تحریک انصاف مکافات عمل کا شکار کیسے ہوئی؟

پی ٹی آئی کی وکٹیں گرنے کا سلسلہ تیزی سے جاری ہے جو کہ سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے تک چلتا رہے گا۔ تحریک انصاف کے رہنماؤں اور الیکٹ ایبلز کی ہر روز پارٹی چھوڑنے والی پریس کانفرنسز کے ذریعے عمران خان کے اقتدار کیلئے تحریک انصاف میں جگہ جگہ سے جمع کئے گئے مجسمے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ پی ٹی آئی کے رہنماؤں، اراکین پارلیمنٹ اور کارکنوں کی وفاداری تبدیل کرنے پر جہاں مسلم لیگ نون کے حلقوں میں شادیانے بج رہے ہیں، وہیں کہیں حلقے یہ سوال کر رہے ہیں کہ آخر سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کا یہ سلسلہ کب رکے گا جبکہ کچھ تجزیہ کار تحریک انصاف چھوڑ کر جانے کو مکافات عمل قرار دے رہے ہیں ان کا کہنا ہے کہ تحریک انصاف کوئی نظریاتی جماعت نہیں یہ جس طرح خانہ بدوش سیاستدانوں کے ذریعے وجود میں لائی گئی تھی ویسے ہی ختم ہو رہی ہے۔

کچھ حلقوں میں یہ بات بھی زیر بحث ہے کہ سیاسی جماعتوں میں ٹوٹ پھوٹ کرانے کے ذمہ دار کون ہیں اور آیا اس کی ساری ذمہ داری صرف غیر مرعی طاقتوں پر ڈالی جانی چاہیے یا اس میں سیاسی جماعتوں کا بھی حصہ ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کے مطابق اس وقت اس جماعت کو ایک سخت کریک ڈاؤن کا سامنا ہے۔ اس دوران کارکنان، اراکین پارلیمنٹ اور رہنماؤں کو گرفتار کیا جاتا ہے یا حراست میں لیا جاتا ہے اور پھر جب وہ واپس آتے ہیں تو یا وہ پارٹی چھوڑ دیتے ہیں یا پھر سیاست سے ہی کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں۔ ایسا پی ٹی آئی کے صرف وہ رہنما نہیں کر رہے، جو ماضی میں دوسری سیاسی جماعتوں سے وابستہ رہے ہیں بلکہ تحریک انصاف کے کٹر حامی سمجھے جانے والے رہنما بھی سیاست میں دوبارہ قدم نہ رکھنے کا اعلان کر رہے ہیں۔ اس کی حالیہ مثال سابق وفاقی وزیر برائے انسانی حقوق ڈاکٹر شیریں مزاری کی ہے، جنہوں نے منگل کو ہی سیاست کو خیر باد کہا ہے۔

پاکستان میں سیاسی جماعتوں میں توڑ پھوڑ کوئی نئی بات نہیں ہیں۔ جنرل مشرف کے دور میں پاکستان پیپلزپارٹی کو توڑ کر اس میں سے پاکستان پیپلز پارٹی پیٹریاٹ بنائی گئی، جب کہ نون لیگ کے ارکان کو توڑ کر پاکستان مسلم لیگ قائد اعظم کو تشکیل دیا گیا۔ کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ اس ٹوٹ پھوٹ کی وجہ سیاسی جماعت کے قائدین کا رویہ ہے جبکہ کچھ کے خیال میں یہ ٹوٹ پھوٹ بنیادی طور پر ملک کے مقتدر قوتوں کہ اشارے پر ہوتی ہے۔

 لاہور سے تعلق رکھنے والی عوامی ورکرز پارٹی کی رہنما عابدہ چوہدری کا کہنا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کو توڑنے میں اسٹیبلشمنٹ ملوث ہے۔ انہوں نے بتایا، ”سب کو پتہ ہے کہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کے پاس سارے اختیارات اور طاقت ہے، جو نہ صرف سیاسی جماعتوں کو بناتی ہے بلکہ توڑتی بھی ہے۔ جب تحریک انصاف کو تشکیل دیا گیا تو مختلف جماعتوں کے لوٹوں کو اس میں بھیج دیا گیا اور اب ان پر دباؤ ڈال کر پی ٹی آئی چھوڑنے کا کہا جا رہا ہے۔‘‘عابدہ چودھری کے مطابق پاکستان میں سیاسی جماعتیں صرف کٹھ پتلیاں ہیں، ” اور کٹھ پتلیاں اقتدار میں آنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی خوشامد کرتی ہیں، جس کے نتیجے میں انہیں اقتدار ملتا ہے لیکن اختیار نہیں۔‘‘

پاک سرزمین پارٹی کے سابق سیکریٹری جنرل رضا ہارون کا کہنا ہے کی ٹوٹ پھوٹ کے ذمہ دار سیاسی قائدین بھی ہے۔ انہوں نے بتایا، ”جب سیاسی جماعتوں کے قائدین اپنے آپ کو پارٹیوں سے بھی بڑا سمجھنے لگتے ہیں اور تمام جمہوری اقدار کو پامال کرنے لگتے ہیں پھر اس طرح کی ٹوٹ پھوٹ شروع ہوجاتی ہے۔‘‘

گو کہ پاکستان میں کئی سیاسی جماعتوں میں ٹوٹ پھوٹ ہوئی ہے لیکن کچھ ناقدین کا خیال ہے کہ تحریک انصاف میں ٹوٹ پھوٹ کا یہ عمل کچھ زیادہ ہی تیز ہے۔ گوادر سے تعلق رکھنے والے پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے مشیر عبدالرحیم ظفر کا کہنا ہے کہ پیپلزپارٹی کے خلاف بھی بہت سخت کریک ڈاون کیا گیا تھا لیکن پارٹی کے کارکنان اور رہنماؤں نے اتنی جلدی پارٹی کو خیرباد نہیں کہا تھا، جتنی تیزی سے پی ٹی آئی والے کہہ رہے ہیں۔انہوں نے بتایا، ”ذوالفقار علی بھٹو کی گرفتاری اور پھانسی کے کئی برسوں بعد تک رہنما اور کارکنان مزاحمت کرتے رہے۔ تاہم پی ٹی آئی قائدین چند دن کی حراست بھی برداشت نہیں کر پا رہے اور پارٹی چھوڑ رہے ہیں۔عبدالرحیم ظفر کے خیال میں ماضی میں سیاست نظریاتی بنیادوں پر ہوتی تھی لیکن کیونکہ اب سیاست نظریاتی بنیادوں پر نہیں ہوتی اور جاسوس اداروں کا سیاست میں عمل دخل بہت بڑھ گیا ہے اس لیے سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کا یہ عمل بھی تیز ہے۔

کئی ناقدین کا خیال ہے کہ ملکی سطح پر سب سے زیادہ جبر کا سامنا پاکستان پیپلز پارٹی نے کیا لیکن سندھ کے شہری علاقوں میں ایسا جبر ایم کیو ایم الطاف کے حصے میں آیا۔ ایم کیو ایم لندن کے ڈپٹی کنوینر شاہد رضا کا کہنا ہے ایم کیو ایم کے خلاف سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کا عمل سب سے زیادہ طویل اور سب سے زیادہ سخت رہا۔ انہوں نےبتایا، ”ہمارے کارکنان پر تشدد کیا گیا۔ جیلوں میں بند کیا گیا۔ ان کے گھر والوں کو دھمکی دی گئی اور انہوں نے جب سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے سے منع کیا تو ان کی لاشوں کوپھینک دیا گیا۔‘‘شاہد رضا کے مطابق ایم کیو ایم میں سیاسی وفاداریاں تبدیل کرانے کا سلسلہ انیس سو بانوے سے شروع ہوا۔ پہلے حقیقی، پھر گوگا گروپ اور بعد میں ایم کیو ایم پی اور آخر میں پاک سرزمین پارٹی کو تشکیل دیا گیا۔‘‘ تجزیہ کاروں کے مطابق جب تک سیاسی جماعتیں اپنے اندر جمہوریت نہیں لاتیں اور الیکٹیبلز کے نام والے سیاسی لوٹوں اور خانہ بدوشوں سے جان نہیں چھڑاتیں سیاستدانوں کا پارٹیاں تبدیل کرنےکا سلسلہ چلتا رہے گا۔

Related Articles

Back to top button