اتحادیوں کااسمبلیوں کی مدت پوری کرنے کا متفقہ فیصلہ

وزیر اعظم شہباز شریف کی زیر صدارت اتحادی جماعتوں کے اجلاس میں اسمبلیوں کی مدت پوری کرنے کا متفقہ فیصلہ کیا گیا ہے۔

ماڈل ٹائون لاہور میں ہونیوا نے والے اجلاس میں وزیر اعظم شہبا زشریف ، آصف زرداری ، بلاول بھٹو، مولانا فضل الرحمن ، حمزہ شہباز، ایم کیویم کے رہنمائوں سمیت دیگر شریک ہوئے۔

باخبر ذرائع کے مطابق اجلاس میںاتحادی جماعتوں نے فیصلہ کیا کہ قبل از وقت انتخابات بہتر آپشن نہیں، لہذا اسمبلیوں کی مدت پوری کرنے کا متفقہ فیصلہ کیا گیا ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ اجلاس میں فیصلہ کیا گیا کہ پنجاب میں بھی وزارت اعلیٰ کو بچانے کیلئے بھی تمام اتحادی جماعتیں کوشش کریں گی۔

تحادی جماعتوں کے اجلاس کے بعد وفاقی وزیر سعد رفیق نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے کسی قدم کے جواب میں فیصلہ کیا گیا تو ٹکا کر برابر جواب دیا جائے گا، پاکستان کی وفاقی حکومت، پنجاب حکومت، سندھ حکومت، بلوچستان اور خیبرپختونخوا (کےپی) حکومت کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مدت پوری کرے گی۔

انکا کہنا تھا حکومت میں شامل تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین، سربراہان اور نمائندگا نے شرکت کی جہاں پاکستان کی سیاسی، معاشی اور دیگر امور پر تبادلہ خیال کیا گیا، پاکستان کی وفاقی حکومت، پنجاب حکومت، سندھ حکومت، بلوچستان اور خیبرپختونخوا حکومت کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مدت پوری کرے گی،وفاقی حکومت اپنی مدت پوری کرے گی اور ملک کی بہتری کے لیے تمام قدامات بروئے کار لائے گی، اس سلسلے میں ابہام پھیلانے اور شوشے چھوڑنے سے گریز کرنا چاہیے۔

انہوں نے کہا پنجاب کے ضمنی انتخابات کسی جماعت کی مقبولیت یا عدم مقبولیت کا پیمانہ نہیں ہے کیونکہ یہ 20 نشستیں ایسی ہیں جو 2018 میں مسلم لیگ (ن) میں ایک بھی نہیں ملی تھی، یہ پی ٹی آئی یا آزاد تھے، جنہیں توڑ کر سازش کے تحت آزاد لڑوایا گیا تھا اور یہ سازش عمران خان کے لیے تیار کی گئی تھیں،5 نشستیں مسلم لیگ (ن) اور اتحادیوں نے مل کر جیتی ہیں اور یہ ہمیں فتح حاصل ہوئی ہے، عمومی طور پر ہمارے ووٹ بینک میں 2018 کے مقابلے میں 39 فیصد اضافہ ہوا ہے تو کس بات کے شادیانے بجائے جا رہے ہیں اور کون سا طوفان ہے جو تھم نہیں رہا ہے۔

سعد رفیق نے کہایہ جو طوفان آیا ہے یہ بھی تھمے گا اور اس کے آگے بند بھی باندھا جائے گا، اس جھوٹ، فتنے اور سازش کا ڈٹ کر مقابلہ کیا جائے گا، ہمارے اراکین توڑوں تو وہ حاجی بن جاتے ہیں اور تمہارے اپنے سیاسی حق کی بنیاد پر ڈنکے کی چوٹ پر تمہیں چھوڑ دیں تو ان کو برا کہتے ہو جو فعل عمران خان کے حق میں ہو وہ ٹھیک ہے اور جو تمہاری مرضی کے خلاف ہو وہ غلط ہوتی ہے تو کیا تم دودھ کے دھلے ہوئے ہو۔

انہوں نے کہا یہ ایک گمراہ آدمی ہے اور گمراہوں کا ایک گروہ تیار کر دیا ہے، یہ گروہ ہرجگہ موجود ہے اور بعض لوگ اب تک اپنی اصلاح کے لیے تیار نہیں ہیں، یہ ممکن نہیں ہے کہ ایک جھوٹا جو سازش کرکے اور بچہ جمورا بن کر اقتدار میں آیا تھا وہ آج ووٹ کو عزت دینے کی بات کرے، ہماری جماعتوں اور قیادتوں نے اس ملک میں آئین اور جمہوریت کی سربلندی کے لیے جانیں دی ہیں، جیلیں کاٹی ہیں، جلاوطنی کاٹی ہیں اور جانی مالی قربانیاں دی ہیں، اس آوارہ گرد کا کیا لگا ہے۔

وفاقی وزیرنے کہا یہ تو صرف آوارہ گردی کرتا رہا ہے اور سب سے پہلے پرویز مشرف کے گھٹنوں پر جھکا تھا اس کے بوٹ پالش کرنے کے لیے، دوسروں کو چیری بلاسم کہتا ہے اور خود سر سے پاؤں تک خوشامد ہے، ہمیشہ امپائر کے ساتھ مل کر کھیلا ہے، عمران خان کبھی غیرجانب دار ہو کر نہیں کھیلے ہو، 2011 سے اس کے بوٹ پالش کی جارہی ہے کہ جمہوری قوتوں کو کمزور اور اس آدمی کو مضبوط کرو،اس کا ایجنڈا کیا ہے، ابھی کھل کر سامنے نہیں آیا، کچھ آگیا ہے اور کچھ آنے والا ہے، اس شخص کے 4 سال کے کرتوت ہیں جن کی وجہ سے پاکستان معاشی دیوالیہ پن کی دہلیز پر آکھڑا ہوگیا ہے۔

انکا کہناتھا ہم نے پہلے بھی کہا ہے ہمارے لیے پیچھے ہٹنا اپنی سیاست بچانا خوب آتا تھا لیکن ہم نے یہ نہیں کیا بلکہ پاکستان کے وسیع تر مفاد میں حکومت کا کانٹوں کا ہار اپنے گلے میں ڈال دیا ہے، یہ پھولوں کی سیج نہیں ہے اور یہ ہمیں اس وقت بھی معلوم تھا، ہمیں معلوم تھا کہ آگے سرنگیں ہیں اور خطرات ہیں لیکن کیا کرتے، ہم اپنے ملک کو چھوڑ کر بھاگ جاتے لیکن اپنے ملک کو چھوڑ کر بھاگا نہیں جاتا۔

وزیر ریلویز نے کہا عمران خان کی حکومت میں صحافت کو زنجیریں پہنائی گئیں، صحافیوں کو آف ایئر کیا گیا، سیاسی کارکنان کو اختلاف رائے کی بنیاد پر جیلوں میں ٹھونسا گیا لیکن معذرت کے ساتھ اس وقت نظام عدل سویا ہوا تھا، اس وقت عدالتیں سوئی ہوئی تھیں اور ہمارے مقدمات نہیں سنے جاتے تھے، جب ریٹائر ہوجاتے ہیں تو پھر نجی مجلسوں میں آکر معذرت کر رہے ہوتے ہیں، کسی کا نام نہیں لوں گا لیکن سوال اٹھایا گیا تو پھر نام بھی لوں گا، تو پھر آپ اسی وقت گندے کام اور گندا دھندا نہ کریں، جمہوریت کو آلودہ نہ کریں، آئین پر شب خون نہ ماریں اور آئین سے کھلواڑ نہ کریں۔

انہوں نے کہا کسی کی بھی حکومت ہو نظریہ ضرورت کے تحت فیصلے نہیں ہونے چاہیئں لیکن ماضی میں ایسا نہیں ہوا اور آخر کار طویل قیدیں کاٹنے کے بعد ایک،ایک کرکے پاکستان کی اعلیٰ عدالتوں سے لوگ آئے، ان فیصلوں کو پڑھا جائے، وہ فیصلے منہ بولتے ہیں،نیب کے ڈریکونین دور اور قانون کے منہ پر طمانچہ ہیں، اس لیے آج اگر کوئی نیب کے پرانے قانون کی حمایت کرے، وہ کوئی بھی اور اس کا تعلق کسی بھی جگہ سے ہو وہ آئین اور جمہوریت کا دوست نہیں ہوسکتا، وہ انصاف کی بات نہیں بلکہ انصاف کا خون ہی ہوگا۔

سعد رفیق نے کہانیب کے مقدمات پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ‘لوگوں کو بدنام اور رسوا کیا گیا اور کیونکہ پونے چار سال میں کسی کے خلاف کوئی فیصلہ نہیں آسکا، ثبوت اور شواہد ہی کوئی نہیں تھا، اس وقت اخبار کی خبروں پر نیب کارروائی کرتی تھی، اب کارروائی کیوں نہیں ہورہی ہے، نیب تو ایک آزاد ادارہ ہے۔

انہوں نے کہا جب توشہ خانہ کی بات ہوتی ہے تو اب کارروائی کرنے والے کدھر ہیں، جب بلین ٹری سونامی کی بات ہوتی ہے، جب ان کے اہل خانہ کے کرپشن کی بات ہوتی ہے، اس کا بھی نوٹس لیا جانا چاہیے، آج کے اجلاس میں یہ سوال بھی اٹھایا گیا اور ہمیں کہا گیا ہے کہ اس کو میڈیا کے ذریعے قوم اور اداروں تک پہنچائیں کہ آخر کیا وجہ ہے الیکشن کمیشن فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ کیوں نہیں کرتا۔

انکا کہنا تھاہم پوری آواز کے ساتھ مطالبہ کرتے ہیں کہ برسوں سے زیر التوا فارن فنڈنگ کیس کا فیصلہ ہونا چاہیے،20 حلقوں میں سے 15 سیٹیں پی ٹی آئی جیتے، شام تک یہ کہیں عدالتیں کھولو دھاندلی ہو رہی ہے لیکن جب نتائج اپنی مرضی کے آنے شروع ہوئے تو رونا بند کردیا۔

انہوں نے کہا کہ جب نتائج آگئے تو کہا کہ الیکشن کمشنر استعفیٰ دے وہ جانب دار ہے، یہ ان سب کے لیے پیغام ہے جو بھی یہ سمجھتا ہے کہ غیرجانب داری میں آوازیں نہیں کسی جائیں گی تو آوازیں کسی جائیں گی کیونکہ پی ٹی آئی کی روایت ہی ایسی ہے، انہیں مرضی کا چیف جسٹس چاہیے، مرضی کا چیف آف آرمی اسٹاف چاہیے، ایک کٹھ پتلی صدر اور مرضی کا میڈیا چاہیے، اگر یہ دے سکتے ہیں تو نام نہاد امیرالمومنین کے سینے میں ٹھنڈ پڑے گی۔

وفاقی وزیرنے کہا اگر آپ اپنی ضمیر کے مطابق اپنی آواز بلند کریں گے تو وہ سر قلم کریں گے، آپ کو جیل میں ڈالیں گے، اور کچھ نہیں تو آپ کو غدار قرار دیں گے، چور بنانے کی کوشش کریں گے، عمران خان سوشل میڈیا پر کروڑوں خرچ کر رہے ہیں یہ کدھر سے آ رہے ہیں، اس کا بھی سراغ لگایا جائے گا کہ یہ پیسہ کہاں سے اور کن مقاصد کے لیے آرہا ہے۔

سعد رفیق کا کہنا تھا ضمنی انتخابات مقبولیت کا پیمانہ نہیں ہیں، ہم نے آپ کی 5 سیٹیں جیتی ہیں، ہمارے ووٹ بڑھے ہیں اور ہمارا ووٹ بینک محفوظ ہے کوئی غلط فہمی میں نہ رہے، جب اس کی مرضی کا فیصلہ نہیں آتا ہے تو یہ کہتا ہے ملک کے ٹکڑے ہوجائیں گے، خاکم بدہن، پاکستان پر ایٹم بم برسانے کی باتیں کرتا ہے، اس کو کچھ نظر نہیں آتا ہے اگر کچھ ملتا نظر آتا ہے تو اس کو کچھ سکون ملتا ہے، یہ سازشی بھی ہے، بڑے سازشی دیکھے لیکن عمران خان اور اس کے ٹولے جیسے سازشی نہیں دیکھے۔

انہوں نے کہا پارلیمنٹ کے فیصلوں کی بات ہوتی ہے تو ہم پارلیمانی نمائندہ قوتیں اور سب جمہوری قوتیں باآواز بلند یہ گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ پارلیمان کے فیصلوں کا احترام کیا جائے، قانون سازی ہمارا اختیار اور حق ہے، اس اختیار اور حق پر بالکل کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا اور اس پر خاموش بھی نہیں رہا جائے گا،’یہ نہیں ہوسکتا ہے کہ پاکستان کے وسیع مفاد کے اندر پارلیمان کوئی کام کرے تو اس کو معطل کردیا جائے، یہ افسوس ناک ہے، اس کی پاکستان کے وفاقی پارلیمانی نظام اور 1973 کے آئین میں گنجائش نہیں ہے۔

انکا کہناتھا پی ڈی ایم، پاکستان پیلزپارٹی (پی پی پی)، عوامی نیشنل پارٹی (اے این پی) اور جو ہم سب اکٹھےہیں، ہم بڑے ادب کے ساتھ یہ گزارش بھی کرنا چاہتے ہیں کہ 63 اے کی تشریح پر عدالتی فیصلے پر ہمارے اعتراضات ہیں اور سمجھتےہیں یہ فیصلہ آئین کی روح سے متصادم ہے، اس حوالے سے سپریم کورٹ بار کی نظرثانی درخواست کئی دنوں سے سپریم کورٹ میں پڑی ہوئی ہے، ہماری استدعااور اپیل ہے کہ اس نظرثانی کو فل کورٹ سنے اور اس پر جلد از جلد فیصلہ دیا جائے۔

وفاقی وزیر نے کہا ہم پھر کہنا چاہتے ہیں کہ آئین میں اختیارات کی تقسیم واضح ہے، قانون سازی پارلیمان کا حق ہے، ہم سمجھتے ہیں اس میں مداخلت نہیں ہونی چاہیے، ہم سمجھتے ہیں کہ عمران خان اور اس کا ٹولہ چاہتا ہے کہ عدالتوں کے کندھوں پر چڑھ کر آئین کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کروائے، یہ اداروں کو متنازع بنانے کی سازش کر رہا ہے۔

انہوں نے عمران خان کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ان کے ساتھی کہتے ہیں ان کےمنہ کو خون لگا ہوا ہے اور جب فیصلہ آئین اور قانون کے مطابق آتا ہے تو یہ نشانہ بناتے ہیں، ہم نے ایسا نہیں اور نہ کریں گے، لیکن عمران خان کی کسی شیطانی قدم کے جواب میں فیصلہ ہوا تو خاموش نہیں رہا جائے گا اور ٹکا کے برابر جواب دیا جائے گا۔

سعدرفیق نے کہا یہ جو انتخابات ہوئے ہیں اس سے ثابت ہوا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ اور الیکشن کمیشن غیرجانب دار تھے، اس کو تسلیم کیا جانا چاہیے، اس کی تحسین کی جانی چاہیے لیکن ہمیں 5 سیٹیں ملی ہیں ہم تسلیم کر رہے اور جن کو 15 سیٹیں ملی ہیں وہ رو رہا ہے۔

واضح رہے کہ 17 جولائی کو پنجاب کی 20 نشستوں میں ہونے والے ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف کو 15 اور ن لیگ کو 4 نشستوں پر کامیابی ملی تھی جبکہ ایک آزاد امیدوار کامیاب ہوا تھا۔

یاد رہے کہ پنجاب کے ضمنی الیکشن میں شکست پر گزشتہ روز مسلم ن کے قائد نواز شریف ، پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور پی ٹی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمن میں ٹیلیفونک رابطہ بھی ہوا تھا۔

Related Articles

Back to top button