عمران خان نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کیسے کی؟


اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے کے لیے اسے امریکی سازش قرار دینے والے وزیراعظم عمران خان نے امریکی عہدیدار ڈونلڈ لو کا نام لیکر آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کر دی ہے جو پاکستانی تاریخ کا پہلا واقعہ ہے۔ ایسا کرتے ہوئے عمران نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک حالیہ حکم نامے کی خلاف ورزی بھی کر دی ہے جس میں انہیں سیکریٹ دستاویز پبلک نہ کرنے کا کہا گیا تھا۔
چیف جسٹس اطہر من اللّٰہ نے اس حوالے سے تحریری حکم نامہ جاری کرتے ہوئے کہا تھا کہ وزیراعظم اپنے حلف کی خلاف ورزی نہیں کر سکتے، اور ایسی معلومات افشا نہیں کریں گے جو ملکی مفاد کے خلاف ہوں۔ عدالت نے تحریری حکم نامہ میں وزیراعظم کے حلف کا بھی حوالہ دیا تھا۔ حکم نامے میں کہا گیا تھا کہ وزیر اعظم کا حلف اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ انہیں پابند بناتا ہے کہ اس سے بالاتر کوئی فیصلہ نہ کریں۔ فیصلے میں عدالت نے آئین کے آرٹیکل 91 شق 5 اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی شق 5 کا بھی حوالہ دیا تھا اور کہا تھا کہ وزیر اعظم بطور منتخب وزیراعظم وہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی شق 5 کی خلاف ورزی نہیں کریں گے۔
تاہم دوسری جانب عمران خان نہ صرف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کے مرتکب ہو چکے ہیں بلکہ انہوں نے عدالتی حکم نامے کی بھی پرواہ نہیں کی۔ چند روز پہلے لائیو خطاب کے دوران وزیراعظم نے دھمکی آمیز خط کا ذکر کرتے ہوئے امریکہ کا نام لیا تھا اور اب انہوں نے اس سینئر امریکی اہلکار کا نام بھی لے لیا ہے جس پر مبینہ دھمکی دینے کا الزام عائد کیا گیا ہے۔ 3 اپریل کو قومی اسمبلی توڑنے کے اعلان کے بعد عمران خان کی ایک ویڈیو جاری کی گئی جس میں وہ اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد مسترد کرنے پر خوشی کا اظہار کر رہے ہیں۔ ویڈیو بیان میں وزیراعظم نے بتایا کہ جب قومی سلامتی کمیٹی نے تحریک عدم اعتماد میں کسی بیرونی قوت کے ملوث ہونے کی مذمت کردی تو اس پر ووٹنگ کروانا غیر متعلقہ ہوگیا تھا۔ عمران نے انکشاف کیا کہ امریکا نے پاکستانی سفیر کے ذریعے دھمکی آمیز پیغام بھیجا تھا۔ انہوں نے کہا کہ امریکا کے معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی اور وسط ایشیائی امور ڈونلڈ لو نے پاکستانی سفیر اسد مجید کے ساتھ ملاقات میں خبردار کیا تھا کہ اگر وزیراعظم قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد سے بچ جاتے ہیں تو اس کے سنگین نتائج ہوں گے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ان کے پاس اطلاعات ہیں کہ پی ٹی آئی کے منحرف اراکین امریکی سفارتخانے کے لوگوں سے ملاقاتیں کیا کرتے تھے۔ساتھ ہی ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ ‘آخر کیا وجوہات تھیں کہ جن ممبران قومی اسمبلی نے ہمیں چھوڑا ان کی گزشتہ چند روز میں سفارتخانے کے لوگوں سے کئی ملاقاتیں ہوئیں’۔ عمران خان نے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری کی رولنگ کو اپوزیشن کے لیے دھچکا قرار دیا اور کہا کہ حزب اختلاف والوں کو سمجھ ہی نہیں آرہی کہ ان کے ساتھ ہوا کیا ہے۔
عمران خان نے مزید کہا کہ اگر وہ اپوزیشن کو ایک روز قبل سرپرائز کے بارے میں بتا دیتے تو انہیں اس قدر صدمہ نہیں ہوتا۔ خیال رہے کہ تحریک عدم اعتماد کے بعد سامنے آنے والے سیاسی اتار چڑھاؤ میں حکومت کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کے ہاتھ ترپ کا پتا ہونے کے دعوے کیے جاتے رہے تھے۔
تاہم 27 مارچ کو وزیراعظم کے ایک اقدام نے تحریک عدم اعتماد کے معاملے کو یکسر مختلف رنگ اس وقت دیا جب ‘امر بالمعروف’ کے عنوان سے منعقدہ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے ایک کاغذ لہراتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ ان کی حکومت کو گرانے کی تحریری طور پر دی گئی دھمکی ہے۔ خط سامنے آنے کے بعد مختلف قیاس آرائیاں پائی جارہی تھی چنانچہ حکومت نے اس مراسلے کو چیف جسٹس آف پاکستان کے سامنے پیش کرنے پر آمادگی کا اظہار کیا۔
تاہم اگلے ہی روز اپنے فیصلے میں تبدیلی کرتے ہوئے مبینہ دھمکی آمیز خط پر کابینہ اراکین کے علاوہ میڈیا سے تعلق رکھنے والی شخصیات کو بھی بریفنگ دی گئی۔ اس دوران یہ بات بھی سامنے آئی کہ یہ خط اصل میں سفارتی کیبل تھا جو امریکا میں پاکستان کے اُس وقت کے سفیر اسد مجید نے کے معاون وزیر خارجہ برائے جنوبی اور وسطی ایشیائی امور ڈونلڈ لو سے ملاقات کی بنیاد پر بھیجی تھی۔ ایک سینئر پاکستانی عہدیدار نے بتایا تھا کہ ملاقات میں امریکا کی جانب سے استعمال کی گئی زبان سخت تھی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب تک عمران خان دھمکی آمیز مراسلے کے ساتھ منظر عام پر نہیں آئے اس وقت تک امریکا اور پاکستان کے تعلقات میں ٹوٹ پھوٹ یا نئی کشیدگی کے کوئی آثار نہیں تھے۔ یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ خط تحریر کرنے والے سابق پاکستانی سفیر نے 7 کو خط لکھنے کے بعد 16 مارچ کو اسی ڈونلڈ لو کا شکریہ بھی ادا کیا تھا جس نے مبینہ طور پر دھمکیاں دی تھیں۔
اس صورتحال پر وزیراعظم کی سربراہی میں قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس ہوا جس میں اہم وفاقی وزرا، مشیر قومی سلامتی، مسلح افواج کے سربراہان نے شرکت کی۔ اجلاس کے بعد جاری اعلامیے میں کسی ملک کا نام لیے بغیر کہا گیا کہ مشیر قومی سلامتی نے کمیٹی کو ایک غیر ملک میں پاکستان کے سفیر کے ساتھ غیر ملکی اعلیٰ عہدیدار کے باضابطہ رابطے اور کمیونیکیشن کے بارے میں بریفنگ دی، غیر ملکی اعلیٰ عہدیدار کے رابطے اور کمیونیکیشن سے متعلق وزارت خارجہ کے سفیر نے باضابطہ طور پر آگاہ کیا تھا۔
اعلامیے کے مطابق قومی سلامتی کمیٹی نے مراسلہ پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے غیر ملکی عہدیدار کی جانب سے استعمال کی جانے والی زبان کو غیر سفارتی قرار دیا تھا۔ جاری بیان کے مطابق قومی سلامتی کمیٹی نے بریفنگ پر یہ نتیجہ اخذ کیا تھا کہ یہ خط مذکورہ ملک کی جانب سے پاکستان کے اندرونی معاملات میں کھلی مداخلت کے مترادف ہے جو ناقابل قبول ہے۔ بعدازاں دفتر خارجہ نے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں ہوئے فیصلے کے مطابق سفارتی ذریعے سے باضابطہ مراسلہ دے دیا اور اس حوالے سے جاری بیان میں بھی کسی ملک کا نام نہیں لیا گیا۔
ایک اور اہم بات یہ ہے کہ اس اس بیان میں اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کا بھی کوئی ذکر نہیں لیکن اب عمران اس حوالے سے غلط بیانی کر رہے ہیں۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی خلاف ورزی کرنے پر عمران کے خلاف کارروائی کی جاتی ہے یا نہیں؟

Related Articles

Back to top button