آئی ایم ایف معاہدے کے بعد کیا کچھ بدلنے والا ہے؟

ملک بھر میں ڈیفالٹ ہونے کی افواہوں کے طوفان میں پوری قوم کی نظریں اس وقت آئی ایم ایف سے معاہدے پر مرکوز ہیں، پاکستانی حکام کے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات جاری ہیں اور آئندہ 48 گھنٹوں میں سٹاف لیول معاہدہ ہونے کے امکانات روشن ہیں۔بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) مشن گذشتہ ایک ہفتے سے پاکستان میں ہے اور مخلتف محکموں کے حکام سے نویں جائزے کے لیے مذاکرات کر رہا ہے، پیر تک تکنیکی مذاکرات مکمل ہوئے اور پالیسی مذاکرات کا دور شروع ہو چکا ہے۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے معاشی امور پر رپورٹنگ کرنے والے سینئر صحافی مہتاب حیدر نے بتایا کہ تکنیکی مذاکرات میں بنیادی طور پر مختلف محکموں کا ڈیٹا آئی ایم ایف سے شیئر کیا جاتا ہے اور اس حوالے سے مستقبل کے تخمینے بھی لگائے جاتے ہیں جن پر دونوں اطراف کا اتفاق ضروری ہے، اس کے بعد پالیسی لیول مذاکرات ہوتے ہیں۔
مہتاب حیدر کے مطابق ’آئی ایم ایف اور پاکستانی حکام کے مذاکرت میں اب تک کئی چیزیں طے ہو چکی ہیں مگر کچھ چیزوں پر اب بھی اتفاق رائے نہیں ہے خاص طور پر پیٹرولیم اور توانائی کی قیمتوں کے حوالے سے ابھی بھی آئی ایم ایف کا وفد مطمئن نہیں، تاہم جن چیزوں پر اتفاق رائے ہوا ہے وہ بھی اہم ہیں۔
پاکستان نے آئی ایم ایف کی شرط پر عمل درآمد کرتے ہوئے سرکاری افسران کے لیے اپنے اثاثے ظاہر کرنے کو لازمی قرار دے دیا، پاکستان میں ٹیکس وصول کرنے والے ادارے فیڈرل بورڈ آف ریوینیو (ایف بی آر) نے گریڈ 17 سے 22 تک کے تمام سرکاری افسران اور اُن کے اہل خانہ کو اندرون و بیرون ملک موجود اثاثے ظاہر کرنے کا پابند بنایا ہے۔
ایف بی آر کے نوٹی فیکیشن میں بتایا گیا ہے کہ تمام بینک سرکاری افسران اور ان کے اہل خانہ کے اکاؤنٹس کی تفصیلات ایف بی آر کو دینے کے پابند ہوں گے۔ بینک یہ تفصیلات سال میں دو مرتبہ 31 جنوری اور 31 جولائی کو ایف بی آر کو فراہم کریں گے۔معاشی تجزیہ کار شہباز رانا کے مطابق آئی ایم ایف کے مطالبے پر پاکستان نے نیب اور ایف آئی اے سے متعلق قوانین میں ترمیم پر رضامندی ظاہر کر دی ہے، ان کا کہنا ہے کہ ’آئی ایم ایف کی جانب سے ایسا مطالبہ شفافیت کو یقینی بنانے کے لیے کیا گیا ہے۔
اس حوالے سے آئی ایم ایف کے مطالبے پر قائم ہونے والی پاکستانی ٹاسک فورس نے ترامیم کا مسودہ تیار کیا ہے جس کے مطابق ’نیب اور ایف آئی اے کے دائرہ کار کو واضح اور علیحدہ کیا جائے گا، دونوں محکموں کی استعداد کار بڑھائی جائے گی اور سرکاری محکموں کے اکاؤنٹس کا جائزہ لیا جا سکے گا۔
مہتاب حیدر کے مطابق آئی ایم ایف کے مطالبے پر پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے بجلی کے نرخوں میں چار سے دس روپے اضافہ کرنے اور جنرل سیلز ٹیکس کو 17 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کرنے کی منظوری دے دی ہے، تاہم اب بھی آئی ایم ایف بجلی کے نرخوں میں مزید اضافے کا مطالبہ کر رہا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کا ایک اور بڑا مطالبہ ڈیزل پر موجودہ پیٹرولیم لیوی 40 روپے سے بڑھا کر 50 روپے کرنا ہے، اس کے علاوہ حکومت سے مطالبہ کیا گیا یا تو لیوی میں مزید اضافہ کیا جائے یا پھر پیٹرولیم مصنوعات پر جی ایس ٹی لگایا جائے تاہم ابھی تک پاکستان کی جانب سے اس پر رضامندی ظاہر نہیں کی گئی، پاکستان کی اقتصادی ٹیم اور آئی ایم ایف مشن کے درمیان مذاکرات نو فروری تک مکمل ہونے ہیں، تاہم معاشی ماہرین کے مطابق بوقت ضرورت تاریخ میں مزید توسیع بھی کی جا سکتی ہے۔