میجر جنرل فیصل نصیر عمران کی چھیڑکیوں بن گئے؟

ماضی میں ڈرٹی ہیری جیسے القابات دینے کے بعد اب عمران خان نے نہ صرف خود پر ہونے والے قاتلانہ حملے بلکہ سینئر صحافی ارشد شریف کے قتل کا الزام بھی سینئر انٹیلجینس آفیسر میجر جنرل فیصل نصیر پر عائد کر دیا ہے۔ عمران خان کی حالیہ الزام تراشی پر نہ صرف اتحادی حکومت نے سخت اقدامات کا عندیہ دیا ہے بلکہ پاک فوج نے بھی عمران خان کے الزامات کو جھوٹا قرار دیتے ہوئے انھیں سخت وارننگ دے دی ہے۔

تاہم سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر عمران خان میجر جنرل فیصل نصیر کے اتنے خلاف کیوں ہیں، اقتدار سے بے دخلی کے بعد سے وہ میجر جنرل فیصل نصیر پر الزامات عائد کرتے آ رہے ہیں، کبھی وہ عمرانڈوز کی گرفتاری کا الزام ان پر لگاتے ہیں کبھی تشدد کا، کبھی پی ٹی آئی رہنماؤں کو برہنہ کرنے کا ذمہ دار انھیں ٹھہراتے ہیں کبھی ان پر پارٹی وفاداری بدلنے پر دباؤ ڈالنے کا الزام عائد کرتے ہیں۔ عمران خان نے خود پر ہونے والے مبینہ قاتلانہ حملے کی منصوبہ بندی کا الزام بھی جن تین شخصیات پر لگایا ان میں سے ایک میجر جنرل فیصل نصیر تھے۔ دیگر دو افراد میں وزیراعظم شہباز شریف اور وفاقی وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ شامل تھے۔

تاہم سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ عمران خان کے الزامات کا نشانہ بننے والے میجر جنرل فیصل نصیر کون ہیں؟ فوجی افسر فیصل نصیر کو میجر جنرل کے عہدے پر ترقی دی گئی تھی جس کے بعد وہ اگست میں پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی میں تعینات ہوئے تھے۔وہ آئی ایس آئی کے انٹرنل ونگ جسے عام طور پر ’پولیٹیکل ونگ‘ یا صرف ’سی‘ بھی کہا جاتا ہے، کی سربراہی کر رہے ہیں۔ اس عہدے کو عام طور پر ’ڈی جی سی‘ کہا جاتا ہے۔ خیال رہے کہ اس سے مراد کاؤنٹر انٹیلیجنس نہیں، بلکہ محض ایک حرف کے طور استعمال ہوتا ہے۔ آئی ایس آئی میں ان کے علاوہ ڈی جی اے، بی وغیرہ جیسے مخفف بھی استعمال ہوتے ہیں۔

خیال رہے کہ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید بھی بطور میجر جنرل اسی عہدے پر تعینات تھے اور انہیں بھی مسلم لیگ ن کی جانب سے سیاسی انجینئیرنگ کے الزامات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ان کے بعد میجر جنرل عرفان ملک پر بھی مسلم لیگ ن کی چیف آرگنائزر مریم نواز نے سیاسی انجینئیرنگ میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔اس کے علاوہ سابق ڈی جی آئی ایس آئی جنرل (ر) ظہیر الاسلام بھی ڈی جی سی کے طور پر کام کر چکے ہیں۔

میجر جنرل فیصل نصیر نے فوج کی پنجاب رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا۔ اپنے کیریئر کے ابتدائی حصے میں ہی وہ کور آف ملٹری انٹیلیجنس میں چلے گئے جس کے بعد ان کا کیریئر انٹیلجنس اسائنمنٹس تک رہا ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ ان سے متعلق زیادہ معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ وہ اپنے کیریئر کے دوران شورش زدہ علاقوں میں تعینات رہے اور اہم انٹیلیجنس بیسڈ آپریشنز کا حصہ رہے ہیں۔ انھوں نے گذشتہ دو دہائیوں کے دوران انتہائی مطلوب دہشتگردوں کو گرفتار کیا یا کیفر کردار تک پہنچایا۔وہ اپنے کیرئیر کے دوران بلوچستان اور سندھ میں انٹیلیجنس بیسڈ آپریشنز کے لیے بھی شہرت رکھتے ہیں۔انہیں اب تک تمغہ بسالت اور بہادری کے دیگر اعزازات کے علاوہ ایڈمنسٹریٹو اعزازات بھی دیے جا چکے ہیں۔

میجر جنرل فیصل نصیر فوجی حلقوں میں ایک سخت گیر اور پروفیشنل انٹیلجنس افسر کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ ان سے قبل اس عہدے پر میجر جنرل کاشف نذیر تعینات تھے۔اپنے کیریئر کے دوران جنرل فیصل دو مرتبہ بلوچستان میں تعینات رہے، انھوں نے سندھ اور بلوچستان میں متعدد بڑی انٹیلیجینس بیسڈ کاروائیاں کیں۔

بلوچستان کے سابق وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کے مطابق میجر جنرل فیصل نصیر فوجی حلقوں میں ’سپر سپائی‘ کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ سرفراز بگٹی کے مطابق ’بطور سابق وزیر داخلہ بلوچستان میں ان کی اہلیت اور قابلیت کا معترف ہوں اور وہ اپنی قابلیت اور پیشہ ورانہ خدمات کی وجہ سے ’سپر سپائی‘ کے لقب سے جانے جاتے ہیں۔اس بارے میں بات کرتے ہوئے بلوچستان کے سابق وزیر داخلہ سینیٹر سرفراز بگٹی نے بتایا کہ میجر جنرل فیصل بلوچستان میں انتہائی کشیدہ حالات کے دوران تعینات رہے ہیں۔

اس سوال پر کہ عمران خان یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ میجر جنرل فیصل نصیر سیاستدانوں اور صحافیوں کے خلاف کاروائیوں میں ملوث ہیں، سینیٹر سرفراز بگٹی نے کہا کہ ’انٹیلجینس آپریٹر کی سب سے بڑی خوبصورتی یہ ہے کہ وہ ہر شخص کو اس کے مطابق ڈیل کرتا ہے۔ سیاسی لوگوں کو سیاسی انداز میں اور دہشت گردوں کو ان کے انداز میں۔ جب یہ بلوچستان اور سندھ میں تعینات تھے تو کبھی کسی سیاستدان کو ان سے کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ ان کی بلوچستان میں حالیہ اسائنمنٹ کےدوران وہاں پینسٹھ ایم پی ایز تھے مگر کبھی کسی نے یہ نہیں کہا انھوں نے کسی سے غلط انداز میں بات کی ہو یا انھیں عزت نہ دی ہو۔ تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ سیاست چمکانے کا کھیل ہے۔‘

تاہم سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہ سیاسی جماعتوں کی جانب سے متنازع بنائے جانے والے پہلے انٹیلیجینس افسر ہیں؟اس سوال کا جواب نفی میں ہی ہے۔میجر جنرل فیصل نصیر وہ پہلے ’ڈی جی سی‘ نہیں جن کا ذکر سیاستدانوں کی زبانوں پر اور میڈیا کی خبروں میں مل رہا ہے۔ ان سے پہلے موجودہ لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کا نام اس وقت بار بار سامنے آیا جب وہ ڈی جی سی تھے۔یہاں تک کہ فیض آباد کے مقام پر تحریک لبیک پاکستان اور اس وقت مسلم لیگ ن کی حکومت کے درمیان معاہدے کی دستاویز پر ثالث کے طور پر فیض حمید کے دستخط تھے اور معاملہ عدالت پہنچنے پر ان کا نام ہر طرف سنائی دیا تھا۔بعدازاں فیض حمید آئی ایس آئی کے سربراہ بھی بنے اور مسلم لیگ ن کے قیادت بشمول سابق وزیراعظم نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز نے متعدد بار جنرل فیض حمید کا نام لیا اور ان پر ’سیاسی انجنیئرنگ‘ کے الزامات لگائے تھے۔

اسی طرح جنرل فیض حمید کے بعد تعینات ہونے والے میجر جنرل عرفان ملک تھے جن کا نام مریم نواز نے لیا اور ان پر بھی سیاسی مداخلت کے الزامات لگائے گئے۔

تاہم یہاں یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کک آئی ایس آئی میں انٹرنل ونگ یا پولیٹیکل ونگ ہوتا کیا ہے؟آئی ایس آئی کا ’پولیٹکل ونگ‘ ذوالفقار علی بھٹو نے قائم کیا تھا لیکن اس وقت سرکاری یا باضابطہ طور پر آئی ایس آیس میں ’پولیٹیکل ونگ‘ موجود نہیں ہے۔تاہم آئی ایس آئی کا نام نہاد ’سیاسی ونگ‘ مختلف ادوار میں متنازع بنتا رہا ہے اور اس پر ’پولیٹیکل انجینیئرنگ‘ کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ اگرچہ اس ونگ کا بنیادی کام سیاسی سرگرمیوں اور لیڈران پر نظر رکھنا ہے کہ وہ کسی ملک دشمن سرگرمی کا حصہ نہ بنیں لیکن مختلف حلقے یہ الزامات لگاتے رہے ہیں کہ یہ کردار مبہم اور مشکوک ہے۔اس عہدے پر تعینات افسر وسیع اختیارات کا مالک ہوتا ہے اور وہ سیاسی جماعتوں سے رابطے اور ان کی سرگرمیوں پر نظر رکھتا ہے۔ عسکری ماہرین کے مطابق آئی ایس آئی میں یہ عہدہ اتنا اہم ہے کہ ماضی قریب میں اس عہدے پر تعینات رہنے والے افسران بعدازاں اس ادارے کے سربراہ بھی بنے۔ ان میں لیفٹیننٹ جنرل ظہیر الاسلام، اور لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید شامل ہیں۔

Related Articles

Back to top button