چارسدہ میں ڈھائی برس کی بچی کا بہیمانہ قتل

صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع چارسدہ میں ڈھائی سالہ بچی زینب کی لاش ملی ہے جسے تشدد کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیا گیا۔
علاقہ مکینوں اور چارسدہ پولیس کا کہنا ہے کہ بچی منگل کی شام گھر کے باہر دیگر بچوں کے ساتھ کھیلتے ہوئے شیخ کلے قلعہ کے علاقے سے لاپتہ ہوگئی تھی۔ بدھ کو پرانگ پولیس کو اطلاع ملی کہ بچی کی لاش جبا کرونا کے علاقے میں پڑی ہوئی ہے، پرانگ اور داؤد زئی پولیس نے لاش برآمد کی اور اسے پوسٹ مارٹم کے لیے پشاور کے لیڈی ریڈنگ ہسپتال منتقل کیا۔ چارسدہ کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر محمد ثاقب خان نے کہا کہ پولیس نے ابتدائی طور پر بچی کے والد کی مدعیت میں نامعلوم اغوا کاروں کے خلاف چارسدہ کے پرانگ پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آر درج کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ لاش ملنے کے بعد ایف آئی آر قتل کے جرم میں پاکستان پینل کوڈ کی دفع 302 کے تحت درج کی گئی۔ ثاقب خان نے کہا کہ ابتدائی تفتیش سے پتہ چلا ہے کہ بچی کو قتل سے قبل تشدد کا نشانہ بنایا گیا اور اس کے جسم پر تشدد کے نشانات بھی تھے، پولیس میڈیکل رپورٹ کا انتظار کر رہی ہے جس کے بعد پاکستان پینل کوڈ کی مزید دفعات کو مقدمے کا حصہ بنایا جائے گا۔ زینب کے والد نے کہا کہ ان کے اہلخانہ کی کسی سے دشمنی نہیں اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ ملزمان کو گرفتار کریں تاکہ وہ ان سے پوچھ سکیں کہ ان کی بیٹی نے ان کا کیا بگاڑا تھا جو انہوں نے یہ جرم کیا۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آج میری زینب ہے، کل کسی اور زینب کو اس کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا نے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے آئی جی ڈاکٹر ثنااللہ عباسی اور دیگر کو ملزمان کی فوری گرفتاری کا حکم دیا ہے۔ انہوں نے اسے دل دہلا دینے والا واقعہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ملوث افراد کو مثال بنایا جائے گا، ملزمان قانون سے بچ نہیں سکیں گے اور متاثرہ خاندان کو انصاف فراہم کیا جائے گا۔
ادھر سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ٹوئٹر پر زینب کےلیے انصاف اور ایک اور زینب کے ہیش ٹیگ ٹرینڈ کر رہے ہیں اور صارفین نے ملک میں بچوں کے قتل پر شدید غم و غصے کا اظہار کیا ہے۔ سوشل میڈیا پر ڈھائی سالہ بچی کی تصویر زیر گردش ہے جس میں اس واقعے کا 2018 میں قصور میں ریپ کے بعد قتل کی گئی ننھی زینب کے کیس سے موازنہ کیا جا رہا ہے۔ قصور کی زینب امین 4 جنوری 2018 کو لاپتہ ہوئی تھی جس کے بعد ایک پولیس کانسٹیبل کو اس کی لاش شہباز خان روڈ پر واقع کچرہ کنڈی سے ملی تھی۔ پولیس کا کہنا تھا کہ لڑکی کو چار سے پانچ دن قبل ہی قتل کردیا گیا ہے۔ ایک سال کے عرصے میں یہ قصور میں ہونے والا 12واں اس طرح کا واقعہ تھا جس پر عوام نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا تھا اور ملک بھر میں اس واقعے کے خلاف احتجاج بھی کیا گیا تھا۔قصور میں اس واقع کے بعد فسادات شروع ہو گئے تھے جس می ںدو افراد مارے گئے تھے اور ٹوئٹر پر بچوں کو جرم کا نشانہ بنانے والوں کے خلاف مسلسل آواز اٹھائی جا رہی ہے۔زینب ریپ و قتل کیس کے دو سال بعد قومی اسمبلی سے زینب زلرٹ بل منظور کیا گیا تھا جس مں بچوں سے زیادتی، تشدد اور قتل کے واقعات کی تیز تر تفتیش اور ملزمان کو فوری سزا کو یقینی بنایا گیا ہے۔سندھ پولیس نے بھی اس سلسلے میں موبائل فون ایپلی کیشن ‘دی زینب الرٹ موبائل ایپ تیار کی ہے جس سے بچوں سے جرائم میں ملوث افراد کا ڈیٹا بیس تیار کرنے میں مدد ملے گی۔ ملک میں نئے قوانین بنائے جانے کے ساتھ ساتھ ہر سطح پر احتجاج کے باوجود بچوں سے زیادتی، تشدد اور انہیں قتل کرنے کا سلسلہ جاری ہے اور پاکستان میں سال 2020 کے پہلے حصے میں ایک ہزار 489 یعنی روزانہ کم از کم 8 بچوں کو جنسی استحصال کا نشانہ بنایا گیا۔بچوں کے تحفظ کے لیے کام کرنے والی تنظیم ‘ساحل’ کے مطابق ان میں سے 331 بچوں کو اغوا، 160 کو ریپ، 233 سے غیرفطری تعلق قائم کیا گیا، 69 کا گینگ ریپ جب کہ 104 سے گینگ نے غیرفطری تعلق قائم کیا۔ ساحل کے اعدادوشمار کے مطابق ان میں سے 13 لڑکوں اور 12 لڑکیوں کو جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کے بعد قتل کردیا گیا جب کہ ایک بچی کا گینگ ریپ کے بعد قتل کیا گیا۔

Related Articles

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button