کے ستارے ڈرامائی انداز میں گردش میں آئے۔ سینئر فوجی حکام نے اپنے ادارے کو عمران خان کی طرف سے اپوزیشن کے خلاف چلائی جانے والی شدید نفرت پر مبنی مہم سے دور رکھا اور سپریم کورٹ نے بھی عمران کے اس بیانیے کو پذیرائی نہیں بخشی۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے خیال میں عمران کی وزارت عظمیٰ سے چھٹی کے عمل کا آغاز اکتوبر 2021 میں آئی ایس آئی چیف کی تبدیلی کے معاملے پر آرمی چیف سے پیدا ہونے والے اختلاف سے ہی شروع ہو گیا تھا۔

اسٹیبلشمنٹ کے کندھوں پر سوار ہو کر اقتدار میں آنے والے کپتان آئی ایس آئی کی مدد سے سیاسی نظام پر غلبہ پانے کے بعد ضرورت سے زیادہ ہی جارحیت پر اتر آئے اور ٹوئنٹی ٹوئنٹی کرکٹ میچ کی طرز پر جارحانہ انداز میں کھیلتے ہوئے سیاسی توازن ہی بگاڑنا شروع کر دیا۔ یوں فوج کا بنایا ہوا ہائبرڈ نظام بھی تلپٹ ہو گیا اور اور عمران کی جگہ شہباز شریف نئے وزیراعظم بن گئے۔

سابق وزیراعظم نواز شریف اور سابق وزیراعظم عمران خان کے درمیان مماثلتوں کا جائزہ یہ بھی بتاتا ہے کہ دونوں کا پنجابی مڈل کلاس پر مشتمل وسطی پنجاب میں ووٹ بینک ہے۔

یہ ووٹ ہی ان دونوں کو اقتدار میں لانے کا بنیادی عامل ہے۔ دونوں میں یہ بھی قدر مشترک ہے کہ ان کو لانے والے سرپرستوں اور مربیوں نے ہی ان کو داخل دفتر بھی کیا اور دونوں ہی کے اقتدار کے خاتمے سے قبل انہی طاقتوں سے کشمکش بھی دکھائی دی۔ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق نواز شریف کا سیاسی سفر بہت سارے نشیب و فراز کا مرکب ہے جس میں وزیر اعظم ہائوس سے جدہ جلا وطنی سے پہلے پاکستان اور پھر وزیر اعظم ہائوس واپسی بھی شامل ہے۔ اسکے بعد ایک بار پھر جیل یاترا، مالی کرپشن کے مقدمے میں سزا اور دوبارہ جلاوطنی تک کے مراحل بھی آئے۔

نوازشریف کے سیاسی سفر میں ایک مستقل پہلو فوج کے ساتھ ان کے تعلقات ہیں جو قربت اور رقابت کی انتہائوں کو چھوتے رہے۔ پاکستان میں سول ملٹری تعلقات سے متعلق بہت سارے تاریخ دانوں کا کہنا ہے کہ نوازشریف نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز فوج کی حمایت سے کیا لیکن بعد میں ان کا انداز سیاست ایک خود مختار سیاستدان کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔
نوازشریف تین بار پاکستان کے وزیراعظم منتخب ہوئے۔

ان کا سیاسی سفر طاقتور فوج اور انٹیلی جنس کے نظام کی سرپرستی میں 1980 میں شروع ہوا تھا جب وہ اس فوجی نظام کے منظور نظر کے طور پر عوام کے سامنے لائے گئے۔ ان کی سیاسی زندگی میں آنے والے غیر معمولی پیچ و خم کے سبب وہ ایک مقبول عام سیاسی رہنما کے طور پر ابھرتے گئے جنہوں نے ملک میں حقیقی جمہوریت کے قیام کا مطالبہ شروع کیا اور اصرار کرنا شروع کیا کہ ہر قسم کی بیرونی مداخلت سے پاک سیاسی نظام وجود میں آئے۔

12 اکتوبر 1999 کی فوجی بغاوت اور اس کے نتیجے میں فوجی قانونی کارروائی کے سامنے اور جنرل مشرف کی طرف سے اپنی حکومت کا سالہ تختہ الٹائے جانے سے کہیں پہلے سے نوازشریف کی پاکستانی فوج اور فوج کے حمایت یافتہ صدور سے ایک سے زیادہ مواقع پر مڈ بھیڑ اور چپقلش ہو چکی تھی۔

ہر مرتبہ نہ صرف یہ کہ وہ بالآخر بچ گئے بلکہ ان کی سیاسی قوت میں مزید اضافہ ہوا۔ سیاسی قوت میں اس اضافے کی وجہ ان کا فوجی اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ بن گیا۔ سیاسی تبصرہ نگاروں کا کہنا ہے کہ 1993 سے نوازشریف کا حقیقی سیاسی اور مقبول عام رہنما کا تشخص بننا شروع ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب انھوں نے فوج کے حمایت یافتہ صدر غلام اسحاق خان کو بطور وزیر اعظم چیلنج کیا اور آئین میں ترمیم کے ذریعے صدر کے اختیارات کو کم کرنے کی کوشش کی۔

جوابی ردعمل میں صدر غلام اسحاق خان نے نوازشریف کی حکومت ختم کر دی اور اسمبلیاں تحلیل کر دیں لیکن اس کے نتیجے میں نواز شریف کی سیاسی قوت میں اضافہ ہو گیا۔ انھوں نے ایک طاقتور صدر کے سامنے سرکشی کی تھی جو اس وقت پاکستانی سیاست میں ایک اجنبی سی بات تھی۔

یہ بھی نوازشریف اور عمران خان کی سیاست میں ایک اور قدر مشترک ہے کہ سنہ 1980 اور 1990 کے اوائل میں جب وہ فوج اور خفیہ اداروں کے زیرِسایہ سیاست کر رہے تھے تو ان کے سیاسی بیانیے کی بنیاد بے نظیر بھٹو کو پاکستان کے قومی مفادات کے خلاف کام کرنے کے الزامات کے تحت نشانہ بنانے پر تھی۔ کئی مواقع پر انھوں نے یہاں تک الزام لگایا کہ بے نظیر بھٹو انڈیا کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف کام کر رہی ہیں۔

عمران نے بھی یہی حربہ 2018 میں نوازشریف کے خلاف استعمال کیا۔ سال 2018 کے انتخابات میں اپنی انتخابی مہم کے دوران انھوں نے یہ کارڈ خوب کھیلا۔ جب سپریم کورٹ نے نوازشریف کو اقتدار سے نکال باہر کرنے کا فیصلہ دیا اور وہ سزا یافتہ قرار دے دیئےگئے تو مشکوک لنکس والے سوشل میڈیا کے سرگرم افراد نے انھیں ملکی مفادات کے خلاف کام کرنے والے شخص کے طور پر پیش کرنا شروع کیا اور ان پر اِن الزامات کی بھرمار کر دی گئی کہ وہ ’را‘ کی ایما پر قومی مفادات کے خلاف سرگرم عمل ہیں۔

نوازشریف کے برعکس عمران خان کا ابھرنا بتدریج نہیں تھا۔ پاکستانی ذرائع ابلاغ میں خبروں کی بھرمار رہی کہ طاقتور خفیہ ادارے آئی ایس آئی کے لیفٹیننٹ جنرل احمد شجاع پاشا نے عمران خان کو سیاسی گوشہ نشینی سے نکالا اور 2011 میں مینار پاکستان لاہور میں خفیہ اداروں کی فعال مدد اور تعاون سے پہلا بھرپور اور کامیاب سیاسی شو کیا۔ سال 2013 کے انتخابات میں جس شخص کی چند نشتیں تھیں وہ 2018 کے انتخابات میں اے ٹی ایس سسٹم بیٹھنے کے نتیجے میں سب سے زیادہ یعنی 154 سیٹیں جیت گیا۔

اس طرح عمران وزیراعظم بن گئے۔ یاد رہے کہ 1990 میں جس طرح آئی جے آئی کے ذریعے نوازشریف کو اقتدار میں لایا گیا، اسی طرح لیفٹیننٹ جنرل (ر) احمد شجاع پاشا نے 2013 کے انتخابات سے پہلے پنجاب کے ان سیاستدانوں کو تحریک انصاف میں شامل کرایا جو اپنے حلقے کو جیتنے کی روایتی شہرت اور صلاحیت رکھتے تھے۔

البتہ نواز اور عمران کے سیاسی سفر میں ایک بڑا فرق یہ ہے کہ نوازشریف نے فوجی ہائی کمان کے غیض وغضب کا سامنا ایک سے زیادہ مرتبہ کیا۔ اس کی غالباً ایک وجہ نوازشریف اور فوج کی اعلیٰ کمان کے درمیان براہ راست مخاصمت ہو۔ نواز کا اپنے پہلے دور حکومت میں آرمی چیف جنرل آصف نواز جنجوعہ سے ٹاکرا ہوا۔ بعد میں 1999 میں اپنے دوسرے دور حکومت میں ان کا جنرل پرویز مشرف سے ٹکراؤ ہوگیا۔

لیکن عمران نے اب تک بڑی ہوشیاری کے ساتھ فوج کے ساتھ براہ راست عوامی سطح پر ٹکرانے سے گریز کیا ہے۔ اگرچہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کو ڈی جی آئی ایس آئی کے طور پر تعینات کرنے میں انھوں نے پس و پیش کی جس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے تنازع کو ذرائع ابلاغ میں خوب اچھالا گیا۔

لیکن اسے ستم ظریفی کہیں یا کچھ اور، لیکن اب مقدر عمران کو مجبور کر رہا ہے کہ وہ پھر سے احتجاج کا راستہ اختیار کریں یا پھر واپس جا کر اپوزیشن بینچوں پر بیٹھ جائیں اور 2023 کے الیکشن کا انتظار کریں۔ لیکن اس دوران یہ امکان بھی موجود ہے کہ نئی حکومت آرٹیکل 6 کے تحت عمران اور ان کے ساتھیوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کر دے۔ ان کے لیے ایک اور بڑا مسئلہ تحریک انصاف کا فارن فنڈنگ کیس بھی کھڑا کر سکتا ہے جس میں الیکشن کمیشن کے فیصلے کا انتظار ہے۔

How did Nawaz get close to Establishment and Imran era? video

Related Articles

Back to top button