عمران اور پنکی کیخلاف القادر ٹرسٹ کرپشن کیس کیا ہے؟

پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کو اسلام ہائی کورٹ کے احاطے سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔منگل کو عمران خان اسلام آباد ہائی کورٹ کی ڈائری برانچ میں بائیو میٹرک کروا رہے تھے جب انہیں رینجرز نے گرفتار کیا۔ آئی جی پولیس اسلام آباد کے مطابق عمران خان کی گرفتاری قومی احتساب بیورو(نیب) نے القادر یونیوسٹی کیس میں کی ہے اور انہیں نیب راولپنڈی منتقل کیا گیا۔

قومی احتساب بیور ( نیب) کا کہنا ہے کہ چیئرمین تحریک انصاف پر کرپشن اور کرپٹ پریکٹسز میں ملوث ہونے کا الزام ہے۔نیب کی جانب سے جاری اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ عمران خان کی گرفتاری کی ہدایت چیئرمین نیب کی جانب سے دی گئی، عمران خان کو القادر ٹرسٹ میں مبینہ کرپشن کے کیس میں گرفتار کیا گیا ہے۔نیب نے عمران خان کو نیب آرڈیننس 1999 کے سیکشن 19 اے میں گرفتار کیا ہے۔ نیب نے 34 اے ، 18 ای اور 24 اے کے تحت کارروائی کرتے ہوئے عمران خان کو گرفتار کیا۔

تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان کی جس کیس میں گرفتاری ہوئی ہے اصل میں القادر یونیورسٹی کیس کیا ہے؟ اردو نیوز کی ایک رپورٹ کے مطابق اس معاملے کی ابتدا پاکستان کے معروف پراپرٹی ٹائیکون اور بحریہ ٹاؤن کے مالک ملک ریاض حسین کے خاندان پر برطانیہ میں دائر ہونے والے ایک مقدمے سے ہوئی۔ عمران خان کے دورِ حکومت میں بحریہ ٹاؤن کی رقم برطانیہ میں ضبط کی گئی جس کے بعد پاکستان کی وفاقی حکومت اور بحریہ ٹاؤن کے درمیان خفیہ طور پر تصفیہ ہو گیا تھا۔

ان کے بعد نئی بننے والی اتحادی حکومت کی جانب سے الزام عائد کیا گیا تھا کہ بحریہ ٹاؤن نے 50 ارب روپے غیرقانونی طور پر برطانیہ منتقل کیے جنہیں وہاں منجمند کر لیا گیا تھا۔ عمران خان کی حکومت کی جانب سے یہ رقم واپس لانے کے بجائے برطانیہ میں بحریہ ٹاؤن کو ریلیف دیا گیا۔حکومت کا دعویٰ تھا کہ ’بحریہ ٹاؤن کے جو پیسے برطانیہ میں پکڑے گئے وہ سپریم کورٹ کی فیصلے کے بعد واجب الادا رقم میں ایڈجسٹ کر دیے گئے تھے۔‘ جون 2022 میں پاکستان کی اتحادی حکومت نے یہ الزام بھی عائد کیا کہ تحریک انصاف کی حکومت نے بحریہ ٹاؤن کے ساتھ معاہدے کے بدلے اربوں روپے کی اراضی سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے نام منتقل کی۔

اس وقت وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد اس خفیہ معاہدے سے متعلق کچھ تفصیلات بھی منظرعام پر لائی گئی تھیں۔ان دستاویزات میں اُس وقت کے وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے احتساب اور ایسٹ ریکوری یونٹ کے سربراہ شہزاد اکبر کا وزیراعظم کو لکھا گیا نوٹ بھی شامل تھا جس کے تحت وزیراعظم عمران خان نے نیشنل کرائم ایجنسی، بحریہ ٹاؤن اور ایسیٹ ریکوری یونٹ کے درمیان خفیہ معاہدے کی منظوری دی گئی۔حکومت نے یہ الزام عائد کیا تھا کہ بحریہ ٹاؤن کی ضبط کی گئی رقم پر ریلیف دیتے ہوئے بدلے میں بحریہ ٹاؤن سے اراضی حاصل کی گئی۔ اس حوالے سے حکومت کی جانب سے القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کی دستاویزات بھی منظر عام پر لائی گئیں۔ منظرعام پر لائی گئی ان دستاویزات کے مطابق 24 مارچ 2021 کو بحریہ ٹاؤن نے القادر یونیورسٹی ٹرسٹ کو ضلع جہلم سوہاوا میں 458 کنال کی اراضی عطیہ کی۔

عطیہ کی گئی اس اراضی کا معاہدہ بحریہ ٹاؤن اور سابق خاتون اول بشریٰ بی بی کے درمیان ہوا۔ ان دستاویزات پر سابق وزیراعظم عمران خان کی اہلیہ بشریٰ بی بی کے بطور ٹرسٹی القادر یونیورسٹی پراجیکٹ ٹرسٹ کی جانب سے دستخط کیے گئے۔ قبل ازیں اس کیس میں نیب نے رواں برس نو جنوری کو تحریک انصاف کے رہنما اور سابق معاون خصوصی زلفی بخاری کو بھی طلب کیا تھا۔ جبکہ عمران خان کو بھی اس کیس میں بارہا طلب کیا گیا تھا تاہم عمران خان نیب میں پیش ہونے سے انکاری تھے تاہم 9 مئی کو نیب کی طرف سے جاری کردہ وارنٹ گرفتاری کی بنیاد پر رینجرز نے عمران خان کو گرفتار کر لیا ہے۔

عمران خان کی گرفتاری پر وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ نے کہا کہ عمران خان کو نیب نے گرفتار کیا ہے، نیب میں انکوائریز ہو رہی تھیں، القادر ٹرسٹ کے نام پر جو بے قاعدگیاں تھیں،نیب نے اس پر گرفتار کیا ہے، 5 ارب روپے کی پراپرٹی تھی، کسی پراپرٹی ٹائیکون کو 50 ارب کا فائدہ پہنچایا گیا تھا۔القادر ٹرسٹ کا معاملہ پہلے سے ڈاکومینٹڈ ہے۔ فرح گوگی کے نام پر بنی گالہ میں بڑی قیمتی اراضی ہے آج تک اس کا جواب نہیں دیا گیا تھا۔ بار بار نوٹس بھیجے گئے لیکن یہ پیش نہیں ہوئے۔

عمران خان کی گرفتاری کے بعد نیب کی جانب سے وارنٹ گرفتاری بھی سامنے لایا گیا جس میں کہا گیا ہے کہ ’کرپشن کے مقدمات میں ملزم عمران خان نیب کو مطلوب ہیں۔‘ وارنٹ گرفتاری پر نیب کے چیئرمین لیفٹننٹ جنرل (ر) نذیر احمد کے دستخط ہیں جبکہ اس پر یکم مئی 2023 کی تاریخ درج ہے۔

Related Articles

Back to top button