کیا اسٹیبشمنٹ سے ڈیل کے بغیر اقتدار نہیں مل سکتا؟


ملک کے تیزی سے بدلتے ہوئے سیاسی منظر نامے میں ایک اور ڈیل اور کپتان اینڈ کپمنی کی جلد فراغت کی افواہوں کے بعد یہ سوال کیا جا رہا ہے کہ کیا پاکستان میں اب ڈیل کے بغیر اقتدار حاصل کرنا نا ممکن ہے اور کیا اسٹیبلشمنٹ سے ڈیل کے خواہاں سیاست دان فوج کے کندھوں پر سوار ہو کر بر سر اقتدار آنے والے عمران خان کا حشر نہیں دیکھ رہے؟
سنیئر صحافی اور تجزیہ کار امتیاز عالم اپنے تازہ سیاسی تجزیئے میں کہتے ہیں کہ اپوزیشن نے اگر کسی فوری تبدیلی کیلئے اسٹیبلشمنٹ کا سہارا لیا تو عمران خان سے بھی زیادہ بڑی مصیبت میں پھنس جائے گی۔ انکامکہنا ہے کہ اِن ہاؤس تبدیلی کیلئے حالات خاصے سازگار ہو چکے ہیں لیکن اگر اپوزیشن عبوری عرصے کی حکومت لانے پر بھی راضی ہو گئی تو اُسی منجدھار میں پھنس جائے گی جس میں تحریک انصاف پھنسی ہوئی ہے۔ یہ دراصل پرانی تنخواہ پہ ہی کام کرنے کا نسخہ ہے۔ لیکن اگر حقیقی سیاسی و آئینی و اداراتی تبدیلی چاہئے تو اپوزیشن ایک پائیدارمتبادل معاشی، آئینی و سیاسی پروگرام کیساتھ وسیع تر عوام الناس کو ایک نئے عوامی جمہوری ایجنڈے پہ متحرک کرے۔ 
بقول امتیاز عالم حزب اختلاف وہ کام نہ کر پائی جو تحریک انصاف نے بذات خود انجام دے ڈالا۔ خیبر پختونخوا کی مقامی حکومتوں کے انتخابات کے پہلے مرحلے میں مہنگائی اور بد انتظامی سے تنگ آئے عوام نے ایسا پٹخا دیا کہ پی ٹی آئی کی اُس کے قلعے میں ہی کمر توڑ کر رکھ دی۔ پارٹی ایسے اندرونی خلفشار کا شکار ہوئی کہ عمران کی کرشمہ سازی بھی اُسے سنبھال نہ پائی اور ایسے وقت میں جب دوسرے مرحلے کے مقامی انتخابات کا معرکہ درپیش ہو اور پارٹی شکست کے سخت صدمے سے دوچار ہو، اناڑی پن کا اِس سے بڑا مظاہرہ کیا ہو سکتا ہے کہ کپتان نے ساری پارٹی ہی کو معطل کر دیا اور اب الیکشن کا دوسرا مرحلہ ملتوی کروانے کی کوشش شروع کر دی ہے۔ یہ تنظیمی انہدام پارٹی کے تابوت میں شاید آخری کیل ثابت ہو۔ امتیاز پوچھتے ہیں کہ کیا کبھی کوئی کمانڈر بیچ جنگ میں اپنی فوج کو منتشر ہونے کا حکم دیتا ہے؟ یہ کمال ہمارے خان صاحب ہی کا ہے، اب بغیر پارٹی کے وہ تن تنہا اگلے مرحلے کے انتخابات میں دیوار پر لکھی شکست کا سہرہ اپنے سر پر سجانے کو تیار ہیں جو کہ پہلے مرحلے سے بھی زیادہ اور دندان شکن ہو گی۔ 
انکا کہنا ہے کہ عمران خان کی جماعت مجھے اس طرح منتشر ہوتی دکھائی پڑتی ہے جس طرح کسی تباہ شدہ جہاز کا ملبہ اور شاید اگلا انتخاب اس کا آخری انتخاب ہو، جس سے قبل اس پارٹی کے جہاز پر چڑھائے گئے ابن الوقتوں کے انخلاکا ایسا منظر دکھائی پڑے گا جیسے ہمیں طالبان کے قبضے کے بعد کابل ایئر پورٹ پر نظر آیا تھا۔ لہذا انکی نظر میں تبدیلی آ نہیں رہی بلکہ آ چکی ہے۔ بس تجہیز و تدفین کے مناظر ترتیب پانے والے ہیں۔ اسوقت صورت حال یہ یے کہ تحریک انصاف اپنے ہی بوجھ تلے دب چکی یے اور خود خان صاحب کی قلا بازیوں کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچے والی یے۔ امتیاز اپوزیشن کو مفت مشورہ دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ وہ تبدیلی کے اِس ہائبرڈ انتظام اور اس کے منتظمین کی جعل سازیوں کو اپنے منطقی انجام تک پہنچنے دے۔
انکا کہنا ہے کہ عمران خان کا یہ گھبرایا ہوا بیان کہ نواز شریف کی نا اہلی ختم کرانے کے راستے نکالے جا رہے ہیں محض ہوائی نہیں ہے۔ اقامہ رخھنے پر نواز شریف کی تاحیات نااہلی کا معاملہ اب سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن عدالت عظمیٰ میں لے کر جا رہی ہے۔ تا حیات نا اہلی کی نا انصافی پر انصاف ہونا کوئی انہونی نہیں ہو گی۔ عدالت عظمیٰ آخرکب تک اس کا بوجھ اپنے سر پر اٹھائے رکھے گی؟ امتیاز عالم کے بقول اب سیاسی گیند نواز شریف اور مولانا فضل الرحمن کیساتھ ساتھ آصف زرداری کی کورٹس میں ہے اور ایمپائر کے پاس اپنے پٹے ہوئے نسخے پہ اصرار سے عمران حکومت کی حالت آئے روز بگڑتی جائے گی۔ ظاہر ہے کہ اپوزیشن بھی حکومت کو قبل از وقت گھر بھیجنے کے لیے بے قرار ہوئی جاتی ہے اور اپنے 23 مارچ کے الٹی میٹم سے پہلے کسی پارلیمانی سازش کو گھڑنے میں مصروف ہے۔
لیکن بقول امتیاز عالم، جمہوری منتقلی کیساتھ ساتھ اصولی منتقلی اقتدار کے تقاضے بھی بڑے ہیں لہٰذا کیوں نہ عمران کو تحریک انصاف کی گہری قبر کھودنے کا پورا موقع دیا جائے اور سرپرستوں کی بیچارگی اور دیوالیہ پن کے پھل کو پکنے دیا جائے۔ اپوزیشن نے اگر کسی فوری تبدیلی کیلئے مقتدرہ کا دروازہ کھٹکھٹایا تو عمران خان سے بھی زیادہ مصیبت میں پھنس جائے گی۔ اِن ہاؤس تبدیلی کیلئے حالات خاصے تیار ہیں لیکن ایسا کر کے اپوزیشن اُسی منجدھار میں پھنس جائے گی جس میں عمران حکومت پھنسی ہوئی ہے، لہذا اگر اپوزیشن نے نے واقعی ووٹ کی عزت بحال کرنا ہے اور اس مرتبہ ایک حقیقی سیاسی و آئینی تبدیلی لانی ہے تو اسے ایک پائیدار متبادل معاشی، آئینی و سیاسی پروگرام کیساتھ وسیع تر عوام کو ایک نئے عوامی جمہوری ایجنڈے پر متحرک کرے۔ امتیاز کے خیال میں فلور کراسنگ سے ان ہاوس تبدیلی کی راہ موقع پرستانہ ہی نہیں بلکہ میثاقِ جمہوریت سے بھی غداری ہو گی۔ سول ملٹری تعلقات کی آئینی کایا پلٹنے کیلئے ایک منظم عوامی جمہوری تحریک چاہئے جو غیر آئینی آہنی شکنجوں کو توڑ دے اور ملک کو آئینی شاہراہ پہ لے آئے۔ لہذا اس موقع پر جمہوریت اور آئین پسندوں کو جلد بازی کا شکار نہیں ہونا چاہئے، ورنہ جمہوری خوابوں کو پاش پاش ہوتے تو ہم پہلے بھی کئی بار دیکھ چکے ہیں!

Related Articles

Back to top button