تحریک طالبان کو معافی دینا سانپ کو دودھ پلانا کیوں ہے؟


افغانستان میں طالبان کے برسرِ اقتدار آنے اور پاکستان میں دہشتگردی کی لہر میں تیزی آ جانے کے بعد حکومت کی چند اہم شخصیات نے تحریک طالبان پاکستان کو عام معافی دینے کی تجویز دی ہے بشرطیکہ وہ ریاست پاکستان اور اسکے آئین کو تسلیم کر لے۔ تاہم جواب میں تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان نے حکومت پاکستان کو مشروط معافی دینے کی پیشکش کی ہے جس سے اس معاملے میں ان کی سنجیدگی کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔تاہم طالبان کو معافی دینے کی تجویز کے مخالفین کا کہنا ہے کہ ڈسنا سانپ کی فطرت میں شامل ہے لہذا اسے دودھ پلانے کی بجائے اس کا سر کچل دینا چاہیے۔
یاد رہے کہ حال ہی میں آرمی چیف جنرل قمر باجوہ نے لنڈی کوتل کے دورہ کے دوران قبائلی عمائدین سے گفتگو میں کہا تھا کہ اگر افغانستان میں چھپے ہوئے دہشت گرد تشدد کا راستہ ترک کر دیں، تو حکومت انکے لیے عام معافی کا اعلان کر دے گی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان نے دہشت گردی کو شکست دی ہے اور ان دہشت گردوں کو بھی معاف کر دے گی اگر وہ ہتھیار ڈال دیں اور ریاست کی رٹ کو چیلنج نہ کرنے کا عہد کریں۔ اس کے بعد صدر عارف علوی نے بھی ایک انٹرویو کے دوران تحریک طالبان کو معافی دینے کی پیشکش کی بشرطیکہ وہ آئین پاکستان کو تسلیم کرنے کا اعلان کرے۔
سیکورٹی امور پر نظر رکھنے والے تجزیہ کار ماجد صدیق نظامی کے مطابق پاکستان کی فوجی اور سول قیادت کی جانب سے طالبان کے لیے معافی کی پیشکش اس لئے اہم ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ کو پندرہ سال کا عرصہ ہو چکا جس دوران کئی فوجی آپریشنز بھی کئے گئے تا کہ امن یقینی بنایا جا سکے۔ آپریشن ضرب عضب نے طالبان عسکریت پسندی کے خلاف فیصلہ کن کردار ادا کیا جبکہ جنرل باجوہ کے آنے کے بعد آپریشن رد الفساد کے ذریعے باقی ماندہ دہشت گردی کو بھی ختم کر دیا۔ لیکن موجودہ صورتحال میں دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے حوالے سے اب بھی کئی طرح کے چیلنجز درپیش ہیں۔ جن میں سے ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ افغانستان میں طالبان کے برسرِ اقتدار آنے کے بعد باقی ماندہ دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں سے کیا سلوک کیا جائے؟ اس معاملے پر لوگوں کی رائے منقسم ہے کہ کیا 80 ہزار سے زائد پاکستانیوں کے قاتل طالبان دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کو ریاستی معافی ملنی چاہیے؟ اس تجویز کی مخالفت میں دلیل دی جاتی ہے کہ انہوں نے پاکستان کی افواج اور عوام کو نشانہ بنایا اس لئے انہیں کڑی سے کڑی سزا دی جائے، پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اس تجویز کی مخالفت کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ ہزاروں معصوم پاکستانیوں کے قاتل طالبان کو معافی دینے کا سوچنا بھی شہیدوں کے خون سے غداری کے مترادف ہوگا۔
تاہم دوسری جانب رائے یہ ہے کہ ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھتے ہوئے باقی ماندہ دہشت گردوں اور عسکریت پسندوں کو بزریعہ معافی نیوٹرل کرنے کے بعد قومی دھارے میں شامل کیا جائے۔ لگتا بھی کچھ ایسا ہی ہے کہ موجودہ ریاستی حکمت عملی معافی دینے کی تجویز رائے کو اہمیت دیتی نظر آتی ہے۔ اسلام آباد میں سفارتی ذرائع کا کہنا ہے کہ افغان طالبان کی جانب سے تحریک طالبان کی دہشت گردانہ کارروائیوں کو کنٹرول کرنے سے معذوری کے اظہار کے بعد پاکستان کو یہ تجویز دی گئی تھی کہ اگر وہ تحریک طالبان کے لئے عام معافی کا اعلان کردے تو افغان طالبان اس حوالے سے ضمانتی بننے کو تیار ہیں کہ ٹی ٹی پی مستقبل میں پاکستان میں دہشت گردی نہیں کرے گی۔ تاہم ریاست اور حکومت دونوں سمجھتے ہیں کہ یہ فیصلہ کتنا مشکل ہے اور اس پر کتنا سخت عوامی ردعمل آ سکتا ہے چنانچہ ابھی اس حوالے سے پاکستانی فوجی اور سویلین قیادت کی جانب سے صرف تجویز ہی دی جا رہی ہے تاکہ عوامی رائے عامہ کو ہموار کیا جا سکے۔
ماجد نظامی کے مطابق جنرل قمر باجوہ ڈاکٹرائن کے مطابق موجودی فوجی اسٹیبلشمنٹ طالبان جیسے عسکریت پسند گروہوں کو مکمل طور پر غیر مسلح کرکے مرکزی دھارے میں لانا چاہتی ہے جیسا کہ آئرلینڈ نے مسئلے کا حل نکالا۔ پاکستان میں اس مسئلے کا تعلق چار طرح کے عسکریت پسند گروہوں سے ہے۔ اِن میں مذہبی انتہا پسند طالبان، بلوچ علیحدگی پسند، کراچی کے لسانی عسکریت پسند اور سندھی علیحدگی پسند شامل ہیں۔ کالعدم جماعۃ الدعوۃ کا معاملہ اس لئے مختلف ہے کہ انہوں نے ریاست مخالف سرگرمیوں میں حصہ نہیں لیا۔ ان سب گروہوں کو ریاست کے ساتھ چلنے پر رضامند کرنے پر کام جاری ہے، گزشتہ ایک ڈیڑھ سال کی چند مثالیں اس بات کا ثبوت ہیں اور جن کی بنیاد پر اس دعوے کو تقویت ملتی ہے کہ ممکنہ طور پر ان گروہوں سے بات چیت اور مذاکرات کا سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں موجود ہے۔
بلوچستان میں مذاکرات اور معافی کے ذریعے عسکریت پسندوں کو قومی دھارے میں واپس لایا جا رہا ہے، سب سے پہلے یہی منصوبہ شروع کیا گیا تھا اور سینکڑوں بلوچ فراری اس اسکیم سے مستفید ہوئے۔ حال ہی میں بلوچستان کے مشہور مزاحمتی لیڈر ہزار خان مری کے بیٹے جمعہ خان مری نے بھی بلوچ علیحدگی پسند تحریک سے دستبرداری کا اعلان کیا اور وفاق پاکستان کی حمایت کی۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ انہوں نے ہی بلوچ علیحدگی پسندوں کی جانب سے آزاد بلوچستان کا پرچم تخلیق کیا تھا، لیکن اب انہوں نے اس تحریک سے ترک تعلق کر لیا ہے۔ اس سے پہلے نواب خیر بخش مری کے بیٹے نوابزادہ گزین مری اٹھارہ سالہ خود ساختہ جلاوطنی ختم کرکے پاکستان آئے، اگرچہ انہیں اس وقت کوئٹہ سے گرفتار کیا گیا لیکن دو ماہ بعد انہیں ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔
اسی طرح کراچی سے تعلق رکھنے والے اور دہشت گردی میں ملوث رہنے والے تین سو سے زائد لوگ لاپتہ یا اداروں کی حراست میں ہیں، ان کے علادہ ساڑھے چار سو کے لگ بھگ ایسے افراد ہیں جو مفرور ہیں اور حالات بہتر ہونے کا انتظار کر رہے ہیں۔ مصطفیٰ کمال نے پاک سر زمین پارٹی کے پلیٹ فارم سے ریاستی اداروں سے مذاکرات شروع کئے جس کا وہ اعلانیہ اعتراف کرتے ہیں اور ان افراد کی رہائی کی کوششیں شروع کیں اور انہیں اس میں جزوی کامیابی بھی ملی لیکن ایم کیو ایم پاکستان کی جانب سے اس بات چیت کو منظر عام پر لانے کے بعد لاپتہ کارکنوں کی بازیابی کا سلسلہ رک گیا۔ اسی طرح گزشتہ ڈیڑھ سال میں جئے سندھ قومی محاذ کے سو سے زائد کارکنان نے خود کو قانون کے حوالے کیا اور سندھو دیش تحریک کو خیر باد کہا۔ کچھ ہفتے قبل بھی پنو عاقل میں جئے سندھ قومی محاذ کے چھبیس کارکن اپنی پارٹی کو چھوڑ کر قومی دھارے میں شامل ہوئے، انہوں نے سندھو دیش کے نعرے کو مسترد کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ چلنے کا عزم کیا۔ یہ عزم کرنے والوں میں جسقم کے ایک ضلعی صدر بھی تھے۔ گزشتہ سال بھی کشمور اور اردگرد کے علاقوں سے تعلق رکھنے والے جسقم کے کارکنان کو قومی دھارے میں شامل کیا گیا لیکن کچھ وقت گزرنے کے بعد صوبائی پولیس نے ماضی کے مقدمات میں انہیں گرفتار کر لیا۔ جس سے مفاہمت کی ان کوششوں کو نقصان بھی پہنچا اگرچہ بعد ازاں مسئلے کو حل کیا گیا۔
اسی طرح ماجد نظامی کے مطابق کالعدم تحریک طالبان کے مختلف گروہوں سے بھی پاکستانی ریاست کے الگ الگ مذاکرات ہوئے جسے نتیجے میں تحریک طالبان کے مختلف گروہوں سے تعلق رکھنے والے عسکریت پسندوں نے خود کو ریاست کے حوالے کیا۔ تحریک طالبان کے شہریار محسود گروپ نے مذاکرات کے نتیجے میں ہتھیار ڈالے۔ طالبان کے سابق امیر حکیم اللہ محسود کے بھائی اعجاز محسود نے پاک افغان بارڈر پر اپنے خاندان سمیت اپنے آپ کو حکومت کے حوالے کیا۔ جماعت الاحرار کے کئی کمانڈرز نے خود کو قانون کے حوالے کیا اور جماعت الاحرار ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گئی۔
اس طرح تین صوبوں میں طالبان، ایم کیو ایم، آزاد بلوچستان تحریک اور سندھو دیش تحریک کے رہنمائوں، کارکنوں اور عسکریت پسندوں کو ریاست پاکستان سے وفاداری پر قائل کیا جا رہا ہے۔ ریاستی اداروں کا موقف ہے کہ ان اقدامات سے طالبان اور ان جیسی دیگر عسکریت پسند تنظیموں میں موجود عناصر کی رائے تقسیم ہوئی اور وہ آپسی اختلافات کا شکار ہوئے جسکا فائدہ ریاست پاکستان کو ہوا ہے۔ تاہم سیکیورٹی امور پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس ریاستی پالیسی کی کامیابی کیلئے ضروری ہے کہ عسکریت پسندوں کو قومی دھارے میں لانے کیلئے کئے گئے اقدامات کو اعلانیہ، آئینی اور قانونی راستے کا سہارا دیا جائے تاکہ اس کے فوائد دیرپا ہوں، وگرنہ یہ خدشہ موجود رہے گا کہ دو سال بعد پالیسی تبدیل ہونے کی صورت میں خدانخواستہ پاکستان کو ایک اور مذہبی، نسلی یا لسانی مزاحمت کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔ دوسری جانب دہشت گردوں کو عام معافی دینے کی تجویز کے مخالفین کا کہنا ہے کہ ایسا کرنے کا مطلب سانپوں کو دودھ پلانے کے مترادف ہوگا چونکہ ڈسنا اس کی فطرت میں شامل ہے اور وہ اس سے باز نہیں رہ سکتا۔

Related Articles

Back to top button