نواز شریف کے ماسٹر سٹروک نے کسی ڈیل کا تاثر ختم کر دیا


مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کی جانب سے دو برس کی طویل خاموشی کے بعد 20 ستمبر کے روز اپوزیشن کی آل پارٹیز میں کی جانے والی سخت ترین تقریر کو ایک ماسٹر سٹروک قرار دیا جا رہا ہے جس سے انکی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ کسی بھی قسم کی ڈیل کا تاثر زائل ہوگیا ہے۔ نوازشریف نے اپنی تقریر میں انتہائی سخت اور سچی باتیں کرتے ہوئے ملکی اسٹیبلشمنٹ کی سیاست میں بار بار کی مداخلت کو پاکستان کے مسائل کی بنیادی جڑ قرار دیا۔ انہوں نے کپتان حکومت کو کٹھ پتلی اور نااہل قرار دیا اور کہا کہ انکا مقابلہ عمران خان سے نہیں بلکہ ان کو لانے والوں سے ہے، یعنی میاں صاحب کا اشارہ موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی جانب تھا جن پر عمران خان کی جماعت کو 2018 کے الیکشن میں دھاندلی سے جتوانے اور وزیر اعظم بنوانے کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔تاہم بنیادی سوال یہ ہے کہ اس دھواں دار تقریر کے بعد نواز شریف کا اگلا لائحہ عمل کیا ہوتا ہے؟
میاں صاحب کے اپنے بقول پوری پاکستانی قوم اس وقت اپوزیشن جماعتوں کی طرف دیکھ رہی ہے اور وقت آ چکا ہے کہ کسی مصلحت کے بغیر آگے بڑھ کر پاکستان کی اگلی نسل کی بہتری کی خاطر ملک کو بچانے کی جنگ لڑی جائے۔ لیکن میاں صاحب کو خود بھی یہ بات سمجھنا ہو گی کہ اس جنگ میں مرکزی کردار ان کی اپنی جماعت اور انکا اپنا ہے کیونکہ عمران خان کی تحریک انصاف اور ملک کی طاقتور اسٹیبلشمنٹ بھی نواز لیگ کی طرح پنجاب سے تعلق رکھتی ہے اور ملک میں ہمیشہ سیاسی تبدیلی کی تحریک پنجاب سے ہی چل کر کامیاب ہوئی ہے۔ لہذا نواز شریف نے 20 ستمبر کے روز پاکستان میں حکومت اور نظام کی تبدیلی کی جس جنگ کے آغاز کا اعلان کیا ہے اسکو لڑنے کی ذمہ داری بھی سب سے ذیادہ میاں صاحب کے اپنے کندھوں پر آ پڑتی ہے۔ چنانچہ ضروری ہے کہ یا تو میاں صاحب خود وطن واپس آ کر یا ان کی صاحبزادی مریم نواز باہر نکلیں اور اس جنگ کو عملی طور پر لڑنے کا آغاز کریں۔ بنیادی وجہ یہ ہے کہ نواز شریف کی دھواں دار تقریر نے حکومت کے ستائے ہوئے عوام میں ایک نئی اُمید اور ولولہ پیدا کیا ہے جس کو برقرار رکھنا ضروری ہے۔
نواز شریف نے حزب مخالف کی آل پارٹیز کانفرنس سے اپنی تقریر میں حکمراں جماعت تحریک انصاف اور’انھیں لانے والوں‘ کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ان کی تقریر سے قبل حکومتی نمائندوں کا موقف تھا کہ چونکہ سابق وزیراعظم ملک میں بدعنوانی کے کئی مقدمات میں مطلوب ہیں اور علاج کی غرض سے برطانیہ موجود ہیں اس لیے مقامی ذرائع ابلاغ کی جانب سے ان کی تقریر نشر کرنا غیر قانونی ہو گا۔ تاہم کئی چینلز اور سوشل میڈیا پر ان کی تقریر لائیو سٹریم کی گئی۔ پاکستان میں ماضی میں بھی الطاف حسین سمیت کئی سیاسی رہنماؤں کی تقاریر نشر کرنے پر پابندی لگائی جا چکی ہے اور مریم نواز شریف کے جلسوں اور انٹرویوز کو بھی میڈیا پر نشر کرنے سے روکا جاتا رہا ہے۔ تاہم یہ جانتے ہوئے کہ اگر نواز شریف کی تقریر کو میں سٹریم میڈیا پر روک بھی دیا گیا تو وہ سوشل میڈیا پر تو نشر ہو ہی جائے گی، حکومت نے اسکو نشر ہونے سے روکنے کی کوئی عملی کوشش نہیں کی۔ لیکن عوام کو اس وقت حیرانگی ضرور ہوئی جب آل پارٹیز کانفرنس کے اگلے روز 21 ستمبر کو پاکستان کے سب سے بڑے اردو اخبار روزنامہ جنگ میں نواز شریف کی تقریر کا بلیک آؤٹ کیا گیا جس کی بنیادی وجہ حکومتی دباؤ بتایا گیا۔
نواز شریف نے اے پی سی کے دوران اپنے طویل خطاب میں کہا کہ ’عمران خان ہمارا ہدف نہیں ہے۔ ہمارا مقابلہ عمران خان سے نہیں ہے۔ ہماری جدوجہد عمران خان کو لانے والوں کے خلاف ہے اور ان کے خلاف ہے جنھوں نے نااہل بندے کو لا کر بٹھایا ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ‘ملک میں ریاست کے اندر ریاست ہونے کی بات تو پرانی ہو چکی ہے۔ اب تو حالات اتنے ابتر ہیں کہ معاملہ ریاست سے بالاتر ریاست تک پہنچ گیا ہے۔ ملک میں جمہوریت کمزور ہو گئی ہے اور عوام کی حمایت سے کوئی جمہوری حکومت بن جائے تو سب جانتے ہیں کہ کیسے اسکے خلاف سازش ہوتی ہے اور قومی سلامتی کے خلاف اقدامات کی نشان دہی کرنے پر انھیں ریاستی اداروں کی طرف سے غدار قرار دے دیا جاتا ہے۔ نواز سریف نے کہا کہ آئین کے مطابق جمہوری نظام کی بنیاد عوام کی رائے ہے، جب ووٹ کی عزت کو پامال کیا جاتا ہے تو جمہوری عمل بے معنی ہو جاتا ہے، انتخابی عمل سے قبل یہ طے کر لیا جاتا ہے کہ کس کو ہرانا کس کو جتانا ہے، کس کس طرح سے عوام کو دھوکا دیا جاتا ہے، مینڈیٹ چوری کیا جاتا ہے۔‘ نواز شریف کا کہنا تھا کہ: ’وقت آگیا ہے کہ ان سوالوں کے جواب لیے جائیں۔ اس کانفرنس میں دو سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی اور راجہ پرویز اشرف موجود ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ سول حکومت کے گرد کس طرح کی رکاوٹیں قائم کی جاتی ہیں۔ ایسی کارروائیاں ہوتی ہیں جن کا وزیر اعظم یا صدر کو علم نہیں ہوتا۔ اور ان کارروائیوں کی بھاری قیمت ریاست کو ادا کرنی ہوتی ہے۔
سابق وزیراعظم نے ڈان لیکس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ اکتوبر 2016 میں قومی سلامتی کے امور پر بحث کے دوران میری حکومت کی جانب سے توجہ دلائی گئی کہ دوستوں سمیت دنیا کو ہم سے شکایت ہے اور ہمیں ایسے اقدامات کرنے ہوں گے کہ دنیا ہم پر انگلی نہ اٹھائے۔ لیکن اسے ڈان لیکس کا نام دے دیا گیا اور ایجنسیوں کے اہلکاروں کی جے آئی ٹی بنی جسکے بعد مجھے غدار اور ملک دشمن بنا دیا گیا۔ سابق وزیراعظم نے آئی ایس پی آر ترجمان کی طرف بالواسطہ اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ حد تو یہ ہے کہ ایک ٹویٹ میں تب کے وزیراعظم کو ‘مسترد’ کا ٹائٹل دے دیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ سی پیک کو ناکام بنانے کا سلسلہ اس وقت شروع ہوا جب چینی صدر کا دورہ عمران کے دھرنے کے ذریعے منسوخ کروایا گیا۔ چین ہمارا دوست ہے۔ صدر شی جن پنگ کا کردار باعث تعریف ہے۔ لیکن یہ منصوبہ نااہلی کا شکار ہو رہا ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ سی پیک کے ساتھ پشاور بی آر ٹی جیسا سلوک ہو رہا ہے۔ کبھی بسوں میں آگ تو کبھی بارش اسکا پول کھول دیتی ہے۔
نواز نے تسلیم کیا کہ ’آمر کے بنائے ادارے نیب کو برقرار رکھنا ہماری غلطی تھی۔ یہ اندھے حکومتی انتقام کا آلہ کار بن چکا ہے۔ اس ادارے کے چیئرمین جاوید اقبال کے خلاف غیر اخلاقی سرگرمیوں میں پکڑے جانے کے باوجود کوئی ایکشن نہیں لیا جاتا، نہ عمران خان کے کان پر کوئی جو رینگتی ہے۔‘ سابق وزیر اعظم نے کہا کہ ’بہت جلد انشا اللہ ان سب کا یوم حساب آئے گا۔ بین الاقوامی ادارے اور ہماری عدالتیں نیب کے کردار کو بیان کر چکی ہیں۔ یہ ادارہ اپنا جواز کھو چکا ہے۔ اپوزیشن کے لوگ اس کا نشانہ بنے ہوئے ہیں۔ اپوزیشن والے نیب نہیں تو ایف آئی اے، اور اینٹی نارکوٹکس والوں کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں۔‘
نواز شریف نے چیئرمین سی پیک عاصم سلیم باجوہ کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا اور ان کے بیرون ملک اربوں کے اثاثوں پر سوال اٹھائے۔ انہوں نے کہا کہ اتنا بڑا الزام لگ گیا لیکن نہ کوئی جے آئی ٹی بنی نہ کوئی احتساب ہوا اور نہ کوئی سزا۔ احتساب کے دعویدار عمران خان نے بھی باجوہ کے اثاثوں کا نہیں پوچھا اور انہیں فوری ایمانداری کا سرٹیفیکیٹ جاری کر دیا۔’
نواز شریف نے اپنے خطاب میں ملکی اداروں سے سوال کیا کہ ’کیا عمران خان کے خلاف فارن فنڈنگ کیس یوں ہی ٹھپ رہے گا؟ بنی گالہ کی غیر قانونی تعمیر کی فائل ایسے ہی بند رہے گی؟ ہم کب تک انتظار کریں گے؟ کیا عمران خان پر کوئی فوجداری مقدمہ درج نہیں ہو گا۔ عمران خان نے اربوں کے اثاثے رکھتے ہوئے بھی اتنا کم ٹیکس ادا کیا ہے۔ کیا نیب اس پر کوئی ایکشن نہیں لے گا؟‘ ’کیا اپوزیشن کے لوگ آگے بھی سزائیں پاتے رہیں گے اور حکومتی لوگ یونہی ایمانداری کے سرٹیفیکیٹ پاتے رہیں گے۔ کیا ہم ایسا پاکستان اپنی آنے والی نسلوں کے لیے چھوڑنا چاہتے ہیں۔ میں تو کہوں گا کبھی بھی نہیں۔‘
نوازشریف نے سوال کیا کہ کیا ایجنسیوں کا لوگوں کو اٹھانا، میڈیا کے نمائندوں کو بے بنیاد مقدمات میں نامزد کر دینا، یہ جمہوری معاشرے کی نشانیاں ہیں؟ ہم میڈیا پر کوئی قدغن منظور نہیں کریں گے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ’جمہوریت کو کمزور کرنے کے لیے ‘لڑاؤ اور حکومت کرو’ کی پالیسی نافذ کر دی گئی ہے۔ سیاستدانوں کو بلایا، ڈرایا اور دھمکایا جاتا تھا۔ یہ طریقہ آج بھی استعمال ہوتا ہے۔ محکمہ زراعت کو تو آپ سب سمجھتے ہی ہیں۔ انہون نے کہا کہ وکلا، دانشوروں، میڈیا اور عدلیہ کے لیے بھی یہی طریقہ استعمال ہو رہا ہے۔ قاضی فائز عیسیٰ اور شوکت عزیز صدیقی دونوں جج ایماندار ہیں اور انتقام کا شکار بن رہے ہیں۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ پاکستان میں عوام کے منتخب وزیراعظم کو پھانسی دے کر، جلا وطن کر کے اور ہائی جیکر بنا کر ان کے خاندانوں کو ذلیل و رسوا کیا جاتا ہے۔‘
نواز شریف نے اپنی تقریر ختم کرتے ہوئے کہا کہ ان حالات میں اس وقت ہماری اولین ترجیح اس نظام سے نجات حاصل کرنا ہے۔ انھوں نے کہا اگر اب تبدیلی عمل میں نہ آئی تو یہ نااہل حکومت اور ظالمانہ نظام ملک کو تباہ کر دے گا۔ نواز شریف نے کہا کہ ضروری ہے کہ مسلح افواج قائد اعظم کی تقریر کے مطابق سیاست سے دور رہیں۔ کسی کے کہنے پر وزیر اعظم ہاؤس میں داخل ہو کر وزیر اعظم کو گرفتار نہ کریں۔ لیکن سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ اور اس کے کردار کے حوالے سے اتنا زیادہ سچ بولنے کے بعد اب اس پر عمل کی کی ذمہ داری بھی سب سے بڑھ کر نواز شریف پر ہی عائد ہوتی ہے، اصل فیصلہ اور اصل قوت ن لیگ اور نواز شریف کو دکھانی ہو گی۔ برا سوال یہ ہے کہ نواز شریف کا اصل منصوبہ ہے کیا؟ میاں صاحب نے اپنی تقریر میں ماضی کا بھر پور تجزیہ کیا، جمہوری بیانیے کا اعادہ کیا اور خرابیوں کی نشاندہی کی اور بات پِھر اے پی سی پر چھوڑ دی۔ اے پی سی کا 26 نکاتی اعلامیہ اپوزیشن، سول سوسائٹی، میڈیا اور علاقائی جماعتوں کے مطالبات دہراتا ضرور ہے اور کچھ مقامات پر کھل کر اسٹیبلشمنٹ کا ذکر بھی کرتا ہے مگر عملی قدم اب بھی غیر واضح اور مبہم ہیں۔
اس لیے گیند اصل میں نواز شریف کے کورٹ میں ہے۔ اس بات میں بھی البتہ کوئی شک نہیں کہ نواز شریف سیاست میں بولڈنس اور سرپرائز دینے کی روایت رکھتے ہیں۔ پاکستان میں ووٹ کو عزت دینے کے لیے آخری کامیاب عوامی تحریک بھی انہوں نے ہی چلائی تھی اور سیاست کی قسمت کا فیصلہ کرنے والی جی ٹی روڈ بھی ان کے ہی زیر اثر ہے۔ مگر میاں صاحب کے ارادے فی الحال تو ان کی اپنی جماعت سے بھی پوشیدہ ہیں اور وہ بھی عوام اور میڈیا کے ساتھ ساتھ یہی پوچھتے پائے جا رہے ہیں کہ واٹ از دی ایکچول گیم پلان، میاں صاحب؟

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button