سیاسی مقدمات جسٹس فائز عیسیٰ کے لیے بڑا چیلنج کیسے؟

پاکستان میں گذشتہ کئی سالوں سے جاری ’جوڈیشل ایکٹوزم‘ کے سائے میں ملک کے انتیسویں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیلئےکئی چیلنجز منتظر دکھائی دیتے ہیں۔وکلا اور قانونی ماہرین کے مطابق ان چینلجز میں عدلیہ کی غیرجانبداری کو یقینی بنانا، سپریم جوڈیشل کونسل میں ججز کے خلاف ریفرنسز کا معاملہ، زیر سماعت سیاسی درخواستوں کے فیصلے، سپریم کورٹ میں ججز کی تقرری کا معاملہ اور بظاہر شروع ہوتی وکلا تحریک بھی شامل ہیں۔ اس حوالے سے نظریں نئے چیف جسٹس پر مرکوز ہیں۔

حالیہ سیاسی منظرنامے میں جس طرح عدالتی فیصلوں کے اثرات مرتب ہوئے ان پر سیاسی حلقوں میں بھی بحث ومباحثے ہوتے رہے ہیں۔عدلیہ اور پارلیمنٹ کے درمیان تناؤ کے تاثر میں جب سیاسی رہنماؤں نے ججز پر جانبداری کا الزام لگایا تو یہ معاملہ مزید سنگین ہوتا چلا گیا جس کے اثرات جمعے کو پارلیمنٹ کی جانب سے نیب ترامیمی ایکٹ کے خلاف فیصلے سے بھی ظاہر ہوئے۔سیاسی حمایت یا مخالفت اپنی جگہ لیکن وکلا برادری نے نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے آئین وقانون کی عمل داری و بالادستی، عدالتی اصلاحات، ججز کا احتساب، ججز کی تقرری کا شفاف طریقہ کار اور غیر سیاسی فیصلوں کی امید ظاہر کی ہے۔ان کے مطابق اس صورت حال میں عہدہ سنبھالتے ہی جسٹس عیسیٰ کو تمام اداروں، بار ایسوسی ایشنز، سیاسی جماعتوں اور عوامی مفادات کے لیے متوقع کردار کیسے ادا کرنا ہے یہ ان کی صلاحیتوں کا امتحان ہوگا۔

پنجاب بار کونسل کے رکن رانا محمد آصف کے مطابق ’ہمیشہ سے عدالتی غیرجانبداری کا سوال اعلیٰ اور ماتحت عدلیہ کے سامنے چیلنج بن کر کھڑا رہا ہے۔ آئین و قانون کے مطابق فیصلوں سے ہی غیرجانبداری کا عنصر سامنے آتا ہے لیکن جس طرح ملکی نظام میں لاقانونیت اور اختیارات میں تجاوز جیسے مسائل بڑھتے جا رہے ہیں اس میں قانون پر عمل داری عدالتی غیر جانبداری کے باعث ہی ممکن ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’بدقسمتی سے انصاف کے ایوانوں میں بھی دوہرے معیار اپنائے جاتے ہیں۔ ایک ہی طرح کے جرم میں مختلف فیصلوں سے عدلیہ پر عوام کا اعتماد کم ہوتا جا رہا ہے۔ سیاسی شخصیات کے خلاف مقدمات میں بھی پہلے سے لگائے گئے اندازوں کے مطابق فیصلے ہی جانبداری کو جنم دیتے ہیں۔ لہذا اعلیٰ عدلیہ کی جانب سے فیصلوں کے اثرات ماتحت عدلیہ پر بھی پڑتے ہیں اور وہاں بھی میرٹ پر فیصلے ایک خواب بنتا جا رہا ہے۔‘رانا آصف کے بقول، ’جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی بطور جج کارکردگی اور ان کی آٓئینی بالادستی پر یقین رکھنے کے باعث ان سے عدالتی غیرجانبداری کو توقع بھی زیادہ ہے۔ جس طرح وہ آئین کی کتاب ساتھ رکھتے ہیں اور لہرا کر کہتے ہیں اس کے مطابق عمل ہونا چاہیے تو اب انہیں عملی طور پر تمام چیلنجز سے نمٹنا ہے۔ ناصرف وکلا بلکہ عوام کی نظریں بھی ان پر لگی ہیں۔‘

عوام اور وکلا میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ ججز کے احتساب کے لیے موجود فورم سپریم جوڈیشل کونسل میں بھی ذاتی پسند نہ پسند کی بنیاد پر کارروائی کی جاتی ہے کیونکہ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف صدارتی ریفرنس پر تو کارروائی ہوئی لیکن اس کے بعد دیگر ججز کے خلاف دائر دائر ہونے والے ریفرنسز پر کوئی شنوائی نہیں ہوسکی۔

ایڈووکیٹ ہائی کورٹ میاں داؤد کی جانب سے چیف جسٹس عمر عطا بندیال، جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ اے ملک، جسٹس سید حسن اظہر رضوی اور جسٹس شاہد وحید کے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر ہے۔ جس کے مطابق ان ججز کی جانب سے 14 اپریل کو آئینی درخواستوں پر سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل 2023 کے خلاف حکم امتناعی دیا گیا جو کہ ’خلاف قانون اور پارلیمنٹ کے دائرہ اختیار میں مداخلت ہے۔‘

پاکستان میں اکثر سیاسی جماعتیں اپنے سیاسی تنازعات لے کر عدالت عظمیٰ پہنچ جاتی ہیں۔ ان جماعتوں پر الزام ہے کہ سیاسی مسائل کو وہ پارلیمان کی بجائے عدالتوں میں گھسیٹتے ہیں، جو کسی طور اچھا رجحان نہیں۔

نائب صدر ہائی کورٹ بار لاہور رابعہ باجوہ کے مطابق ’نامزد چیف جسٹس کے لیے سب سے اہم کام سپریم کورٹ میں زیر سماعت اہم سیاسی درخواستوں پر فیصلے دینے کا ہے۔ ان میں نو مئی کے واقعات پر فوجی عدالتوں میں عام شہریوں کے ٹرائل کا معاملہ، سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر بل، آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح، سپریم کورٹ میں ججزکی سنیارٹی کے خلاف تعیناتی اور آئین کے مطابق 90 روز میں عام انتخابات کرانے، ججز کی آڈیو لیکس کمیشن سے متعلق درخواستیں شامل ہیں۔‘انہوں نے کہا کہ ’یہ ایسی درخواستیں ہیں جن پر نئے چیف جسٹس سے نہ صرف فوری فیصلے بلکہ آئین و قانون کے مطابق فیصلوں کی توقع کی جا رہی ہے۔ ان درخواستوں پر فیصلوں سے ہی اندازہ ہوسکے گا کہ ان کی ترجیحات کیا ہیں اور کیا وہ واقعی آئینی بالادستی کے لیے عملی اقدامات کرنا چاہتے ہیں۔‘رابعہ باجوہ کے بقول: ’سپریم کورٹ میں زیر سماعت ان درخواستوں پر قانون کے مطابق فیصلے سیاسی بحران میں بھی کمی کا سبب بن سکتے ہیں اور عدالتی فیصلوں پر مہم جوئی کا خاتمہ بھی ممکن ہوگا۔ کسی بھی سیاسی جماعت یا کارکنوں کو تنقید کا موقع بھی نہیں ملے گا۔ عالمی سطح پر رینکنگ بھی بہتر ہوگی اور عدلیہ کے وقار میں اضافہ ہوگا۔پاکستان میں سیاسی عدام استحکام کی وجہ سے تقریبا ہر ادارے کا سربراہ جانے کے بعد متنازع ہو جاتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ نئے چیف جسٹس کس حد تک دامن بچا پائیں گے۔

Related Articles

Back to top button