حکمران اتحاد کا فل بینچ کیلئے کل پٹیشن دائر کرنے کا فیصلہ

حکمران اتحاد نے وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب کے معاملے میں فل کورٹ بینچ کی تشکیل کیلئے کل سپریم کورٹ میں پٹیشن دائر کرنے کافیصلہ کیا ہے۔

لاہورمیں پریس کانفرنس کرتےہوئےوفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ اور وزیر داخلہ پنجاب عطا تارڑ نے کہاڈپٹی سپیکر پنجاب اسمبلی کی رولنگ آئینی اور قانونی ہے، حمزہ شہباز اکثریتی ووٹ لے کر وزیراعلیٰ پنجاب منتخب ہوئے، ممبران پارٹی قائد کی ہدایت کے مطابق حق رائے دہی کے استعمال کے پابند ہیں، بعض قانونی معاملات حل طلب ہیں، فل کورٹ سماعت کرے۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ ممبران پارٹی اسمبلی قائد کی ہدایت کے مطابق ووٹ دینے کے پابند ہیں، درخواست تیار ہونے سے پہلے ہی لاہور رجسٹری کو کھولا گیا، ایک سیاسی جماعت کے کارکنوں نے سپریم کورٹ لاہور رجسٹری کی دیواریں پھیلانگیں، کیس پر فل کورٹ بیٹھے اور اس کا فیصلہ کیا جائے، کچھ قانونی معاملات ایسے ہیں جو حل طلب ہیں۔

انکا کہنا تھاعدالت فل کورٹ کی درخواست کو سنجیدگی سے سنے، آج سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کے 5 سابقہ صدور نے لارجر بنچ بنانے کا مطالبہ کیا، سیاسی اور آئینی کیسز میں لارجر بنچ یا فل کورٹ تشکیل دیا جائے، ججز کے خلاف ٹرینڈ چلانے کے الزامات کو مسترد کرتے ہیں، ن لیگ عدالتوں کا احترام کرتی ہے، انصاف اور شفافیت کا تقاضہ ہے کہ آرٹیکل 63 اے کی تشریح کا کیس تمام جج سنی۔

اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھاکہ 17 بی اور 63 اے کو ایک ساتھ نہیں پڑھا جاسکتا، معاملے کے مستقل حل کیلئے فل کورٹ بنانا ضروری ہے، طارق بشیر چیمہ کے مطابق (ق) کے ارکان کو فرداً فرداً فیصلے سے آگاہ کیا گیا تھا، 22 کروڑ عوام کے ووٹ کا تقدس پامال نہیں ہونا چاہیے، ایک ہی معاملے پر 2 تشریحات نہیں کی جاسکتیں، فل کورٹ بنانے کا جائزہ مطالبہ ہے اسے افواہوں کی نظر نہیں کرنا چاہیے، طارق بشیر چیمہ نے کہا ٹی سی ایس کے ذریعے بھی ارکان کو پیغام بھجوا دیا گیا تھا، فل کورٹ بٹھانے کے معاملے میں کوئی بدنیتی شامل نہیں ہے۔

صوبائی وزیر داخلہ عطا تارڑنے کہا سوشل میڈیا پر اداروں کے خلاف مذموم مہم چلائی جا رہی ہے، پارٹیاں تبدیل کرنا فواد چودھری کا وطیرہ ہے، ق لیگ کے پارلیمانی پارٹی کا آج تک کسی کو نہیں پتہ، پارٹی قائد کو لامحدود اختیارات حاصل ہیں، معاملے پر فل کورٹ بنانے میں کوئی حرج نہیں ہے، تحریک انصاف کے خط میں پارٹی صدر کی ہدایت کا ذکر ہے، اس خط کی بنا پر ہمارے 25 ووٹ ختم کئے گئے، فواد چودھری سے بڑا خوش آمدی میں نے نہیں دیکھا، فل کورٹ کا مطالبہ معاشرے کا ہر طبقہ کر رہا ہے، ڈپٹی سپیکر کی رولنگ آئینی اور قانونی ہے، چودھری شجاعت کے خط میں لکھا تھا کہ حمزہ شہباز کو ووٹ دینا ہے۔

دریں اثنا سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹویٹر پر ایک پیغام میں وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہاسپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو پیغام دیا کہ ہمارے کیسز فل بینچ کے سامنے پیش کریں،ہماری معزز چیف جسٹس آف پاکستان سے یہ درخواست ہے کہ ہمارے کیسز سپریم کورٹ کے فل بینچ کے سامنے رکھیں۔

رانا ثنا اللہ نے کہا جن ججوں نے ہماری قیادت کے خلاف بلیک لا ڈکشنری اور قابل وصول آمدنی کے نام پر فیصلے دیے، انہیں ہمارے مقدمات کی سماعت کرنے والے بینچ کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔

یاد رہے کہ حکمران اتحاد نے مشترکہ و متفقہ اعلامیہ جاری کرتے ہوئے چیف جسٹس آف پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وزیراعلیٰ پنجاب کے انتخاب سے متعلق مقدمے کی فل کورٹ سماعت کی جائے،انصاف کا تقاضہ ہے کہ سپریم کورٹ بار کی نظرِ ثانی درخواست اور دیگر متعلقہ درخواستوں کو عدالت عظمیٰ کے تمام معزز جج صاحبان پر مشتمل فل کورٹ ایک ساتھ سماعت کے لیے مقرر کرکے اس پر فیصلہ جاری کرے۔

متفقہ اعلامیہ میں اس مطالبے کی وجہ بتاتے ہوئے کہا گیا کہ یہ بہت اہم قومی، سیاسی اور آئینی معاملات ہیں، جس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے سیاسی عدم استحکام کی بھاری قیمت ملکی معیشت دیوالیہ پن کے خطرات اور عوام مہنگائی، بے روزگاری اور غربت کی صورت میں ادا کر رہے ہیں، عمران خان بار بار سیاست میں انتشار پیدا کر رہے ہیں جن کا مقصد احتساب سے بچنا، اپنی کرپشن چھپانا اور چور دروازے سے اقتدار حاصل کرنا ہے۔

اعلامیہ میں کہا گیا کہ آئین نے مقننہ، عدلیہ اور انتظامیہ میں اختیارات کی واضح لکیر کھینچی ہوئی ہے جسے ایک متکبر آئین شکن فسطائیت کا پیکر مٹانے کی کوشش کر رہا ہے، یہ دراصل پاکستان کے آئین، عوام کے حق حکمرانی اور جمہوری نظام کو بھی معیشت کی طرح دیوالیہ کرانا چاہتا ہے، یہ سوچ اور رویہ پاکستان کے ریاستی نظام کےلئے دیمک بن چکا ہے۔

اتحادی جماعتوں کےمتفقہ اعلامیے میں کہا گیا حکمران اتحاد میں شامل جماعتیں اس عزم کا واشگاف اعادہ کرتی ہیں کہ آئین، جمہوریت اور عوام کے حق حکمرانی پر ہر گز کوئی سمجھوتہ نہیں ہوگا، ہر فورم اور ہر میدان میں تمام اتحادی جماعتیں مل کر آگے بڑھیں گی اور فسطائیت کے سیاہ اندھیروں کا ڈٹ کر مقابلہ کریں گی۔

واضح رہے کہ پنجاب اسمبلی میں 22 جولائی کو وزیر اعلیٰ پنجاب کا انتخاب ہوا، جس میں پاکستان مسلم لیگ (ن) کے حمزہ شہباز دوبارہ وزیر اعلیٰ منتخب ہوگئے،انتخاب میں حمزہ شہباز کو 179ووٹ جبکہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) اور مسلم لیگ (ق) کے امیدوار پرویز الٰہی کو 186 ووٹ ملے، تاہم صوبائی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر دوست محمد مزاری نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے تحت پرویز الہٰی کو ملنے والے ووٹوں میں سے (ق) لیگ کے تمام 10 ووٹ مسترد کردیے تھے جس کے بعد حمزہ شہباز 3 ووٹوں کی برتری سے وزیر اعلیٰ پنجاب منتخب ہو گئے تھے۔

اس کے بعد وزیراعلیٰ کے انتخاب کے دوران ڈپٹی اسپکر کی رولنگ اور مسلم لیگ (ق) کے 10 ووٹس مسترد کیے جانے کے خلاف مسلم لیگ (ق) کے رہنما پرویز الٰہی نے سپریم کورٹ میں درخواست دی تھی،سپریم کورٹ نے پرویز الٰہی کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے 3 رکنی بینچ تشکیل دے دیا جبکہ حمزہ شہباز، چیف سیکریٹری پنجاب کو نوٹس بھی جاری کر دیے گئے ہیں۔

عدالت عظمیٰ کے چیف جسٹس نے ہدایت کی کہ ڈپٹی اسپیکر الیکشن کا مکمل ریکارڈ بھی عدالت میں پیش کریں اور آ کر بتائیں سپریم کورٹ کے فیصلے کے کس پیرا کی بنیاد پر رولنگ دی،اس کے علاوہ سپریم کورٹ نے اٹارنی جنرل پاکستان کو بھی نوٹس جاری کردیے اور ایڈووکیٹ جنرل پنجاب بھی معاونت کے لیے طلب کر لیا۔

Related Articles

Back to top button