عمران کے لئے عدالتی ریلیف نے عدلیہ کی عزت خراب کی

سپریم کورٹ کے سینئر کوٹ رپورٹر اور معروف صحافی مطیع اللہ جان نے کہا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے توہین عدالت کیس میں عمران خان پر فرد جرم عائد کرنے کی بجائے ان کی مشروط معافی قبول کرنے کے عمل نے عدلیہ کی عزت اور وقار کو بری طرح مجروح کیا ہے چونکہ بظاہر عمران کے لیے مسلسل انصاف کا دوہرا معیار اپنایا جا رہا ہے۔ مطیع اللہ جان کا کہنا ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں 22 ستمبر کی عدالتی کارروائی کے دوران ججوں نے عمران سے زیادہ خود اپنی توہین کی۔ یہ کارروائی میرے لئے بہت الارمنگ تھی کیونکہ صاف نظر آ رہا تھا کہ عمران خان کے ساتھ امتیازی سلوک برتا جارہا ہے اور انصاف کا دوہرا معیار اپنایا جا رہا ہے۔ انکا کہنا تھا کہ مجھے افسوس ہے کہ عدالت نے عمران کو یہ کیوں نہیں کہا کہ انہیں روسٹرم پر آ کر تقریر کرنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ جو بھی کہنا چاہتے ہیں وہ لکھ کر لائیں۔ انکے مطابق پچھلی سماعت میں یہ طے ہوا تھا کہ 22 ستمبر کو فرد جرم عائد ہونی ہے اور اگر وہ معافی مانگنا چاہیں تو انہیں لکھا ہوا معافی نامہ جمع کروانا تھا۔ پھر ایسا کیا ہو گیا کہ عدالت نے فرد جرم عائد کرنے کی بجائے ہینڈسم کو روسٹرم پر بلا کر تقریر کرنے کا موقع دیا جس میں انہوں نے غیر مشروط معافی کے الفاظ تک استعمال نہیں کئے لیکن پھر بھی انہیں انصاف کی دھجیاں بکھیرتے ہوئے ریلیف دے دیا گیا۔
مطیع اللہ جان کہتے ہیں کہ عمران خان نے روسٹرم پر آکر کہا کہ اگر میں نے اپنی تقریر میں ریڈ لائن کراس کی ہے تو میں خاتون جج کے پاس جا کر ان سے معافی مانگنے کو تیار ہوں، لیکن انہوں نے عدالت میں جو کچھ کہا وہ مشروط معافی کے زمرے میں آتا ہے جب کہ عدالت کو غیر مشروط معافی درکار تھی۔ مطیع نے بتایا کہ عمران نے عدالت میں یہ بیان دیا کہ اگر خاتون جج کے حوالے سے انہوں نے ریڈ لائن کراس کی ہے تو وہ معافی مانگتے ہیں، لہذا یہ مشروط معافی بنتی ہے، غیر مشروط نہیں چونکہ غیر مشروط معافی مانگنے کا مطلب توہین عدالت کا الزام تسلیم کرنے کے مترادف ہوتا۔
نیا دور ٹی وی کے ٹاک شو ‘خبر سے آگے’ میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اگر توہین عدالت ہوئی ہے تو پھر عمران خان کو بار بار بچنے کا موقع کیوں دیا جا رہا ہے۔ میرا خیال ہے عدالت کی اتنی توہین عمران خان نے نہیں کی جتنی اس کیس میں عدالت خود اپنی توہین کر رہی ہے۔
دوسری جانب عمران کے وکیل حامد حان نے بھی وضاحت کی ہے کہ خان صاحب نے عدالت سے غیر مشروط معافی نہیں مانگی بلکہ یہ کہا ہے کہ اگر عدالت کو لگتا ہے کہ انہوں نے کوئی ریڈلائن کراس کی ہے تو اس کے لیے معافی مانگنے کو تیار ہیں۔ عدالتی کارروائی کے بعد مطیع اللہ جان سے گفتگو کرتے ہوئے حامد خان نے کہا کہ غیر مشروط معافی کا مطلب توہین کا اقرار کرنا ہوتاہے جبکہ عمران کا مؤقف یہ ہے کہ انہوں نے توہین عدالت نہیں کی۔ انہوں نے پچھلی عدالتی پیشی پر جو مؤقف اپنایا تھا، انکا موقف اب بھی وہی ہے اور ان کی جانب سے عدالت میں جمع کروایا جانے والا حلف نامہ بھی اسی پیرائے میں ہوگا۔ حامد خان نے کہا کہ عمران نے پہلے بھی اپنے دونوں جوابات میں یہی کہا ہے کہ وہ عدالت کو مطمئن کرنا چاہتے ہیں کہ انکی جانب سے توہین عدالت نہیں ہوئی۔ لیکن اگر عدالت پھر بھی ایسا محسوس کرتی ہے تو وہ اس کے لیے معذرت کرلیتے ہیں۔
عمران خان کے توہین عدالت کیس پر گفتگو کرتے ہوئے معروف قانون دان اور سابق اٹارنی جنرل عرفان قادر کا کہنا تھا کہ عدالت نے ان کی مشروط معافی کے بعد بھی کیس ختم نہیں کیا بلکہ وہ سزا کی طرف جانا چاہتی ہے۔ میرے خیال میں 3 اکتوبر کو عدالت عمران خان کو توہین عدالت کی کم سے کم سزا دے گی۔ اگر سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کی طرح عمران کو بھی عدالت کے برخاست ہونے تک سزا ہو جاتی ہے تو خان صاحب 5 سال کے لئے نااہل ہو جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ اگر خان صاحب یہ سوچتے ہیں کہ سڑکوں پر آکر اداروں کو للکارنے سے وہ نااہل نہیں ہوں گے تو یہ ان کی غلط فہمی ہے۔ انہوں نے کہا کہ عمران نے عوامی بیانیے کو مضبوط کرنے کیلئے عدلیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا، اداروں پر تنقید کی اور انتظامیہ کو بھی نہیں چھوڑا، اس لئے انہیں توہین عدالت کیس کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ عرفان قادر نے کہا کہ اگر عمران کو عدالتوں سے سزا نہ بھی ملی تو وہ الیکشن کمیشن کے ہاتھوں نااہل ہو جائیں گے۔ تاہم انہوں نے کہا کہ میں ذاتی طور پر توہین عدالت کے قانون کے خلاف ہوں چونکہ یہ آزادی اظہار رائے پر قدغن عائد کرتا ہے جو پاکستانی آئین کی بھی خلاف ورزی ہے۔