عمران خان کیخلاف فوجداری مقدمہ واپس نہیں لیا جائے گا

وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا ہے کہ عمران خان کے خلاف فوجداری مقدمہ واپس نہیں لیا جائے گا، فارن فنڈنگ کی تحقیقات مکمل ہونے کے بعد کوئی بھی فیصلہ کیا جائے گا، جبکہ ٹرانس جینڈر ایکٹ کے حوالے سے وفاقی شرعی عدالت کا فیصلہ حتمی ہوگا۔

وزیر اعظم کے معان خصوصی و پی پی پی رہنما قمر زمان کائرہ کے ہمراہ اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے اعظم نذیر تارڑ نے کہا ٹرانس جینڈر قانون کے حوالے سے کہا کہ 2018 میں تمام سیاسی جماعتوں کی موجودگی میں پرائویٹ ممبرز بل کے ذریعے یہ بل پیش کیا گیا تھا، جس کو پارلیمان کی قائمہ کمیٹی کو بھیجا گیا اور وہاں سے پاس ہوکر سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں آیا، اس وقت کی تمام دستاویزات میں اس قانون پر اسلامی نظریاتی کونسل کے چیئرمین کی رائے بھی شامل تھی اور اس حوالے سے کیے گئے اجلاس میں پاکستان کی سیاسی اور دینی قیادت بھی موجود تھی۔

انکا کہناتھا یہ ایکٹ اس وقت کی سیاسی اور دینی قیادت کے ساتھ مشاورت کے بعد پاس کیا گیا تھا جو کہ پرائیویٹ ممبرز بل تھا نہ کہ حکومت کی طرف سے آیا تھا، جب کوئی قانون پاس ہوتا ہے تو اس پر کوئی نہ کوئی پہلو یا کمزور رہ جاتی ہے اور اس قانون میں بھی ایک حصہ تھا، جس پر دو سال بعد شکایات آنا شروع ہوئیں کہ اس کا غلط استعمال نہ ہو کیونکہ اس قانون کے سیکشن 3 اور 4 کے مطابق ٹرانس جینڈر کا 18 سال کی عمر پر پہنچنے کے بعد جب نادرا میں شناختی کارڈ بنانے کا معاملہ آیا تو صنف کی تشخیص کی گئی کہ وہ میل یا فی میل خواجہ سرا ہو۔

وزیر قانون نے کہا گزشتہ برس جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد نے ایک ترمیمی بل پیش کیا تھا کہ اس قانون میں موجود شق جس میں خواجہ سرا درخواست دہندہ کو یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ نیشنل ڈیٹا بیس ریگیولیٹری اتھارٹی (نادرا) کارڈ کے لیے اپنی صنف کا اندراج کرائیں اس پر مناسب ترمیم کرکے میڈیکل بورڈ کی رائے کے ساتھ مشروط کیا جائے، یہ معاملہ ابھی پارلیمان میں زیر غور تھا کہ اسی عرصہ میں وفاقی شریعت کورٹ میں دو درخواستیں دائر کرکے اس قانون پر وضاحت طلب کی گئی، جس پر موجودہ حکومت کی وزارت انسانی حقوق نے جواب جمع کروایا کہ عدالت اگر یہ سمجھتی ہے کہ اس شق کی وجہ سے قانون کا بے جا استعمال ہو سکتا ہے۔

انہوں نے کہامعلومات تک رسائی سب کا بنیادی حق ہے مگر غلط معلومات کا حق نہیں ہونا چاہیے اور چند دوستوں نے اس کو اس طرح پیش کیا کہ ہم نے جنس پرستی کا دروازہ کھول دیا گیا ہے، اب یہ شادیاں بھی ہو رہی ہیں یہ ہوں گی مگر آپ تاریخ میں جائیں تو ایسے واقعات ہوتے رہے ہیں جب یہ قوانین موجود بھی نہیں تھے،اس قانون کو اس طرح پیش کیا گیا کہ یہ پورا قانون ہم جنس پرستی پر ہے جبکہ اس میں تشریح کی گئی ہے کہ خواجہ سرا کون ہوں گے اور پیدائش کے بعد ان میں وہ علامات ظاہر ہوں جن سے وہ اس صنف سے نظر آئیں، قانون میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ کوئی بھی شخص خود بخود خواجہ سرا بن جائے گا، جب رجسٹریشن کی بات آئی تو اس قانون کی پہلی شقوں کو آئسولیشن میں پڑھا گیا۔

وفاقی وزیر نے کہا یہ معاملہ شریعت کورٹ میں ہے جس نے مذہبی رہنماؤں اور انسانی حقوق کے رہنماؤں کو اس میں شریک ہونے کی اجازت دی ہے جبکہ حکومتِ پاکستان بھی اس میں فریق ہے کیونکہ ہم نے بڑی وضاحت کے ساتھ جواب جمع کروایا ہے،قانون میں غیرمساوی سلوک روکا گیا ہے جس پر سپریم کورٹ کا بھی حکم تھا اور آئین بھی یہی کہتا ہے کہ پاکستان کی سرزمین پر رہنے والے کسی شخص کو رنگ، نسل، صنف کی وجہ سے اس کے ساتھ ناروا سلوک اختیار نہیں کیا جا سکتا۔

اعظم نذیر نے کہاقانون میں خواجہ سراؤں کو جنسی ہراساں کرنے کا عمل جرم قرار دیا گیا ہے جس طرح سڑکوں پر ان کے ساتھ سلوک کیا جاتا ہے، ان کو تھانے میں لے جایا جاتا ہے، جیسا انہوں نے کوئی بڑا جرم کیا ہو اور ان سے جبری بھیک منگوائی جاتی ہے تو ان تمام چیزوں کو جرم بنایا گیا ہے اور قانون کے مطابق چھوٹی چھوٹی سزائیں تجویز کی گئی ہیں، اس قانون میں پارلیمان نے حکومتوں کو پابند بنایا ہے کہ آپ کو ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے کیا کیا یقینی بنانا ہے اور شریعت میں ان کی صنف کے مطابق جائیداد میں ان کو اپنا حصہ ملنا چاہیے اور اگر یہ معاملہ زیادہ باریک ہے تو فیڈرل شریعت کورٹ کا فیصلہ اس پر حرفِ آخر ہوگا جس کے بعد پارلیمان ایسی کوئی قانون سازی نہیں کر سکتی جو شریعت کے متصادم ہو۔

انکا کہناتھااس قانون میں خواجہ سراؤں کے لیے تعلیم کے حصول کا حق بھی شامل ہے کیونکہ اب ان میں وکیل، ڈاکٹر اور انجنیئر سامنے آ رہے ہیں،اس قانون میں روزگار کا حق بھی شامل ہے جیسا کہ پہلے بھی محروم طبقات کے لیے کوٹہ مختص کیا جاتا تھا تو اس قانون میں حکومت کو کہا گیا ہے کہ جب کوٹہ مختص کریں تو اس صنف کو بھی نظر میں رکھا جائے، خواجہ سراؤں کو ہسپتالوں میں اس طرح کی طبی سہولیات میسر نہیں ہوتیں اور یہ مسئلہ ہوتا ہے کہ ان کو ہسپتال میں کس وارڈ میں داخل کریں میل یا فیمیل اس لیے اس قانون میں یہ بھی طے کیا گیا ہے کہ ان کے لیے الگ سے چھوٹے وارڈ بھی قائم کیے جائیں گے، اس قانون کے ذریعے خواجہ سراؤں کو ملکیت خریدنے کا مسئلہ بھی حل کیا گیا ہے کیونکہ نادرا میں ان کے کارڈ بننے کا معاملہ تھا جس کو قانون میں شامل کیا گیا ہے جس کے بعد وہ ملکیت یا گھر خرید سکیں گے۔

اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ عمران خان ہمیشہ یوٹرن لیتے ہیں ایک اور یوٹرن مبارک ہو ایف آئی اے فارن فنڈنگ کی تحقیقات کر رہی ہے، تحقیقات مکمل ہونے پر فیصلہ کیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ توہین عدالت کا معاملہ عمران خان اور ہائیکورٹ کا ہے۔

کابینہ چھوٹی ہونی چاہیے، تعداد کے بجائے کوالٹی پر فوکس ہونا چاہیے، کچھ معاونین خصوصی کا عہدہ وزیر کے برابر بھی ہے، کابینہ کیلئے قانون میں وزرا کی حد مقرر کی گئی ہے ابھی تک حکومت نے اُس کو پار نہیں کیا،عمران خان اسمبلی آئیں اور حکومت تبدیل کر دیں انہیں کون روک رہا ہے، سال 2014 میں بھی کے پی حکومت نے دھرنے کو سپورٹ کیا تھا، جمہوری حکومتوں کی خواہش ہوتی ہے کہ اس حد تک نہ جایا جائے، حالات کے مطابق گورنر راج بھی ایک آپشن ہے، جس پر غور کیا جارہا ہے اور اگر ضرورت پڑی تو کوئی فیصلہ بھی کیا جاسکے گا۔

اس موقع پرقمر زمان کائرہ نے کہا کہ عدالت سے صرف یہ کہنا ہے ماضی میں جو فیصلے آئے ان پر لوگوں کو تحفظات ہیں، توہین عدالت قانون کے خوف سے عزت کرائی جائے گی تو یہ دیرپا نہیں ہوگی ، سوشل میڈیا پر قانون سازی کی بات کریں تو میڈیا کی مزاحمت سب سے پہلے ہوگی،سوشل میڈیا پر پابندی نہیں لگانا چاہتے لیکن اس کا غلط استعمال روکنے کی ضرورت ہے، آزادی اظہار رائے کا مطلب کسی کو گالی دینا نہیں ہے۔

قمر زمان کائرہ نے کہا خواجہ سرائوں کی تنظیموں نے بھی میڈیکل بورڈ کی حمایت کی ہے۔ خواجہ سرا ہونا بھی ایک معذوری ہے ان سے نفرت کرنا نامناسب ہے۔ سینیٹر مشتاق احمد کی ترمیم منظور ہونی چاہیے تاکہ قانون کا غلط استعمال نہ ہوسکے، اس ترمیم سے ٹرانسجینڈر قانو میں بہتری آجائے گی۔

Related Articles

Back to top button