پرچی کے بغیر تقریر کرنے والا کپتان کیا واقعی عقل کل ہے؟

کاغذ پر لکھے پوائنٹس یا پرچی دیکھ کر با معنی اور ٹو دی پوائنٹ تقریر کرنے کی بجائے بے تکان لایعنی بونگیاں مارنے پر یقین رکھنے والے عمران خان بارہا ملک کی رسوائی کا باعث بننے کے باوجود یہ طرز عمل چھوڑنے پر تیار نہیں۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ عمران سابق وزیراعظم نواز شریف پر اس لئے تنقید کرتے ہیں کہ وہ تقریر کرتے وقت ہمیشہ پرچی سامنے رکھتے ہیں۔ عمران خان اس کے برعکس فی البدیہہ لایعنی گفتگو کو ترجیح دیتے ہیں اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ وہ ماشااللہ عقل کل ہیں لیکن ایسا کرتے وقت وہ اکثر ایسی بونگیاں مار جاتے ہیں کہ عالمی فورمز پر پاکستان کے لئے شرمندگی کا سبب بن جاتے ہیں۔ مقام افسوس ہے کہ اس سب کے باوجود عمران خان بغیر پرچی کے گفتگو کرنے پر ہی مُصر ہیں لیکن اب انکی اس ضد کو ان کے سیاسی ناقدین کے علاوہ ابلاغ عامہ کے ماہرین بھی نامناسب قرار دینے لگے ہیں اور یاد دلاتے ہیں کہ ڈی چوک میں تقریر کرنا الگ ہے جبکہ وزیراعظم بن جانے کے بعد ملک کی نمائندگی کرتے ہوئے تقریر کرنا مختلف بات ہے۔بلوچ قوم بلوچ قوم تازہ خبریں تازہ خبریں
سی پیک سی پیک
بلوچ قوم بلوچ قوم تازہ خبریں تازہ خبریں
سی پیک سی پیکبلوچ قوم بلوچ قوم تازہ خبریں تازہ خبریں
سی پیک سی پیکبلوچ قوم بلوچ قوم تازہ خبریں تازہ خبریں
سی پیک سی پیکبلوچ قوم بلوچ قوم تازہ خبریں تازہ خبریں
سی پیک سی پیکبلوچ قوم بلوچ قوم تازہ خبریں تازہ خبریں
سی پیک سی پیکبلوچ قوم بلوچ قوم تازہ خبریں تازہ خبریں
سی پیک سی پیک
پچھلے ساڑھے تین برسوں میں کئی بار ایسا ہوا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے کسی بین الاقوامی فورم پر ” ایکسٹمپور” مطلب’’ منہ زبانی ‘‘ یا فی البدیہہ تقریر کی اور جو چیز سرخی بنی، وہ موضوع سے ہٹ کر ان کے کہے گئے جملے یا ریمارکس تھے جو میڈیا کا موضوع بنے اور سوشل میڈیا پر ٹرینڈ کرتے رہے۔ ابتدائی دنوں میں جاپان اور جرمنی کو پڑوسی گرداننے سے لے کر افغان خواتین کے تعلیم اور حقوق کے بارے میں ان کے تازہ ترین وہ ریمارکس تھے، جو او آئی سی کے اسلام آباد کے اجلاس اور اس کے مقصد سے بھی بڑی خبر بن گئے۔ میڈیا اور سوشل میڈیا پر مباحث کا موضوع یہ ریمارکس بنے۔’ایبسولوٹلی ناٹ’ جیسے کمنٹس کو بھی ان کے مداحوں نے ملک کے اندر سراہا لیکن سفارت کاری کی اہمیت کو سمجھنے والوں نے کہا کہ ایک عام آدمی کی ’نہ‘ اور سٹیٹسمین کی ’نہ‘ میں انداز کا فرق ہونا چاہیے تھا۔ اور امریکہ جیسے طاقتور اتحادی ملک کے بارے میں گفتگو میں احتیاط کے تقاضوں کو نظر انداز کیا گیا ہے۔ تازہ ترین انٹرویو میں بھی وزیراعظم نے جب امریکہ کو افغانستان کے اندر موجودہ انسانی بحران کا ذمہ دار قرار دیا تو اس بیان کو بھی نقادوں نے بے احتیاطی قرار دیا ہے۔
مسلم لیگ نواز کے سینئر راہنما احسن اقبال کہتے ہیں کہ عمران کی "منتشرالخیالی” ملک اور ریاست کو نقصان پہنچا رہی ہے۔ بقول احسن، ان کے ذہن میں ڈی چوک کی تقریریں ہیں جو وہ ملک کے اندر بھی کرتے ہیں اور ملک سے باہر بھی۔ ماضی میں عمران نواز شریف پر تنقید کرتے ہوئے کہتے تھے کہ وہ پرچی کے بغیر تقریر نہیں کر سکتے۔ کچھ نقاد ان کو خراب انگریزی بولنے کا طعنہ دیتے تھے۔ اس ضمن میں وزیر برائے اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کہتے ہیں کہ یہ کسی بھی راہ نما کا انتخاب ہے کہ وہ لکھی ہوئی تقریر کریں یا فی البدیہہ تقریر کو ترجیح دیں۔ فواد چوہدری وزیراعظم عمران خان کے فی البدیہہ بات کرنے کو غلط نہیں سمجھتے اور ان کے خیال خواتین کے حقوق سے متعلق عمران کے ریمارکس بھی غیر ذمہ دارانہ یا احساسات سے عاری نہیں تھے، اس کا ایک پس منظر تھا۔ کوئی انسینسیٹو ریمارکس نہیں تھے۔ بقول فواد دیکھیے۔ ونسٹن چرچل بھی لکھی ہوئی تقریر نہیں پڑھتے تھے، برطانیہ کے موجودہ وزیراعظم اور ایک سابق وزیراعظم، جو اب تعلیم کے شعبے کے سربراہ ہیں، وہ بھی لکھی ہوئی تقریر نہیں پڑھتے تھے۔۔۔ عمران خان ہوں، برطانیہ کے وزیراعظم بورس جانسن یا فی البدیہہ بات کرنے والے دنیا کے دیگر راہ نما ہوں، جب وہ بات کرتے ہیں تو سمجھا جاتا ہے کہ ان کے دل اور زبان میں فاصلہ نہیں ہے۔
وزیراعظم عمران خان کے متنازعہ یا غیر حساس سمجھے جانے والے بیانات کے حوالے سے مردان یونیورسٹی میں شعبہ ابلاغیات کے پروفیسر شیراز پراچہ کہتے ہیں کہ عمران خان کا سب سے بڑا مسئلہ ہے کہ وہ خود کو عقل کل سمجھتے ہیں اور خود پسندی کی بیماری میں مبتلا ہیں۔ ان کو لگتا ہے کہ جو وہ کہہ رہے ہیں، وہ حرف آخر ہے۔ ان کی تقاریر میں میں کی تکرار بہت ہوتی ہے۔ وہ اپنی ذات، تجربات اور مشاہدات کو جب بیان کرتے ہیں تو باور یوں کراتے ہیں کہ وہ جیسے مسلمہ اجتماعی سوچ ہو۔ اس سبب ان کے کئی بیانات موضوع گفتگو بنتے ہیں اور ان پر تنقید ہوتی ہے۔ دنیا کی بڑی یونیورسٹییز میں پولیٹیکل کمیونی کیشن بطور مضمون پڑھایا جاتا ہے۔یہ مضمون ’ علم سیاسیات‘ کی ایک ذیلی شاخ کے طور پر لیا جاتا ہے جس میں معلومات کے پھیلاؤ، سیاست پر کمیونی کیشن کے اثرات کا جائزہ لینا سکھایا جاتا ہے۔ پروفیسر پراچہ یاد کرتے ہیں کہ برطانیہ کے سابق وزیراعطم ٹونی بلیئر بہت اچھے مقرر تھے لیکن اس کے باوجود وہ کبھی تیاری کے بغیر کسی موضوع پر بات نہیں کرتے تھے۔ جس موضوع پر ان کو بات کرنا ہوتی وہ پہلے اس شعبے کے ماہرین سے بات کرتے تھے۔ شیراز پراچہ کہتے ہیں کہ کسی واقعے پر بنا سوچے سمجھے ردعمل دینے میں بڑے سے بڑا افلاطون بھی غلطی کر سکتا ہے۔ ان کے بقول کبھی کبھی سخت لفظوں سے اپنا ردعمل ظاہر کرنا پڑتا ہے مگر ہر وقت نہیں۔
سینئر صحافی اور مصنف فاروق عادل کہتے ہیں کہ عمران خان اپنی ’ زبان کے قیدی‘ بن گئے ہیں۔ وہ سابق وزیراعظم نواز شریف کو پرچی دیکھ کر بولنے کا طعنہ دیتے تھے اور اب ان کو اس چیز سے بچنے کے لیے لکھی ہوئی تقریر سے گریز کرنا پڑتا ہے۔ حالانکہ اس میں کوئی حرج نہیں کہ ایک لیڈر یا سٹیٹسمین بین الاقوامی فورمز پر نپے تلے انداز میں، مربوط پیغام پہنچانے کے لیے نوٹس دیکھ کر پڑھے۔ اس کو سٹیٹ کرافٹ میں ٹاکنگ پوائنٹس کہتے ہیں، جن کا کسی پیپر پر درج ہونا کوئی غلط بات نہیں۔ کسی ملک کی نمائندگی کرنا اور سربراہ مملکت کے طور پر بین الاقوامی برادری سے خطاب بڑے اعزاز کی بات ہے اور بڑی ذمہ داری کی بھی بات ہوتی ہے۔ اکثر ہم دیکھتے ہیں کہ عالمی راہ نما فی البدیہہ کوئی بات نہیں کرتے۔ وہ میڈیا ٹاک میں بھی بڑبولے پن کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ وہ نہیں چاہتے کہ ان کی کسی لاعلمی یا ان کی زبان کی پھسلن کی وجہ سے ایسی بات ان کے منہ سے نکل جائے جن سے ان کے ملک کو شرمندگی کا سامنا کرنا پڑے۔ وہ کہتے ہیں کہ عمران خان نے ٹاکنگ پوائٹس سے اجتناب کا جو راستہ اپنے دشمنوں کے لیے اختیار کیا تھا وہ خود اسی سے منفی طور پر متاثر ہو رہے ہیں۔

Related Articles

Back to top button