شہباز کو اسمبلی توڑنے اور الیکشن کرانے سے نواز نے روکا تھا

سابق وزیراعظم نواز شریف نے انکشاف کیا ہے کہ انہوں نے مئی 2022 کے دوسرے ہفتے میں شہباز شریف کو بطور وزیر اعظم استعفیٰ دینے اور نئے الیکشن کا راستہ ہموار کرنے کے لیے کہہ دیا تھا، لیکن پھر عمران خان کی جانب سے حکومت مخالف لانگ مارچ کے اعلان کے بعد ہم نے ڈٹ جانے کا فیصلہ کیا اور میں نے شہباز شریف کو فون کر کے ہدایت کر دی کہ ’’ہم حکومت جاری رکھیں گے، اور ہم استعفیٰ نہیں دے رہے‘۔
نواز شریف نے یہ انکشاف معروف اینکر پرسن اور صحافی جاوید چوہدری کے ساتھ لندن میں بالمشافہ گفتگو میں کیا۔ بڑی عید کے دوسرے روز نواز شریف کے لندن دفتر میں ہونے والی ملاقات کا حال بیان کرتے ہوئے جاوید چوہدری بتاتے ہیں کہ میاں صاحب کے لہجے کی شگفتگی برقرار تھی، وہ مذاق بھی کر رہے تھے اور اپنے مخصوص شرمیلے انداز میں ہنس بھی رہے تھے۔ وہ بتاتے ہیں کہ میرے ایک سوال پر نواز شریف تسلیم کیا کہ میں چاہتا تھا عمران عوامی دبائو کے ذریعے فارغ ہو، اور ہم اسکے خلاف تحریک عدم اعتماد نہ لائیں لیکن بد قسمتی سے ہمیں دوسرے آپشن پر جانا پڑ گیا۔ بقول میاں صاحب، میں نئے الیکشن چاہتا تھا اور حکومت نہیں بنانا چاہتا تھا۔ جب 3 اپریل کو سپریم کورٹ نے سوموٹو لیا تو ہمارا خیال تھا عدالت نظریہ ضرورت کے تحت نئے الیکشن کا اعلان کر دے گی لیکن عدالت نے اسمبلی توڑنے کا فیصلہ ریورس کر دیا اور یوں ہمیں 11 اپریل کو اچانک حکومت بنانا پڑ گئی۔ لیکن میں حکومت بنانے کے بعد بھی نئے الیکشن کی طرف جانا چاہتا تھا۔ ہم 11مئی کو لندن میں اکٹھے ہوئے اور یہ فیصلہ کیا کہ شہباز شریف وزارت عظمیٰ سے استعفیٰ دے دیں گے۔ ہم نے سوچا کہ قومی اسمبلی اس کے بعد بے شک نیا وزیراعظم چن لے یا پھر اسمبلی ٹوٹ جائے۔ اس حوالے سے شہباز شریف کی تقریر بھی تیار ہو چکی تھی، لیکن جب عمران خان نے لانگ مارچ کا اعلان کر دیا تو میں نے شہباز شریف کو فون کر کے کہا کہ ہم حکومت جاری رکھیں گے اور اب استعفیٰ نہیں دیں گے۔ میں نے شہباز سے کہا کہ الیکشن اب اگلے سال ہی ہوں گے اور یوں ہم ڈٹ گئے۔
جاوید چوہدری کے بقول میں نے پوچھا میاں صاحب، ’’اگلے الیکشن کب ہوں گے؟‘‘ ان کا جواب تھا ’’اگست 2023 میں حکومت کی مدت پوری ہو گی اور اکتوبر میں الیکشن ہوں گے، لیکن ہم اس سے قبل معیشت کو ٹریک پر لائیں گے۔
جاوید چوہدری کے بقول لندن میں ہونے والی ملاقات کے دوران نواز شریف مذاق بھی کر رہے تھے اور مخصوص شرمیلے انداز سے ہنس بھی رہے تھے لیکن ان کی صحت اور جذبہ دونوں ماند تھے۔ ان گلے میں خراش تھی اور انھیں سننے میں بھی دقت محسوس ہو رہی تھی۔ حسین نواز نے بتایا‘ ان کا علاج چل رہا ہے اور پروسیجر بھی ہوئے ہیں لیکن دل کے عوارض اور گردے اور مثانے کے مسائل ابھی تک موجود ہیں۔ جاوید کہتے ہیں کہ مجھے میاں صاحب کے دفتر میں تین گھنٹے گزارنے کا موقع ملا۔ مجھے محسوس ہوا کہ تین واقعات نے ان کے ذہن اور روح پر گہرے اثرات چھوڑے ہیں۔ ہعنی بیگم کلثوم نواز اور والدہ کے انتقال اور جولائی 2018 میں مریم نواز کی انکی آنکھوں کے سامنے گرفتاری۔ نواز شریف 10 ستمبر 2018 کو بیگم صاحبہ سے فون پر بات کرنا چاہتے تھے لیکن جیل سپرنٹنڈنٹ نے انھیں ٹیلی فون کی اجازت نہیں دی تھی اور یوں 11 ستمبر کی صبح سوا گیارہ بجے بیگم صاحبہ کا انتقال ہو گیا۔ میاں صاحب کو آخری مرتبہ بات نہ کر سکنے کا قلق ہے۔ ان کا خیال ہے کہ جیل حکام کو عمران خان نے روک دیا تھا، انھوں نے اس زمانے میں کہا تھا‘ اللہ تعالیٰ کسی کو کم ظرف دشمن نہ دے، اسی وجہ سے نواز شریف اپنی والدہ کو لحد میں بھی نہیں اتار سکے تھے۔ پھر 13 جولائی 2018 کو پولیس نے ان کے سامنے مریم نواز کو گرفتار کر لیا تھا۔ یہ واقعہ بھی سانحہ بن کر ان کے دل اور دماغ پر ثبت ہو گیا اور وہ اب تک ان تینوں واقعات کے اثرات سے باہر نہیں آ سکے۔
جاوید چوہدری بتاتے ہیں کہ نواز شریف ملکی حالات کے بارے میں پریشان تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم نے 75 سال برباد کر دیے، ہمارے پاس اب زیادہ وقت نہیں بچا، ہمیں ملک میں قانون اور آئین کی حکمرانی قائم کرنا ہوگی، اس کے علاوہ کوئی چیز ملک کو نہیں بچا سکتی۔ ان کا کہنا تھا ہمیں یہ فیصلہ بھی کرنا ہو گا کہ پاکستان میں اصل اختیارات کس کے پاس ہیں؟ انکا۔کہنا تھا کہ ایک ملک میں جب تین تین اتھارٹیز ہوں گی، اور صدر اور آرمی چیف کے ساتھ ساتھ چیف جسٹس بھی انتظامی فیصلے کریں گے اور وزیراعظم صرف مار کھانے کے لیے ہو گا تو پھر ملک کیسے چلے گا؟ ان کا کہنا تھا ’’وزارت عظمیٰ کیا ہے اور کوئی انسان اس بے اختیار عہدے کے لیے اتنی مار کیوں کھائے؟‘‘ وہاں ان کے چھوٹے صاحب زادے حسن نواز بھی بیٹھے تھے‘ میاں صاحب نے ان کی طرف اشارہ کر کے کہا‘ مجھے اس سے تنخواہ نہ لینے کے جرم میں ڈس کوالی فائی کیا گیا‘ حسن نواز نے لقمہ دیا اور وہ کمپنی بھی 2013ء میں ختم ہو گئی تھی‘ میاں صاحب کا کہنا تھا‘ میں تین بار وزیراعظم رہنے کے باوجود یہاں لندن میں بیٹھا ہوں‘ کیا میرے ساتھ یہ سلوک ہونا چاہیے تھا؟
سینئر صحافی کا کہنا ہے کہ گفتگو کے دوران میاں صاحب بار بار مجھ سے یہ پوچھ رہے تھے کہ آپ بتائیں ہم پیچھے کیوں جا رہے ہیں؟ انڈیا کی دو کمپنیوں کا ریونیو پاکستان کے ٹوٹل ریونیو سے زیادہ کیوں ہے اور بنگلہ دیش ہم سے آگے کیوں نکل رہا ہے؟ میں نے ان سے پوچھا کہ۔آپ بتائیں ’’وے فارورڈ کیا ہے؟‘‘ ہم ملک کو مسائل سے کیسے نکال سکتے ہیں؟ اس پر میاں صاحب نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ آپ اس بارے مجھ سے ذیادہ اچھی طرح جانتے ہیں۔
جاوید چوہدری بتاتے ہیں کہ اسحاق ڈار بھی میری نواز شریف سے ہونے والی لندن ملاقات میں موجود تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کب واپس آ رہے ہیں؟ ان کا کہنا تھا کہ ان شاء اللہ جولائی کے آخر میں لیکن میں چاہتا ہوں کہ میں اشتہاری کے اسٹیٹس کے ساتھ ملک میں قدم نہ رکھوں لہٰذا میرے وکلاء سپریم کورٹ سے درخواست کر رہے ہیں کہ میرے خلاف کیسز غلط ہیں‘ تین سال سے میرا پاسپورٹ بھی ختم ہو چکا تھا‘ میں آنا بھی چاہتا تو نہیں آ سکتا تھا‘ میرا علاج بھی ہوتا رہا‘ میرے پاس تمام دستاویزات بھی موجود ہیں لہٰذا عدالت میرا اشتہاری کا اسٹیٹس ختم کر دے‘ مجھے اگر عدالت سے میرا یہ حق مل گیا تو ٹھیک ورنہ میں بھی چوہدری تنویر اور بابر غوری کی طرح آ کر عدالت سے ضمانت کرا لوں گا لیکن آئوں گا ضرور۔ سینئر صحافی نے اسحق ڈار سے پوچھا کہ کیا یہ بات درست ہے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی بطور آرمی چیف تقرری آپنے کرائی تھی اور چوہدری نثار جنرل اشفاق ندیم کو چیف بنانا چاہتے تھے۔ ڈار صاحب نے اس کی تائید کی۔ ان کا کہنا تھا میرا بری امام سرکار کی نسبت سے ان سے رابطہ تھا‘ میاں صاحب اور میں دونوں جنرل باجوہ کے حق میں تھے‘ ہمیں جنرل صاحب سے کوئی گلہ بھی نہیں‘ ہمیں انھوں نے کبھی تکلیف نہیں دی‘ وہ ایک اچھے انسان ہیں‘ اور ان کے فادر اِن لاء جنرل اعجاز امجد میرے پرانے جاننے والے تھے۔
جاوید چودھری کے بقول میں نے حسین نواز سے پوچھا ’’کیا حمزہ شہباز کو وزیراعلیٰ پنجاب بنانا ٹھیک فیصلہ تھا؟‘‘ یہ بولے ’’یہ قدرت کا فیصلہ تھا‘ اتحادی پرویز الٰہی کو وزیراعلیٰ بنا چکے تھے‘ چوہدری صاحب اگر عین وقت پر اپنا راستہ نہ بدلتے تو وہ وزیراعلیٰ ہوتے‘‘ میں نے پوچھا ’’چوہدری صاحب نے اپنا فیصلہ کیوں تبدیل کیا؟‘‘ وہ بولے ’’مجھے اس سلسلے میں زیادہ معلومات نہیں ہیں‘‘ میں نے پوچھا ’’کیا یہ بات درست ہے چوہدری مونس الٰہی کو عین وقت پر ایک فون آ گیا تھا اور انھوں نے اپنا فیصلہ تبدیل کر لیا‘‘ حسین نواز نے جواب دیا ’’میں نے بھی یہ بات سنی تھی لیکن مجھے یہ کنفرم نہیں ہے۔ مجھے اطلاع ملی تھی کہ مونس الٰہی نے کمرے کے دروازے کو کنڈی لگا کر خواجہ سعد رفیق اور ایاز صادق کو بتایا تھا کہ ‘ہم ڈیل سے مطمئن تھے اور مٹھائی بھی کھا اور بانٹ دی تھی‘ دعا بھی ہو گئی تھی اور ہم طویل عرصے کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ چلنے کے لیے بھی تیار تھے لیکن پھر مجھے ایک کال آئی اور ہم اپنا فیصلہ تبدیل کرنے پر مجبور ہوگئے۔ مونس الٰہی نے خواجہ سعد رفیق کو فون کرنے والے کا نام بھی بتایا تھا۔ پھر حسین نواز مسکرائے اور پھر کہا کہ ’’آپ خواجہ سعد رفیق یا مونس الٰہی سے تصدیق کریں‘ میں سیاسی معاملات سے مکمل طور پر باہر ہوں‘ کاروبار کرتا ہوں اور زیادہ وقت سعودی عرب رہتا ہوں‘‘۔