عمران کا خط اچھال کر مزید سیاسی گند ڈالنے کا فیصلہ

سپریم کورٹ کی جانب سے 9 اپریل کو قومی اسمبلی میں تحریک عدم اعتماد لانے اور اس کی کامیابی کی صورت میں نئے وزیراعظم کا انتخاب کرنے کے احکامات کے باوجود عمران خان نے آخری دم تک لڑنے کا اعلان کرتے ہوئے ہوئے ایک اور سرپرائز دینے کا کہہ دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق کپتان کا اگلا سرپرائز اپنا استعفی یا اپنے اراکین قومی اسمبلی کے استعفے ہو سکتے ہیں۔ اس کا بنیادی مقصد مزید گند ڈالنا ہو سکتا ہے تا کہ حکومت نہ چل پائے۔ لیکن کچھ حکومتی ذرائع اس امکان کا اظہار بھی کر رہے ہیں کہ عمران خان سپریم کورٹ کی جانب سے اپنا سازشی نظریہ مسترد کیے جانے کے بعد اس دھمکی آمیز خط کو پبلک کر سکتے ہیں جس کی بنیاد پر قومی اسمبلی میں ان کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کی قرارداد کو مسترد کیا گیا تھا۔
سپریم کورٹ کی جانب سے وزیراعظم کے خلاف اپوزیشن کی تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنے کے بعد اسپیکر قومی اسمبلی عدالت عظمیٰ کے اس فیصلے کے پابند ہیں کہ وہ ہفتہ کو پارلیمنٹ کے ایوان زیریں کا اجلاس بلائیں اور یہ اجلاس 3 اپریل کے اجلاس کے لیے جاری ایجنڈے کے مطابق ساڑھے 10 بجے کے بعد نہ بلایا جائے۔ سپریم کورٹ کی جانب سے جاری آرڈر کے پیرا 9 کے مطابق اسپیکر کی ذمہ داری ہے کہ وہ موجودہ سیشن کے لیے اسمبلی کا اجلاس طلب کر کے اس کا انعقاد کرے اور ایسا فوری طور پر کرے اور ایسی صورت میں ہفتہ کی صبح ساڑھے 10 بجے کے بعد ایوان کی کارروائی 3 اپریل 2022 کے لیے جاری کردہ حکم کے مطابق کرے اور اسے آئین کے آرٹیکل 95 میں بیان اور اس کی ضرورت کے مطابق قومی اسمبلی رولز 2007 میں قواعد و ضوابط کے اصول 37 کے ساتھ پڑھا جائے۔ قومی اسمبلی سیکریٹریٹ کو 9 اپرہل کو ہونے والے اجلاس کا آرڈر آف ڈے جاری کرنے کا بھی کہہ دیا گیا ہے۔
عدالتی حکم کے مطابق قومی اسمبلی کا اجلاس تب تک ملتوی نہیں کیا جائے گا جب تک کہ تحریک کو نمٹا نہیں دیا جاتا یا جب تک قرارداد پر ووٹنگ نہیں ہو جاتی۔یاد رہے کہ اپوزیشن نے 7 مارچ کو وزیر اعظم کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد قومی اسمبلی سیکرٹریٹ میں جمع کرائی تھی جبکہ اسپیکر نے اسے 25 مارچ کو ایوان میں پیش کیا تھا، قانون کے تحت وہ اس بات کے پابند تھے کہ قرارداد پر تین اپریل تک ووٹنگ کرائی جائے، 3 اپریل کے دن کا آرڈر قرارداد پر ووٹنگ سمیت چھ نکات پر مشتمل تھا۔ 3 اپریل کے قومی اسمبلی کے ایجنڈے کے آئٹم 4 میں لکھا ہے کہ ’28 مارچ 2022 کو قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی پیش کردہ درج ذیل قرارداد پر ووٹنگ:، ’اس قرارداد کے ذریعے آئین کے آرٹیکل 95 کی شق (1) کے تحت اسلامی جمہوریہ پاکستان کا یہ ایوان قرار دیتا ہے کہ اسے وزیر اعظم جناب عمران خان پر عدم اعتماد ہے اور اس کے نتیجے میں وہ شق (4) ibid کے تحت عہدہ چھوڑ دیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ جب 3 اپریل کو قومی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر قاسم سوری نے اجلاس ملتوی کیا تھا تو اپوزیشن نے اپنے طور پر اجلاس کرایا، مسلم لیگ ن کے ایم این اے اور ایاز صادق اسپیکر منتخب ہوئے تھے اور عدم اعتماد کی قرارداد 197 ووٹوں سے منظور کرائی گئی تھی جبکہ حکومتی بینچوں پر موجود اراکین کی تعداد 144 تھی۔
قانونی ماہرین کا اصرار ہے کہ اگرچہ اسپیکر اسد قیصر کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی ہے تاہم اس کے باوجود وہ ہفتے کو ایوان کی صدارت کر سکتے ہیں۔ انہوں نے آئین کے آرٹیکل 53 (4) کا حوالہ دیا جس میں لکھا ہے کہ اسپیکر یا ڈپٹی اسپیکر کو عہدے سے ہٹانے کی قرارداد پر غور کیا جا رہا ہو تو وہ اسمبلی کے اجلاس کی صدارت نہیں کریں گے۔ ان کی رائے میں قوانین صرف اسد قیصر کو ایسے اجلاس کی صدارت کرنے سے روکتے ہیں جہاں ان کے خلاف عدم اعتماد پر غور کیا جا رہا ہو اور وہ ہفتہ کی کارروائی کی صدارت کر سکیں گے۔
تاہم دوسری جانب ایسی اطلاعات ہیں کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد عمران نے مزید گند ڈالنے کا فیصلہ کیا ہے اور اسی لیے مبینہ دھمکی آمیز مراسلے کو پبلک کرنے پر غور شروع کر دیا ہے۔ ذرائع کے مطابق بنی گالا میں وزیراعظم کی زیر صدارت اہم مشاورتی اجلاس میں دھمکی آمیز مراسلے کو پبلک کرنے بارے مشاورت کی گئی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ خط کو پبلک کرنے کے لیے کابینہ سے منظوری لیے جانے کا امکان ہے۔ تاہم اپوزیشن ذرائع کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد عمران خان کے دھمکی آمیز خط والے بیانیے سے ہوا نکل چکی ہے لہٰذا وہ ایسا کر بھی لیں تو انہین کچھ حاصل نہیں ہوگا۔