سندھ حکومت اور فوجی عدالتوں کا کیا چکر چل رہا ہے؟

سندھ حکومت کے انکار کے بعد فوجی عدالتوں میں شہریوں کے ٹرائلز کالعدم قرار دینے کے عدالتی فیصلے کے خلاف سندھ حکومت کی دائر کردہ ‘گمنام’ اپیل کا معاملہ موضوعِ بحث بنا ہوا ہے۔

خیال رہے کہ اس خبر کو جمعے کو کچھ نیوز چینلز نے بریکنگ نیوز کے طور پر نشر کیا جس کے مطابق سندھ حکومت کی تیار کردہ درخواست سپریم کورٹ کے ایڈووکیٹ آن ریکارڈ کے پاس پہنچ چکی ہے۔تاہم سندھ حکومت کی جانب سے اگلے روز واضح تردید سامنے آ گئی اور کہا گیا کہ صوبے کی جانب سے ایسی کوئی اپیل دائر نہیں کی گئی۔

واضح رہے کہ وفاقی حکومت اور ملک کے دیگر تین صوبوں نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف اپیلیں دائر کر رکھی ہیں اور سندھ حکومت کی وضاحت کے بعد اب سندھ واحد صوبہ ہے جس نے اس معاملے پر اپیل دائر نہیں کی۔لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سندھ حکومت کا نام استعمال کرکے وہ اپیل کس نے اور کیوں تیار کی تھی؟ اور اس کا مقصد کیا تھا؟

ڈرافٹ اپیل پر وکیل کا نام جہانزیب اعوان درج ہے جو بارایٹ لا ہونے کے ساتھ کراچی میں آسٹریلیا کے اعزازی کونسل جنرل بھی ہیں۔مجوزہ اپیل میں درخواست گزار نے سپریم کورٹ کے گزشتہ ماہ سنائے گئے پانچ رکنی بینچ کے فیصلے کو چیلنج کیا تھا۔ ۔جہانزیب اعوان نے مجوزہ اپیل میں مؤقف اختیار کیا کہ بینچ نے آئین کے آرٹیکل 184 کی غلط تشریح کرتے ہوئے فیصلہ سنایا جبکہ آرمی ایکٹ کی بعض دفعات کو آئین کے خلاف قرار دینے پر بھی سوال اٹھایا گیا ہے۔اپیل کے مطابق یہ حملے بظاہر منصوبہ بندی کے تحت کرائے گئے تھے جس کا مقصد یہ تھا کہ مسلح افواج کے اندر دراڑ پیدا کرنے کے لیے فوج کے کمانڈ اینڈ کنٹرول کو کمزور کیا جائے۔

سندھ حکومت کی جانب سے گمنام اپیل بارے سابق ایڈووکیٹ جنرل سندھ بیرسٹر ضمیر گھمرو کہتے ہیں کہ صوبائی حکومت اگر یہ سمجھتی ہے کہ اسے کسی بھی معاملے میں سپریم کورٹ میں اپیل میں جانا ہے تو وہ وزیر اعلیٰ سندھ کی اجازت سے ہی ایسا کر سکتی ہے۔تاہم دیگر درخواستوں کے مطالعے سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ فیصلے کے خلاف دائر دیگر تین صوبوں اور وفاق کی اپیلوں کا سیاق و سباق بھی مذکورہ ڈرافٹ پٹیشن کے ساتھ ملتا جلتا ہی ہے اور ایسا لگتا ہے کہ اس کا مصنف ایک ہی ہے۔

ادھر سندھ حکومت کے ذرائع نے بتایا کہ نگراں وزیرِ اعلیٰ جسٹس (ر) مقبول باقر نے اس معاملے پر شدید ناراضی کا اظہار کیا ہے اور اس خبر کی سختی سے تردید جاری کرنے کی ہدایات جاری کی ہیں۔

محکمہ قانون کے ایک افسر کے مطابق اپیل دائر کرنے کے لیے “باہر” سے ان پر شدید دباؤ تھا۔ لیکن محکمے کا مؤقف تھا کہ چونکہ صوبے کے دائرہ اختیار میں کوئی ملٹری کورٹ اس وقت کام نہیں کر رہی لہذا صوبے کو اس معاملے میں اپیل میں جانے کی ضرورت ہی نہیں ہے۔اُن کے بقول یہی وجہ ہے کہ ایڈووکیٹ جنرل سندھ کے آفس سے ایسی کوئی اپیل سپریم کورٹ کو فائل کے لیے ارسال ہی نہیں کی گئی۔

ادھر سپریم کورٹ میں رپورٹنگ کرنے والے ایک سینئر صحافی نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پربتایا کہ یہ کیس غلط رپورٹنگ کا ہے۔اُن کے بقول صوبائی حکومت کی جانب سے ایسی کوئی اپیل نہ تو فائل ہوئی اور نہ ہی اسے پٹیشن نمبر الاٹ کیا گیا جس کے بعد یہ سمجھا جاتا ہے کہ رسمی طور پر اپیل دائر کر دی گئی ہے۔اُنہوں نے دعویٰ کیا کہ کچھ خفیہ ہاتھ حکومت سندھ کی جانب سے اپیل دائر کرنا چاہتے تھے۔ لیکن ایسے میں وزیر اعلیٰ سندھ خود اس میں رکاوٹ بن کر کھڑے ہو گئے اور یوں یہ کوشش بظاہر ناکام ہوئی ہے۔

Related Articles

Back to top button