اسد عمر نے پی ٹی آئی نہ چھوڑ کر کسے کیا پیغام دیا

نو مئی کے بعد پا کستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کے قریبی ساتھیوں شیریں مزاری ، فواد چوہدری اور عامر کیانی سمیت پارٹی کے دو درجن سے زیادہ رہنماؤں اور ٹکٹ ہولڈرز نے جہاں پارٹی چھوڑنے کے اعلانات کئے وہیں پی ٹی آئی کے سیکرٹری جنرل اسد عمر نے خود کو پارٹی کے عہدے اور کور کمیٹی سے علیحدگی کے اعلان تک محدود رکھا ہے اور دوسرے بھگوڑوں کی طرح پارٹی کی بنیادی رکنیت سے استعفی نہیں دیا .سیاسی تجزیہ کار ایک طرف اسد عمر کے پارٹی سے چمٹے رہنے کو مخصوص حلقوں کی خواہش طور پر دیکھ رہے ہیں تو دوسری طرف اسے مستقبل میں عمران خان کی جگہ پارٹی قیادت سنبھالنے کی ایک کھلی آپشن بھی قرار دے رہے ہیں . اسد عمر کے اس سیاسی قدم کے حوالے سے سینئر سیاسی تجزیہ کار اور صحافی نصرت جاوید لکھتے ہیں کہ ”ہم درد کے ماروں“ کو بالآخر مان لینا چاہیے کہ ”اپنے“ اپنے ہی رہتے ہیں۔ خدانخواستہ ان کے ہاتھوں لاہور کی خدیجہ شاہ سے منسوب کوئی حرکت نہ سرزد ہوجائے تو اکثر ان کی خطاﺅں کو درگزر کردیا جاتا ہے۔تازہ ترین مثال ہمارے ”اصل مالکوں“ کی جانب سے تحریک انصاف کے جنرل سیکرٹری اسد عمر کے ساتھ ہوا ”مشفقانہ“ سلوک ہے۔ 9مئی کے بعد سے عمران خان کی بنائی جماعت کے خلاف کڑے وقت کا آغاز ہوچکا ہے۔اپنی سرشت میں یہ جماعت ”انقلابی“ کبھی نہیں رہی۔ عاشقان عمران کا انبوہ ہے۔ اس کے بانی کو بڑی لگن اور محنت سے ”اقتدار میں باریاں“ لینے والے ”چور اور لٹیروں“ کے مقابلے میں ”بندہ ایمان دار ہے“ بناکر ہمارا ”نجات دہندہ “ بنانے کی کوشش ہوئی تھی۔ یہ کسی زمانے میں عالمی شہرت یافتہ فاسٹ باﺅلر اور ورلڈ کپ جیتنے والی کرکٹ ٹیم کے ”کپتان“ بھی رہے تھے۔ عمران خان کرکٹ سے ریٹائر ہوجانے کے بعد کینسر جیسے موذی مرض کے علاج کے لئے شہر لاہور میں ہسپتال بنانا چاہ رہے تھے۔ ”چندہ مہم“ نے پاکستان کے تقریباََ ہر سکول میں پڑھنے والے بچے کو عمران خان کادیوانہ بنادیا۔ 1990ءکی دہائی میں سکول کی طالب علم رہی یہ نسل جوان ہوئی تو ”سیاستدانوں“ کا روپ دھارے ”چور اور لٹیروں“ کے خلاف عمران خان بھی سیاست میں کودپڑے۔ ”تبدیلی“ کا نعرہ لگاتی نوجوان نسل ”جب آئے گا عمران“ کے خواب دیکھنا شروع ہوگئی۔سیاست میں آکر مگر عمران خان خاطر خواہ جلوہ نہ لگاپائے۔ 1997ءکا عام انتخاب نواز شریف نے ”ہیوی مینڈیٹ“ کے ساتھ جیت لیا۔ خان صاحب کے حصے میں ایک نشست بھی نہ آئی …. نصرت جاوید بتاتے ہیں کہ نواز شریف مگر نکسن یا ماﺅزے تنگ بن نہیں پائے۔ ”کارگل“ ہوگیا اور بالآخر جنرل مشرف قوم کو سیدھی راہ پر چلانے کے لئے ”اصل جمہوریت“ متعارف کروانے کی جدوجہد میں مصروف ہوگئے۔ جنرل مشرف کو مگر عمران خان کی”مقبولیت“ نہیں چودھری شجاعت کی سیاسی جوڑ توڑ والی ”فراست“ درکار تھی۔ وہ مسلم لیگ (ق) کی سرپرستی میں مصروف ہوگئے۔ مشرف اقتدار سے فارغ ہوئے تو 2008ءکے انتخاب میں خان صاحب نے ”عدلیہ“ کی محبت میں حصہ نہیں لیا۔محترمہ بے نظیر کی شہادت نے پیپلز پارٹی کو طاقت ور بنایا۔ پنجاب اسے پھر بھی نصیب نہیں ہوا۔ وہ شریف خاندان کے ہاتھ واپس چلا گیا۔ اقتدار کے خواہاں افراد کو تتلیوں کی طرح نچانے والوں کو 2008ءمیں ”چور لٹیروں“ کی اقتدار میں واپسی پسند نہیں آئی۔انہیں لگام ڈالنے کو عمران خان سے رجوع کرنا پڑا. اس ضمن میں کامل تیاری کے بعد 2011ءمیں لاہور کے مینارِ پاکستان کے میدان میں ایک جلسہ ہوا اور بلے بلے ہوگئی۔ تحریک انصاف کا ”ایمپائر“ کی شفقت سے نیا جنم ہوا تو اسد عمر جیسے نام نہاد ”اقتصادی جادو گر “ یعنی محض اپنی ذہانت کے بل بوتے پر گوگل اور اپیل جیسی کامیاب کمپنیوں کے خالق تصور ہوتے افراد بھی اس جماعت میں شامل ہونے لگے۔
نصرت جوود کہتے ہیں کہ میں ان دنوں بھی فریاد کرتا رہا کہ اسد عمر سٹیو جابز Steve Jobs نہیں جس نے آئی فون کو تقریباََ بنیادی ضرورت بنادیا ہے۔ موصوف کا ”شجرہ“ اور اس حوالے سے کاروباری حلقوں سے بنائے تعلق انہیں ”ہونہار“ بنائے ہوئے ہے۔ربّ کا شکر میں بالآخر درست ثابت ہوا۔اگست 2018ءمیں عمران خان وزیر اعظم بنے یا بنادئے گئے تو موصوف وزارت خزانہ کے مدار المہام بنائے گئے۔ان کے قائد یعنی عمران خان بارہا عوامی اجتماعات میں بڑھک لگاچکے تھے کہ وہ پاکستان کے لئے اقتصادی سہاروں کی تلاش میں آئی ایم ایف سے ر جوع کرنے کے مقابلے میں خودکشی کو ترجیح دیں گے۔ آئی ایم ایف کے ”تھاپڑے“ کے بغیر تاہم پاکستانی معیشت کو سنبھالنا مشکل تھا۔ اپنے قائد کی خوشنودی کے لئے اسد عمر نے اس ضمن میں ضد دکھائی تو واٹس ایپ پیغام لکھ کر خان صاحب نے انہیں فارغ کردیا۔ ان کی جگہ آئی ایم ایف کے دیرینہ چہیتے ڈاکٹر حفیظ شیخ وزارت خزانہ کے مالک بنادئے گئے۔ اسد عمرکی انا کو لیکن دھچکا نہیں لگا۔ سرجھکائے ”اچھے دنوں“ کا انتظار کرتے رہے۔
سرجھکائے ”اچھے دنوں“ کے انتظار کی عادت ہی بدھ کی رات انہیں جیل سے باہر نکالنے کے کام آئی۔تحریک انصاف چھوڑی نہیں۔اس کے سیکرٹری جنرل کے عہدے سے لیکن مستعفی ہوگئے ہیں۔عمران خان کی بنائی تحریک انصاف کی کور کمیٹی سے بھی علیحدگی اختیار کرلی ہے۔۔ ان کی پریس کانفرنس مگر واضح انداز میں بتارہی تھی کہ جہاں بھی گئے ہیں وہاں خوش ہی رہیں گے۔ انہیں فواد چودھری یا ڈاکٹر شیریں مزاری کی طرح ”گمنام“ رہنے کو مجبور نہیں کیا جائے گا۔