فواد چودھری نے PTIکیوں چھوڑی،اگلی منزل کیا ہے؟

ماضی میں شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری دکھانے میں پیش پیش رہنے والے فواد چودھری کے تحریک انصاف کے ساتھ سیاست چھوڑنے کے اعلان نے سیاسی تجزیہ کاروں کو بھی ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے۔ ہر طرف یہ سوال گونجتا سنائی دیتا ہے کہ وہ کون سی وجوہات تھیں جس کی وجہ سے عمران خان کے منظور نظر رہنے والے فواد چودھری پر زمان پارک کے دروازے بند کر دئیے گئے اور تحریک انساف چھوڑنے سے پہلے ہی انھیں پارٹی کے واٹس ایپ گروپس تک سے ریمو کر دیا گیا؟سینئر نائب صدر پاکستان تحریک انصاف فواد چوہدری کے تحریک انصاف چھوڑنے کی اندرونی کہانی سامنے آ گئی ہے،ذرائع کے مطابق پاکستان تحریک انصاف میں فواد چوہدری کے حوالے سےاختلاف سامنے آگئے تھے۔ پارٹی رہنماؤں کو خدشہ تھا کہ فواد چوہدری عمران خان کی گرفتاری کے بعد سپریم کورٹ میں ایک منصوبہ کے تحت رہے۔ پارٹی کو فواد چوہدری کے نومئی کے دوران ایک ہفتے کی سرگرمیوں کی وجہ سے پارٹی قیادت کو تحفظات تھے جبکہ گرفتاری کی خوف سے اسلام آباد ہائیکورٹ میں بھاگنے کی ویڈیو پر بھی عمران خان بشدید برہم ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ فواد چودھری کے اس عمل سے پارٹی کارکنان کے حوصلے ٹوٹے ہیں۔ پارٹی ذرائع نے بتایا کہ فواد کے پارٹی چھوڑنے سے قبل ہے تحریک انصاف کی سینئر قیادت نے فواد چوہدری سے رابطہ منقطع کر لیا تھا۔ فواد چوہدری کو واٹس ایپ پر پارٹی رہنماؤں نے بلاک کر دیا تھا جبکہ عمران خان بھی ان کو بلاک کر چکے تھے۔ پارٹی کو فواد چوہدری سے یہ بھی خدشہ تھا کہ فواد چوہدری نے پارٹی کے راز چند شخصیات تک پہنچائے۔ ان تمام وجوہات کی بنا پر فواد چوہدری نے پارٹی سے علیحدگی کا اعلان کیا۔ دوسری جانب پارٹی میں اعتماد کی بحالی کی بجائے فواد چوہدری نے اہلیہ سے عمران خان پر تنقید کروائی۔ فواد چوہدری کی اہلیہ کی جانب سے رد عمل کی وجہ سے قیادت غصہ ہوئی۔
خیال رہے کہ ایک بیان میں حبا چوہدری نے پی ٹی آئی چیئرمین سے شکوہ کیا کہ عمران خان، آپ فواد چوہدری، ملیکہ بخاری، جمشید چیمہ اور مسرت چیمہ کے نام لکھنا بھول گئے؟اس سے قبل عمران خان نے ایک بیان میں پی ٹی آئی کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی اور جنرل سیکرٹری اسد عمر کے نام لکھ کر ان کی گرفتاریوں کو غیرقانونی قرار دے کر مذمت کی تھی۔
ذرائع کے مطابق پارٹی قیادت کو یہ خدشہ بھی تھا کہ فواد چوہدری کے پاس ایسے ثبوت ہیں جو عمران خان کے خلاف استعمال ہو سکتے ہیں۔ ذرائع کے مطابق پارٹی چھوڑنے سے قبل فواد چوہدری نے فیصل واوڈا سے ملاقات بھی کی تھی۔ فیصل واوڈا کی فواد چوہدری سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات ہوئی دونوں رہنماؤں کے مابین ملاقات ایک گھنٹے سے زائد جاری رہی۔ گزشتہ ایک ہفتے سے روپوش فواد چوہدری فیصل ووڈا کے ہمراہ ہی ان کے گھر سے روانہ ہو گئے تھے۔ذرائع نے بتایا تھا کہ فیصل واوڈا سے ملاقات کے بعد فواد چوہدری بڑا فیصلہ کرنے کو تیار ہوئے، اس دوران کا کہنا تھا کہ 9 مئی کے واقعات کی وجہ سے سیاست سے دل اٹھ گیا ہے۔فیصل واوڈا سے ملاقات پر بھی عمران خان نے قریبی ساتھیوں سے فواد چودھری بارے ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔ انھی وجوہات کی بناء پر فواد چودھری نے بالآخر اپنی رہی سہی ساکھ کو بچاتے ہوئے پارٹی چھوڑنے کا اعلان کیا۔
تاہمیہ پہلا موقع نہیں ہے کہ فواد چوہدری نے کسی سیاسی جماعت سے راہیں جدا کی ہوں، اس سے قبل وہ پاکستان مسلم لیگ (ق)، پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) اور سابق صدر پرویز مشرف کے ترجمان کے طور پر بھی سیاست کے میدان میں سرگرم رہ چکے ہیں۔فواد چودھری نے گزشتہ 15 سال کے دوران چوتھی سیاسی پارٹی سے علیحدگی اختیار کی ہے۔سابق وفاقی وزیر فواد چودھری نے 2008 کے بعد مرحوم صدر پاکستان جنرل (ر) پرویز مشرف کی آل پاکستان مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی اور اسی دوران وہ ان کے ترجمان بھی رہے۔فواد چودھری نےمارچ 2012 میں آل پاکستان مسلم لیگ سے مستعفی ہو کر پاکستان پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی جس کے بعد انہیں سابق وزیراعظم یوسف سید رضا گیلانی کا معاون خصوصی برائے اطلاعات و سیاسی امور مقرر کیا گیا۔فواد چودھری نے اپنے سیاسی سفر کے دوران کچھ عرصے کےلیے پاکستان مسلم لیگ (ق) میں بھی شمولیت اختیار کی تھی۔جون 2016 میں فواد چودھری نے تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی تھی
جو شہرت اور عروج اُنہیں پی ٹی آئی میں ملا وہ ماضی میں اُنہیں کسی سیاسی جماعت کے ساتھ منسلک رہنے پر نہیں ملا تھا۔ اپنی شعلہ بیانی اور سیاسی حریفوں کو آڑے ہاتھوں لینے والے فواد چوہدری کا شمار عمران خان کے قریبی ساتھیوں میں ہوتا تھا۔رواں برس جب عمران خان نے پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں توڑنے کا فیصلہ کیا تو ان معاملات سے آگاہ افراد کے مطابق فواد چوہدری اسمبلیاں توڑنے کا مشورہ دینے والوں میں پیش پیش تھے۔سابق وزیرِ اعلٰی پنجاب چوہدری پرویز الہٰی کی بھی ایک نامعلوم شخص کے ساتھ گفتگو کی لیک ہونے والی مبینہ آڈیو میں اُنہوں نے پنجاب اسمبلی ٹوٹنے کا ذمے دار فواد چوہدری کو قرار دیا تھا۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی کہتے ہیں کہ فواد چوہدری پنجاب کی وزارتِ اعلٰی کے خواہش مند تھے، لیکن عمران خان نے اُنہیں نظرانداز کر کے سردار عثمان بزدار کو وزیرِ اعلٰی مقرر کر دیا۔ سلمان غنی کا کہنا تھا کہ یہی وجہ تھی کہ فواد چوہدری عثمان بزدار کے طرزِ حکومت پر تنقید کرنے والوں میں پیش پیش تھے۔سن 2018 میں جب پی ٹی آئی اقتدار میں آئی تو فواد چوہدری کو وزیرِ اطلاعات و نشریات مقرر کیا گیا، تاہم کچھ عرصے بعد اُنہیں وزارتِ سائنس کا قلم دان سونپ دیا گیا۔ لیکن بعدازاں وہ پھر وزیرِ اطلاعات بنے۔
سلمان غنی کہتے ہیں کہ فواد چوہدری بلا کے ذہین اور اچھے مقرر ہونے کے باعث پارٹی قیادت کے قریب رہنے کا ہنر جانتے تھے۔اُن کے بقول یہی وجہ تھی کہ وہ نہ صرف پرویز مشرف بلکہ پیپلزپارٹی کے دو وزرائے اعظم کے علاوہ عمران خان کا دل جیتنے میں بھی کامیاب رہے اور پی ٹی آئی کے دورِ حکومت میں اُنہیں کھل کر کھیلنے کا موقع ملا۔سلمان غنی کہتے ہیں فواد چوہدری کا شمار پی ٹی آئی کے اُن رہنماؤں میں ہوتا تھا جنہوں نے گزشتہ برس پی ٹی آئی کے اقتدار سے نکلنے کے بعد مزاحمتی سیاست پر زور دیا۔ان کے بقول گزشتہ برس جب عمران خان نے اسٹیبلشمنٹ سے ٹکر لینے کا فیصلہ کیا تو اس کا مشورہ دینے والوں میں بھی فواد چوہدری شامل تھے۔ان کا کہنا تھا کہ مزاحمتی سیاست اور اسٹیبلشمنٹ پر تنقید کے ذریعے پی ٹی آئی عوامی مقبولیت حاصل کرنے میں تو کامیاب ہوئی لیکن اس کے اسٹیبلشمنٹ سے معاملات طے ہونے کے بجائے مزید خراب ہو گئے۔
سینئر صحافی مجیب الرحمٰن شامی کہتے ہیں کہ گو کہ فواد چوہدری عمران خان کے اہم مشیر تھے، لیکن عمران خان جب کسی فیصلے کی ٹھان لیتے تھے تو وہ کسی کی نہیں سنتے تھے۔مجیب الرحمٰن شامی کہتے ہیں کہ فواد چوہدری ایک بڑے گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں۔ اُن کے چچا چوہدری الطاف حسین پنجاب کے گورنر رہ چکے ہیں جب کہ ایک چچا لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس تھے۔مجیب الرحمٰن شامی کا کہنا تھا کہ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو فواد چوہدری کا سیاسی پس منظر کافی طویل ہے۔ لہذٰا اُن کی سیاست میں واپسی ہو سکتی ہے۔اُن کے بقول کچھ وقت گزرنے کے بعد پی ٹی آئی چھوڑنے والے عناصر کسی نہ کسی پلیٹ فارم پر ضرور اکٹھے ہوں گے اور ان میں فواد چوہدری بھی شامل ہوں گے۔
سلمان غنی کہتے ہیں کہ سیاست دان کے پاس ہمیشہ مواقع موجود رہتے ہیں۔ آپ انہیں ایک جگہ سے ماریں گے تو وہ کسی دوسری طرف سے سامنے آ جائیں گے۔وہ سمجھتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ تحریکِ انصاف کے اندر سے کوئی نئی پارٹی وجود میں آ جائے تو فواد چوہدری اس کا حصہ بن جائیں۔