مولانا فضل الرحمان کی نجی ملیشیا انصارالاسلام کیا ہے؟

وزیراعظم عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد داخل کئے جانے کے بعد مرکزی اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ساتھ جمعیت علمائے اسلام ف کی رضاکار فورس انصار الاسلام بھی ایک اہم فریق بن چکی ہے، لہذا کپتان حکومت نے اس کا توڑ کرنے کے لئے اسلام آباد کے پارلیمنٹ لاجز میں 10 مارچ کو ایک گرینڈ آپریشن کیا لیکن مولانا فضل الرحمان کی جانب سے ملک گیر پہیہ جام ہڑتال کرنے کی دھمکی کے بعد بالآخر تمام گرفتار شدگان کو رہا کرنا پڑ گیا۔ یاد رہے کہ انصار الاسلام کے رضاکاروں کے اپوزیشن اراکین کی حفاظت کے لیے پارلیمنٹ لاجز میں قیام پذیر ہونے کے بعد حکومت نے اسے نجی ملیشیا قرار دیتے ہوئے اسکے ساتھ سختی سے نمٹنے کا فیصلہ کیا تھا۔
تاہم مبصرین کے خیال میں انصارالاسلام فورس نجی ملیشیا کی تعریف پر پورا نہیں اترتی اور حکومت محض مولانا فضل الرحمان سے تعلق کی بنا پر جے یو آئی کی ذیلی تنظیم کو انتقام کا نشانہ بنانا چاہتی ہے۔ یاد رہے کہ پارلیمنٹ لاجز میں جے یو آئی کے ایک رکن اسمبلی کے فلیٹ سے پولیس نے انصار الاسلام کے 19 کارکنان کو یہ کہہ کر گرفتار کیا تھا کہ یہ تنظیم 2019 میں غیر قانونی قرار دی جا چکی ہے۔ تحریک انصاف حکومت کی جانب سے انصار الاسلام کے خلاف 19 مارچ کا ایکشن پہلا نہیں تھا بلکہ اس سے قبل 2019 میں وفاقی حکومت کی ایک سمری میں بھی وزارتِ قانون کو مطلع کیا تھا کہ جمعیت علمائے اسلام نے انصار الاسلام کے نام سے ایک شدت پسند گروپ قائم کر رکھا ہے جس میں نجی افراد کو رضاکاروں کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔ وزارت داخلہ کا کہنا تھا کہ حالیہ دنوں میں سامنے آنے والی چند ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اس فورس کے کارکنان کے ہاتھوں میں لاٹھیاں ہیں جن پر لوہے کی خاردار تاریں لپیٹی ہوئی ہیں، انکے بقول اس فورس کا مقصد حکومت کی رٹ کو چیلنج کرنا ہے۔ وزارتِ داخلہ کے ایک نوٹیفکیشن میں کہا گیا تھا کہ وفاقی حکومت کے پاس ایسے شواہد موجود ہیں کہ انصار الاسلام ’ایک فوجی تنظیم کی حیثیت سے کام کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے‘ جو کہ آئین کے آرٹیکل 256 کی خلاف ورزی ہے۔ یہ ایک منظم، تربیت یافتہ اور ہتھیاروں سے لیس تنظیم ہے جو کہ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے مقاصد کو فروغ دینے کے لیے طاقت کا مظاہرہ یا استعمال کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
وزارت داخلہ کے نوٹیفیکیشن میں کہا گیا کہ یہ تنظیم ملک کے امن اور سلامتی کے لیے حقیقی خطرے کا باعث ہو سکتی ہے۔ تاہم جے یو آئی کی مرکزی قیادت کا کہنا ہے کہ انصار الاسلام طرز کی رضا کار تنظیمیں سیاسی جماعتوں کے ساتھ وابستہ ہوتی ہیں اور اِن کا بنیادی مقصد جماعت کے قائدین اور جماعت کی سرگرمیوں کو تحفظ فراہم کرنا ہوتا ہے۔ انصار الاسلام کا فرق یہ ہے کہ اِسکے رضا کاروں کو جے یو آئی نے ایک یونیفارم بھی دے رکھا ہے مگر اس کی بنیاد پر ہم یہ نہیں کہہ سکتے کہ یہ کوئی نجی ملیشیا ہے، بلکہ یہ والنٹئیرز ہیں جن کو ضرورت کے وقت تعینات کیا جاتا ہے۔ ’انصار الاسلام‘ بنیادی طور پر خاکسار تحریک یا تحریک الاحرار سے متاثر ہے۔
اب اہم سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کا آئین اور قانون اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ اس نوعیت کی رضاکار تنظیموں پر پابندی عائد کی جائے، اسکا جواب یہ ہے کہ صرف وہ تنظیمیں کالعدم قرار دی جاتی ہیں جو تشدد، نفرت انگیز تقاریر یا ریاست کے خلاف اقدامات یا ارادے رکھتی ہوں، تاہم رضا کار تنظیموں کے حوالے سے قانون خاموش ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ اس طرح کے رضاکار ہر جماعت اور اداروں کے ساتھ ہوتے ہیں اور انھیں پرائیویٹ سکیورٹی گارڈز کہا جا سکتا ہے۔ انصار الاسلام کا نام چونکہ مذہبی ہے یا ایسی تنظیموں سے ملتا جلتا ہے جو کسی حوالے سے تشدد میں ملوث رہے ہیں اس لیے اس طرف زیادہ توجہ دی جاتی ہے حالانکہ اس طرح کے رضاکار ہر جماعت کے ساتھ ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ جماعت اسلامی اور دیگر سیاسی جماعتوں کی بھی رضاکار تنظیمیں موجود ہیں۔ یہ غیر رسمی رضاکار ہوتے ہیں اور ان میں زیادہ تر جماعت کے کارکن، مدارس کے طلبا شامل ہوتے ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سینیئر رہنما مولانا عبدالغفور حیدری کے مطابق رضاکار تنظیم انصار الاسلام کا قیام اسی وقت عمل میں آیا تھا جب جمعیت علمائے اسلام معرض وجود میں آئی تھی۔ بقول مولانا حیدری جے یو آئی (ف) کے آئین میں انصار الاسلام کے نام سے باقاعدہ ایک شعبہ ہے جس کا کام فقط انتظام و انصرام قائم رکھنا ہے۔ یہ جمعیت کے ماتحت اور اس کی نگرانی میں کام کرتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ انصار الاسلام کا کام جمعیت کی جانب سے منعقد کیے جانے والے جلسے، جلسوں، کانفرنسوں اور دیگر تقاریب میں سکیورٹی کے فرائض سرانجام دینا ہے۔ ضلعی سطح پر ہونے والے جلسوں میں 100 سے زائد رضاکار نہیں ہوتے، صوبائی سطح پر ہونے والے جلسے میں 500 سے ایک ہزار اور ملک گیر سطح پر ہونے والے جلسوں میں رضاکاروں کی تعداد دس ہزار تک ہو سکتی ہے۔ بقول مولانا حیدری ماضی قریب میں ہونے والی جمعیت کی تمام بڑی کانفرنسوں اور جلوسوں کی سکیورٹی اور انتظام کی ذمہ داری انصار الاسلام کی ہی تھی۔ رضاکاروں کے بنیادی کاموں میں سے شرپسندوں پر نظر رکھنا بھی ہے اور یہی وجہ ہے کہ جمعیت کے ہزاروں اور لاکھوں کے اجتماعات ہوئے مگر آج تک کسی دکان یا مکان کا شیشہ تک نہیں ٹوٹا۔ انھوں نے بتایا کہ جمعیت کے ذمہ داران کسی بھی رضاکار کا نام فائنل کرنے سے قبل اس کی مکمل چھان بین کرتے ہیں تاکہ کوئی شر پسند انتظامی کاموں میں شامل نہ ہو پائے۔ جمعیت علمائے اسلام کے آئین کی دفعہ نمبر 26 کے مطابق ہر مسلمان ‘پابند صوم و صلوۃ، مستعد اور باہمت’ جو جمعیت علمائے اسلام کا رکن ہو وہ انصار الاسلام کا کارکن بن سکتا ہے۔