عمران خان پر اسٹیبلشمنٹ نے کراس کیوں لگایا؟

آج تحریک انصاف اپنے ہاتھوں خود ہی زیر عتاب آ چکی ہے، عمران خان زمان پارک تک محدود ہو چکے ہیں لیکن انہوں نے پارلیمان کا کوئی ایسا فورم نہیں چھوڑا جہاں آج وہ حکومت کو ناکوں چنے چبوانے کی پوزیشن میں ہوتے۔آج عمران خان سمجھتے ہیں کہ ان پر اسٹیبلشمنٹ کراس لگا چکی ہے تو ان سے سوال یہ بنتا ہے کہ جب حاضر سروس افسران سے علی الاعلان کھلی جنگ شروع کر دی جائے، ان پر قتل کی سازش کے الزامات لگا دیے جائیں، لندن اور امریکہ میں ان کی تصاویر پر جوتے برسائے جائیں، سوشل میڈیا پر حافظ اور حاجی کے سابقے اور لاحقے لگا کر ایسے بیہودہ ٹرینڈز شروع کر دئیے جائیں تو کیا ریاست ستو پی کر سوتی رہے گی؟
ان خیالات کا اظہار سینئر سحافی عادل شاہ زیب نے انڈیپنڈنٹ اردو کیلئے اپنے تازہ سیاسی تجزیے میں کیا ہے۔ عادل شاہ زیب کا مزید کہنا ہے کہٹی وی چینلز آن کریں تو ملکی معیشت، گورننس، انتخابات، آئین اور مستقبل پر ہی بات ہوتی نظر آئی گی لیکن کئی مہینے سے جاری اس بحث کو اس لیے لاحاصل قرار دیا جا سکتا ہے کیوں کہ معاملات پہلے سے زیادہ گھمبیر اور پیچیدہ ہو چکے ہیں۔پارلیمان اور عدلیہ ٹکراؤ کی صورت حال سے نکلنے میں بے بس نظر آ رہے ہیں اور یہ کہنا بےجا نہ ہو گا کہ کسی ایسے معجزے کا انتظار کر رہے ہیں جس سے ازخود پلک جھپکتے ہی ملکی حالات سے غیر یقینی ختم ہو جائے لیکن ظاہر ہے ایسا ہونا ناممکن ہے خصوصا جب معجزوں والی قوت نہ صرف ماضی کے معجزوں کی تلافی چاہ رہی ہو بلکہ مزید معجزوں سے بظاہر توبہ کر چکی ہو۔
عادل شاہ زیب کے بقول پارلیمان کو اٹھا کر دیکھیں تو عمران خان دو صوبائی اسمبلیوں کو تحلیل جبکہ قومی اسمبلی سے اپنی جماعت کو مستعفی کروا چکے ہیں وہاں سے کسی قسم کا حل نکلنے کی توقع ویسے ہی نہیں کی جانی چاہیے۔سیاسی چالوں اور مفاد کے اس کھیل میں ملکی مفاد کہیں دب چکا ہے اور اتنا دب چکا ہے کہ حکومت اور تحریک انصاف کے درمیان مذاکرات کے آغاز سے پہلے ہی بات چیت کا نتیجہ نوشتہ دیوار بن گیا۔تحریک انصاف کے کئی سینیئر رہنما بھی یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ عمران خان کو اب بھی یہ بات کیوں سمجھ نہیں آ رہی کہ دو حکومتیں کھونے کے باوجود انہیں ’زمینی حقائق‘ کو مدنظر رکھتے ہوئے اکتوبر سے پہلے انتخابات نہیں ملنے والے۔28 مارچ کو ’عمران خان بند گلی میں‘ کے عنوان سے اپنے کالم میں جو تحریر کر چکا ہوں وہ ایک دفعہ پھر ملاحظہ فرمائیں۔
پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان صاحب نے لاہور جلسے میں آخرکار اس حقیقت کو تسلیم کر لیا، جسے ابھی تک وہ جھٹلاتے آ رہے تھے۔ وہ اب اس بات کا کھل کر اظہار کر رہے ہیں کہ ان پر ’کراس‘ لگایا جا چکا ہے۔گو کہ اس اقرار میں وہ یہ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں کہ موجودہ اسٹیبلشمنٹ انہیں کسی صورت اقتدار میں واپس آنے نہیں دے گی، لیکن ساتھ ہی وہ اب بلاواسطہ سہی لیکن یہ بھی تسلیم کر چکے ہیں کہ اقتدار کھونے کے بعد ان کے بیانیے اور سیاسی فیصلوں نے انہیں ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔
عادل شاہ زیب کا مزید کہنا ہے کہ نام نہاد امریکی سازش سے امریکی تعاون تک کا سفر ہو، قومی اسمبلی سے مستعفی ہونے کا عجیب و غریب فیصلہ ہو یا پنجاب اور خیبر پختونخوا میں حکومت ختم کر کے اسمبلیاں تحلیل کرنے جیسے پاؤں پر کلہاڑی مارنا ہو، خان صاحب نے کسی کی نہ سنی اور نتیجتاً اپنی پارٹی کو بند گلی میں کمال مہارت سے لا کھڑا کیا۔‘ان ہی تحاریر میں بار بار عمران خان کے فیصلوں پر اعتراضات کے ساتھ عرض کرتے آئے ہیں کہ عمران خان کے سیاسی فیصلے پی ٹی آئی کے آپشنز محدود کرتے جا رہے ہیں۔ ان کی پارٹی کے کئی سینیئر رہنما آف دی ریکارڈ نشستوں میں کھل کر ہمارے موقف کی تائید کرتے رہے لیکن خان صاحب کے سامنے ان کے موقف کی ایک نہ چلی۔
عادل شاہ زیب کا مزید کہنا ہے کہ اب جبکہ آخری راؤنڈ شروع ہو چکا ہے، عمران خان وہی غلطیاں مسلسل دہرا رہے ہیں۔ جب قومی اسمبلی کی مدت 12 اگست کو ختم ہو رہی ہے حکومت صرف دو ماہ کی ہی مہمان ہے اور 12 اگست کو ہر صورت گھر جانے کا فیصلہ بھی کر چکی ہے تو پھر وہ اپنی سیاسی مہم اور انتخابات پر فوکس کرنے کی بجائے کیوں 14 مئی کو ایک بار پھر سڑکوں پر نکلنا چاہتے ہیں؟وہ بھی صرف اس لیے کہ انتخابات ستمبر سے پہلے ہو جائیں؟تاہم عمران خان کو ایک بات سمجھ لینی چاہیے کہ انہیں ستمبر سے پہلے انتخابات ملنے کے امکانات ختم ہو چکے ہیں۔ لہذا انہیں پارٹی ٹکٹس اور انتخابی مہم کو مد نظر رکھ کر اپنی پوری توجہ نومبر میں انتخابات پر مرکوز کر لینی چاہیے۔وہ تھک چکے ہیں اور خود کو مزید تھکا کر اگر فائنل راؤنڈ میں جانا چاہتے ہیں تو مرضی ان کی، لیکن جس طرح انہیں غلط سیاسی حکمت عملی کی وجہ سے دو حکومتیں قربان کرنے کے باوجود انتخابات اپنی مرضی کی تاریخ پر نہیں مل پائے اسی طرح غلط سیاسی حکمت عملی پر ہی اصرار سے انتخابات کے نتائج مرضی کے خلاف ملنے کا اچھا خاصا احتمال موجود رہے گا۔