اسٹیبلشمنٹ عمران کو مزید وقت دینے کے موڈ میں نہیں


سینئر صحافی اور تجزیہ کار کامران خان نے وزیراعظم عمران خان کے بعض اقدامات کو ناقابل فہم اور ناقابل معافی قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ ان کی غلط فیصلہ سازی سے ناصرف حکومت بلکہ ملک کا بھی شدید نقصان ہوا ہے اور اسٹیبلشمنٹ اب انہیں مذید وقت دیتی ہوئی نظر نہیں آتی۔ ساڑھے تین برس تک عمران حکومت کی قصیدہ گوئی کرنے والے کامران خان نے مایقس ہونے کے بعد اپنے دل کی بھڑاس سلیم صافی کے یوٹیوب چینل کے لیے انٹرویو میں نکالی۔ خیال رہے کہ کامران خان کے بارے میں عام تاثر یہی ہے کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کے آدمی ہیں۔ انھیں جو کہا جائے، وہ وہی کرتے ہیں اور ان کی اپنی کوئی رائے نہیں ہوتی۔ سلیم صافی کے ساتھ گفتگو کے دوران کامران خان نے اس تاثر کی نفی کی کہ وہ اسٹیبلشمنٹ کی زبان بولتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میں نے تبدیلی کو سپورٹ کیا تھا لیکن اب ساڑھے تین سال بعد بھی جب عمران خان ڈیلیور ہی نہیں کر پا رہے تو میں کیوں ان کی حمایت کروں، میں ایسا ہرگز نہیں کر سکتا۔
انہوں نے کہا کہ پاناما کیس اور مسلم لیگ ن کی حکومت کا خاتمہ ہماری نظروں کے سامنے ہوا۔ مورخ اس کے بارے میں نہ جانے کب تک لکھتا رہے گا۔ اس میں کوئی چھپے ہوئے معاملات نہیں تھے۔ یہ واضح تھا کہ ن لیگ کی حکومت کو ختم کرنا ہے اور پھر اسے ختم کرکے دکھایا گیا۔
کامران خان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کو تاحیات نااہل کیا گیا اور پھر انھیں ان کی بیٹی سمیت گرفتار کیا گیا۔ انکا کہنا تھا کہ نواز شریف کے حوالے سے کئی اور فیصلے ایسے آئے جن کا مقصد واضح طور پر ن لیگ کے سیاسی مستقبل کو تالے لگانے تھا۔
کامران خان نے کہا کہ اس کے بعد منصوبے کے مطابق نظام تبدیل ہو گیا اور پاکستان میں تحریک انصاف کی حکومت برسراقتدار آ گئی۔ عمران خان کو آتے ہی جن بے پناہ معاشی چینجلز کا سامنا کرنا پڑا، اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔ کامران کہتے ہیں کہ میں نے سوچا کہ ہم کب تک منتخب حکومتوں کو غلط کہتے رہیں گے، چلیں اب کپتان کو بھی آزما کر دیکھتے ہیں جو ملک میں تبدیلی کی بات کر رہا ہے۔
تاہم افسوس کہ ڈیلیور کرنے کے بجائے کپتان حکومت منہ کے بل جا گری جس کا خمیازہ پاکستانی عوام کو بھگتنا ہڑ رہا یے۔ انہوں نے حکومت کی پالیسیوں پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بعض ایسے ایشوز سامنے آئے جو ناقابل فہم اور ناقابل معافی تھے۔ مثال کے طور پر عمران خان کا عثمان بزدار کو ناکامی کے باوجود وزیراعلیٰ پنجاب کے عہدے پر تعینات رکھنے پر بضد رہنا۔ اسکے علاوہ پنجاب میں 6 آئی جیز کو تبدیل کر دینا، 6 چیف سیکرٹری تبدیل کر دینا اور پھر اسی انداز کو وفاق میں بھی اپلائی کرنا۔ ہر چند ماہ کے بعد اہم عہدوں پر تعینات افسروں کو بدل دینا، تین وزرائے خزانہ، 6 سیکرٹری خزانہ اور بورڈ آف انوسٹمنٹ کے 6 سربراہوں کو بدلنا، یہ سب اس بات کی نشانی ہے کہ عمران کی فیصلہ سازی مستحکم نہیں ہے۔
کامران خان نے کہا کہ اتنے اہم معاملات پر اتنی غیر پختہ فیصلہ سازی سے ملک کو کافی نقصان ہوا ہے۔ وزیر اعظم سے پالیسی کی سمت ہی درست نہیں ہو سکی۔ ہر سال گیس کا بحران پیدا ہو رہا ہے۔ پاکستان کے گردشی قرضے گیارہ سو ارب سے بڑھ کر 2600 ارب ہو گئے ہیں۔ اس کی ذمہ داری تو عمران کو لینا پڑے گی۔ پروگرام کے دوران گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اب ہم کیسے کہہ دیں کہ سب اچھا ہو رہا ہے۔ ملک کی جو صورتحال ہو چکی ہے، اس میں معافی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ملک کو جو معاشی مسائل ہیں اس کیلئے مشترکہ سوچ پر عمل ہونا چاہیے تھا۔ شہباز شریف نے اسمبلی کے فلور پر کھڑے ہو کر چارٹر آف اکانومی کی تجویز پیش کی تھی لیکن عمران خان نے اسے انتہائی بری طریقے سے رد کر دیا۔ قومی سلامتی کے اہم معاملات میں بھی انہوں نے اپوزیشن کیساتھ بیٹھنا گوارا نہیں کیا۔
ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے کامران خان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ ملک کو عدم استحکام کی طرف ڈالنے کا سوچ بھی نہیں سکتی۔ ہمیں یہ بات ذہن میں رکھنی چاہیے کہ خطے میں عالمی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔ پوری دنیا ہمارے طرف دیکھ رہی ہے، ہم کسی بھی غلطی، تجربات اور آزمائشں کرنے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ لیکن عمران خان نے اپنے ہاتھ سے اپنی مقبولیت کو فنا کیا ہے لہذا اب اسٹیبلشمنٹ انہیں مزید وقت دینے کے موڈ میں نہیں ہے۔

Related Articles

Back to top button