افغان مہاجرین پاکستان کو کس طرح بری طرح بھنبوڑ رہے ہیں؟

جوں جوں پاکستان کے معاشی حالات دگرگوں ہو رہے ہیں،پاکستان کاہر شخص اور ہر ادارہ پاکستانی معیشت اور سماج پر افغان مہاجرین کے مہلک دباؤ اور اثرات بارے احتجاج کرتا نظر آ رہا ہے. ہر افغان مہاجر خاندان میں شرحِ پیدائش اسقدر زیادہ ہے کہ اب اِن کی تعداد60لاکھ نہیں بلکہ ایک کروڑ سے تجاوز کر چکی ہوگی. افغان مہاجرین پاکستانی معیشت اور سماج کو بُری طرح بھنبوڑ اور اُدھیڑ رہے ہیں۔ پاکستان کو اگر دہشت گردی کے خلاف جنگ جیتنی ہے تو پہلے افغان مہاجرین کے بوجھ سے نجات حاصل کرنا ہوگی ۔ ان خیالات کا اظہار سینئر صحافی اور کالم نگار تنویر قیصر شاہد نے اپنی ایک تحریر میں کیا ہے . وہ لکھتے ہیں کہ ستمبر 2023کے پہلے ہفتے طالبان حکومت کے ایک ترجمان کی جانب سے کہا گیا کہ ’’ افغان شہری پاکستان نہ جائیں کیونکہ پاکستان کے اندرونی حالات ٹھیک نہیں ہیں۔‘‘ .. لیجیے، اب طالبان حکام بھی پاکستان پر زبانِ طعن دراز کرنے لگے ہیں۔ افغان طالبان نے یہ بیان اُس وقت دیا جب طالبان حکام کی پاکستان مخالف کارروائیوں کے نتیجے میں طورخم بارڈر آٹھ دن بند رہنے کے بعد یعنی 15ستمبرکو کھل رہا تھا ۔ایک روز پہلے نگران وزیر اعظم انوارالحق کاکڑ کی جانب سے یہ اعلان سامنے آیا تھا کہ’’ پاکستان میں بغیر ویزہ قیام پذیر افغانوں کو ہم نکال رہے ہیں ‘‘۔ کاش نگران وزیر اعظم اپنے اِس اعلان پر جلد عمل کر دکھائیں اور پاکستانی عوام کی شاباش پائیں۔ گزشتہ روز اسلام آباد میں اخبار نویسوں سے گفتگو کرتے ہُوئے سابق وزیر دفاع، خواجہ محمد آصف، نے دیگر باتوں کے ساتھ یہ بھی کہا کہ :’’ پاکستان میں60لاکھ افغان مہاجرین کا بوجھ ہم مزید نہیں اُٹھا سکتے ۔
اِنہیں واپس اپنے وطن جانا چاہیے ۔‘‘اور اب ایک خبر میں بتایا ہے کہ’’ پاکستان میں قیام کے لیے رجسٹریشن نہ کروانے پر ساڑھے سات لاکھ افغان مہاجرین کو ملک بدر کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے ۔یہ افغان مہاجرین پاکستان میں دانستہ رُو پوش ہو گئے ہیں۔‘‘ تنویر قیصر شاہد کہتے ہیں کہ پاکستانی عوام اب افغان مہاجرین سے جلد از جلد گلوخلاصی چاہتے ہیں ۔ اب جب کہ افغانستان میں طالبان حکومت ’’امارتِ اسلامی ‘‘ کے نام سے قدم جما چکی ہے،پاکستان پر شدید بوجھ بنے افغان مہاجرین واپس اپنے ملک کیوں نہیں جا رہے؟ افغان مہاجرین کی برق رفتاری سے بڑھتی آبادی سے تنگ آکر اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے بھی افغان مہاجرین کی امداد تقریباً بند کر دی ہے ؛ چنانچہ ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ شکستہ معیشت کے حامل پاکستان کو معاشی طور پر اِن افغان مہاجرین کی وجہ سے کسقدر بوجھ اور دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے . لاکھوں نہیں بلکہ لاتعداد افغان مہاجرین کی وجہ سے کمزور ترین معیشت کا حامل پاکستان جن عذابوں سے گزررہا ہے، ایسے ہی سنگین مسائل کا شکار بنگلہ دیش بھی بن رہا ہے ۔ بنگلہ دیش کو روہنگیا مہاجرین کی وجہ سے متنوع مسائل کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہاں ان مہاجرین کی تعداد 10لاکھ سے زائد ہے . تنویر قیصر شاہد بتاتے ہیں کہ تیسرا ملک ترکیہ بھی مہاجرین کے ایسے ہی عذابوں سے گزررہا ہے۔ اِس وقت ترکیہ میں36لاکھ مہاجرین موجود ہیں۔ زیادہ تعداد اُن مہاجرین کی ہے جو شام سے آئے ہیں۔ جب سے شام میں خانہ جنگی شروع ہُوئی ہے، شامی حکومت پر صدر بشار الاسد کی گرفت کمزور پڑی ہے اور شام میں دہشت گرد ’’داعش‘‘ کی خونیں وارداتوں میں اضافہ ہُوا ہے ، شام سے ترکیہ کی جانب مہاجرین کی تعداد میں بے تحاشہ اضافہ ہُوا ہے۔ پاکستان کے بعد ترکیہ ہی دُنیا کاوہ ملک ہے جہاں بے تحاشہ مہاجرین نے حکومت، عوام اور معیشت پر سخت دباؤ ڈال رکھے ہیں . حقیقت یہ ہے کہ نہ تو افغان مہاجرین واپس افغانستان جانا چاہتے ہیں اور نہ ہی روہنگیا مہاجرین میانمار اور نہ ہی ترکیہ میں موجود شامی مہاجرین اپنے وطن لوٹنے پر آمادہ ہیں نتیجہ یہ ہے کہ ان مہاجرین کے تینوں میزبان مسلم ممالک معاشی اور سماجی عذابوں سے گزر رہےہیں

Related Articles

Back to top button