آرمی چیف نے شہباز کی حلف برداری میں شرکت کیوں نہ کی؟


11 اپریل کو نئے وزیراعظم شہباز شریف کی تقریب حلف برداری میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی عدم شرکت سوشل میڈیا پر زیر بحث ہے اور یہ کہا جارہا ہے کہ انہوں نے اس موقعے سے دوری اختیار کر کے اپنے ادارے کے مسلسل نیوٹرل رہنے کا تاثر مزید مضبوط کیا ہے۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ماضی میں آرمی چیف کو خود یہ کہتے رہے ہیں کہ فوج حکومت کا حصہ ہوتی ہے، اس لیے وزیراعظم کے ساتھ کھڑی ہوتی ہے۔ کچھ سوشل میڈیا صارفین کا کہنا ہے کہ شاید جنرل قمر باجوہ نے عمران کی فراغت کے ردعمل میں اپنے خلاف پی ٹی آئی کی جانب سے چلائی گئی ملک گیر مہم کے زیر اثر تقریب میں شرکت نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ یاد رہے کہ شہباز شریف کی بطور وزیراعظم تقریب حلف برداری میں آرمی چیف کی نمائندگی آئی جی آرمز لیفٹیننٹ جنرل سلمان فیاض غنی نے کی، تاہم فضائی اور بحری فوج کے سربراہان کے علاوہ چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی بھی تقریب میں شامل ہوئے۔
یون گذشتہ کئی دہائیوں میں یہ پہلا موقع تھا کہ 11 اپریل کو وزیراعظم شہباز شریف کی تقریب حلف برداری میں آرمی چیف نے شرکت نہیں کی حالانکہ باقی تمام فوجی افسران اس میں شریک تھے۔ اسی طرح یہ بھی پہلا موقع تھا کہ صدر نے نئے وزیراعظم کو حلف دینے سے گریز کرنے کا فیصلہ کیا۔ 11 اپریل کو کئی ہفتوں کی بے یقینی اور سیاسی ہلچل کے بعد نئے وزیرِ اعظم اپنا عہدہ سنبھالنے پہنچے ایم ہاؤس پہنچے تو خود صدرعارف علوی بھی وہاں موجود نہیں تھے۔ تقریب شروع ہونے سے کچھ دیر قبل ہی ایوانِ صدر سے یہ بیان جاری ہوا تھا کہ صدر علوی کی طبیعت ناساز ہے اور ان کے معالج نے انھیں کچھ دن آرام کا مشورہ دیا ہے۔ چنانچہ چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے شہباز سے حلف لیا۔
لیکن سوشل میڈیا پر ن لیگ کے مخالفین یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ شاید شہباز شریف اور جنرل باجوہ کے مابین بھی معاملات ٹھیک نہیں۔ کچھ لوگوں کا کہنا یے وہ کی طبیعت ناسازی کے باعث تقریب میں شریک نہیں ہو پائے، لیکن ایک عسکری ذریعے نے بتایا کہ ’آرمی چیف نے اپنی نمائندگی کے لیے اعلیٰ عہدے پر تعینات افسر کو تقریب میں بھیجا تھا جس سے مقصد پورا ہو گیا۔ اس نے کہا کہ جنرل باجوہ کے تقریب میں نہ آنے کی کوئی بھی وجہ ہو سکتی ہے، ہو سکتا ہے کہ وہ کسی اجلاس میں مصروف ہوں یا شہر سے باہر ہوں۔ اسی طرح سابق صدر آصف علی زرداری نے بھی تقریب میں شرکت نہیں کی اور ان کی نمائندگی بلاول بھٹو نے کی۔
تقریب میں پہلی صف پر لگی نشستوں پر بالترتیب عسکری قیادت، ان کے ساتھ کیپٹن (ر) صفدر، مریم نواز، حمزہ شہباز اور ان کی اہلیہ، بلاول بھٹو زرداری، مولانا فضل الرحمان اور یوسف رضا گیلانی، ایاز صادق اور راجہ پرویز اشرف براجمان تھے۔ آنے والے آخری مہمانوں میں فضائی اور بحری افواج کے سربراہان شامل تھے تاہم آرمی چیف جنرل قمر باجوہ تقریب میں شریک نہیں ہوئے جسے وہاں موجود سبھی مہمانوں نے نوٹس کیا۔ آرمی چیف کی نمائندگی آئی جی آرمز لیفٹیننٹ جنرل سلمان فیاض غنی نے کی، شہباز شریف سیاہ رنگ کی شیروانی میں ملبوس تھے اور ان کے چہرے پر سنجیدگی عیاں تھی۔ حلف برداری کی تقریب کے مناظر بھی گذشتہ برس سے مختلف تھے۔ جب عمران خان نے حلف لیا تھا تو انھیں اردو پڑھنے میں دقت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ تاہم شہباز شریف نے صرف ایک موقع پر غلطی کی جب وہ دستور اور قانون کی پاسداری میں صرف دستور کا لفظ دہراتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔ اس موقع پر چیئرمین سینیٹ نے انھیں روکا اور ان کی اصلاح کی۔
گذشتہ تقریب میں عمران خان واضح طور پر خوش نظر آرہے تھے۔ اس تقریب کی بہت سی ہائی لائیٹس میں سے ایک آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور سابق انڈین کرکٹرز نوجت سنگھ سندھو کی ملاقات تھی جب انھوں نے آرمی چیف کو گلے لگایا تھا۔ تینوں فوجی سربراہان نے اگلی نشستوں پر موجود اراکین اسمبلی سے بھی ملاقاتیں کی تھیں اور پوری تقریب میں ماحول خوشگوار تھا۔ مگر آج شہباز شریف نہایت سنجیدہ نظر آئے اور مجموعی طور پر تقریب میں ماحول سنجیدہ ہی رہا۔ حلف ختم ہونے کے بعد ہال میں بیٹھے مسلم لیگ ن کے حمایتیوں نے نعرے لگانے شروع کر دیے۔ تقریب میں پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) دونوں ہی جماعتوں کے نعرے سنائی دیے۔ تقریب ختم ہونے کے بعد سیاستدان، میڈیا کے نمائندے اور دیگر مہمان مریم نواز، یوسف رضا گیلانی، بلاول بھٹو زرداری اور دیگر حکومتی اراکین سے ملتے اور ان کے ساتھ تصاویز بنواتے رہے۔ اس وقت کئی اراکین یہ شکوہ کرتے نظر آئے کہ صدر عارف علوی کو حلف برداری کے لیے آنا چاہیے تھا۔ تقریب کے بعد ہم نے مریم سے پوچھا کہ آرمی چیف کے شرکت نہ کرنے کی وجہ کیا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ انھیں علم نہیں تھا کہ آرمی چیف نہیں آئیں گے اور یہ کہ وہ نہیں جانتیں کے ان کے نہ آنے کی وجہ کیا ہے۔ مریم اورنگزیب نے بھی آرمی چیف کی غیرموجودگی کی وجہ سے متعلق لاعلمی کا اظہار کیا۔ اسی بارے میں جب احسن اقبال سے پوچھا گیا تو انھوں نے بھی لاعلمی کا اظہار کیا اورکہا کہ تقریب سے کچھ لمحے قبل ہی یہ پتا چلا۔ تاہم انھوں نے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ فوجی قیادت کچھ عرصے سے مختلف تقریبات، خاص طور پر سیاسی نوعیت کی، سے دور رہنے کی کوشش کر رہی ہے تاکہ وہ یہ واضح کر سکیں کہ ان کا سیاست میں کوئی کردار نہیں۔ انھوں نے یہ بھی کہا کہ سابقہ حکومت نے فوجی قیادت اور فوج کے خلاف جس قسم کی مہم چلائی ہے، عین ممکن ہے کہ اس کی وجہ سے ہی یہ فیصلہ لیا گیا ہو کہ خود کو مکمل طور پر سیاسی ایونٹس سے الگ رکھا جائے۔
وہیں موجود ایک اور رکن اسمبلی نے کہا کہ عین ممکن ہے کہ آرمی چیف خود فوج میں یہ تاثر زائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ فوجی قیادت کا عمران خان اور پی ٹی آئی کی حکومت کو ختم کرنے میں کوئی کردار ہے یا ان کے سابق وزیراعظم سے اختلافات تھے جو ان کی حکومت کی رخصتی کا باعث بنے۔ تاہم بعض افراد کا یہ بھی کہنا تھا کہ فوجی سربراہ نے ’شہباز شریف کو یہ باور کرایا ہے کہ وہ اب بھی نیوٹرل ہی ہیں۔‘

Related Articles

Back to top button